نیند کے خلاف ایک بیانیہ

خالد جاوید: سے یاد آنے لگا کہ کسی دن کوئی کہہ رہا تھا کہ ڈاکیے کی وردی اب بجائے خاکی کے نیلی ہوا کرے گی۔ مگر اسے یہ منظور نہیں، کیوں کہ ڈاکیہ نیلے آسمان سے پَر لگائے زمین پر اترتا ہوا کوئی پیغام رساں نہ تھا۔ وہ خلا سے نہیں آ رہا تھا۔ ڈاکیہ تو زمین کا بیٹا تھا۔ وہ زمین سے زمین پر ہی چلتا تھا۔ اس لیے اس کو تو مٹی اوڑھے ہوئے ہی گھومتے رہنا چاہیے جو کہ زمین کا رنگ ہے۔

کیا آپ نے ہندوستانی یونیورسٹیز میں رائج اردو کا نصاب دیکھا ہے؟

تالیف حیدر: یونیورسٹیز کے نصاب کو سرے سے کاٹ کر نئے طور پر مرتب کرنے کی ازحد ضرورت ہے اور نئے ذہنوں کو ہندوستانی یونیو رسٹیز کے شعبوں میں جگہ دینے کی اور پرانے اور فرسودہ ذہن جو گدیوں پر براج مان ہیں ان کی از سر نوذہنی تربیت کر نے کی۔

نولکھی کوٹھی – اکیسویں قسط

علی اکبر ناطق: جھنڈووالا میں سردار سودھا سنگھ سمیت ایک دم دس لاشیں پہنچیں تو اندھا کر دینے والا حبس چھا گیا۔ لاشیں دو گَڈوں پر لادی ہوئی تھیں۔ گولیوں سے چھلنی اور خون سے لت پت گو یا مَسلی جا چکی تھیں۔

وِیپ ہولز

نصیر احمد ناصر: ہمیں دیوار مت سمجھو ہمیں بیکار مت سمجھو کہ جب دیوار کے پیچھے کی مٹی بھیگ جائے گی تو ہم بوجھل نمی کا دکھ بہائیں گے ہماری آنکھ میں آنسو نہیں خوابوں کی کیچڑ ہے!!

دردِ مشترک

چور جھپاک سے کھڑکی کے اندر کودا اور پل بھر دم لینے کو ٹھٹک گیا۔سکہ بند چور چور گھر کی متاع میں سے کچھ لینے سے پہلے تھوڑا دم ضرور لیتے ہیں۔ کہتے ہیں گھر کے بھاگ دروازے سے پہچانے جاتے ہیں۔