ابدیت کے پارک میں واک (نصیر احمد ناصر)
اور پھر ہم چلتے رہے ٹیڑھے میڑھے مگر ہموار ٹریک پر ہاتھوں میں موبائل پکڑے ہیڈ فون کانوں پہ چڑھائے…
اور پھر ہم چلتے رہے ٹیڑھے میڑھے مگر ہموار ٹریک پر ہاتھوں میں موبائل پکڑے ہیڈ فون کانوں پہ چڑھائے…
کیا تمہارے لیے محبت کھلا دروازہ نہیں تھی
دوستو! اب میرے پاس بچا ہی کیا ہے ایک خواب اور تھوڑی سی تنہائی
زمین کے بیضوی سرے سے پھسل کر محبت قریبی بلیک ہول میں گر گئی ہے!
تم تک کب پہنچیں گے میری نظموں کے سگنل!
میں نے کبھی نظموں کا پیچھا نہیں کیا لیکن جانتا ہوں لفظ کہاں سے آتے اور کہاں گم ہو جاتے…
نصیر احمد ناصر: چائے خانہ میں ہم روز ملتے ہیں اگلے دن پھر ملنے اور جدا ہونے کے لیے
نصیر احمد ناصر: ایک بار لگ جائے تو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتی