Laaltain

ہمیں معلوم ہے یہ شام بکھر جاے گی اور یہ رنگ۔۔۔۔ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے یہ زمیں دیکھتی رہ جاے گی..

4 مئی, 2019
ابرار احمد: پہلے ۔۔۔میں رنگین شیشوں اور گھنیرے کمروں والے اس گھر میں رہتا تھا جسے میرے باپ نے تعمیر کیا
18 مارچ, 2018
ابرار احمد: میں ایک خواب سے دوسرے خواب میں اس شام سے گزر کر جانا چاہتا ہوں تم کہاں ہو موت مجھے بلاتی ہے
18 فروری, 2018

بہت یاد آتے ہی چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ، فراموش کردہ تعلق اور پرانی چوٹوں کے نشان – —-اولین قرب کی سرشاری، سرد راتوں

6 فروری, 2018
ابرار احمد: تمھاری اس دنیا میں میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے وقت اور تم پر اختیار کے سوا
30 نومبر, 2017
ابرار احمد: آگے بڑھنے والے نہیں جانتے کہ آگے بڑھا جا ہی نہیں سکتا
29 اکتوبر, 2017
ابرار احمد: تم جو آتے ہو تو ترتیب الٹ جاتی ہے دھند جیسے کہیں چھٹ جاتی ہے
1 اکتوبر, 2017
ابرار احمد: دریچے، آنکھیں بن جاتے ہیں ایک اجنبی باس الوہی سرشاری سے ہمارے مساموں میں اتر جانے کو بے چین ہو جاتی ہے
19 اگست, 2017
ابرار احمد: آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے پڑے رہتے ہو عقب کے اندھیروں میں، لمبی تان کر اور نہیں جانتے آنکھیں کیا
15 جولائی, 2017
ابرار احمد: مٹی میں اترے ہوئے پانی کی طرح میرا شہر میری مٹی بن گیا ہے
2 جولائی, 2017
ابرار احمد: تم نے ٹھیک سمجھا ہر تعلق ایک ذلت آمیز معاہدہ ہے تھکے ہارے دلوں کا ، اپنے ارادوں کے ساتھ
23 جون, 2017
ابرار احمد: اور وہ بھی تم ہو گے جو کبھی ۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے اپنی نمناک آنکھوں سے میری جانب
10 جون, 2017