Abrar Ahmad has been writing poetry since 1980. He has published two books of poetry till now, one of poems, 'Akhri Din Sey Pehlay' (1997), and other of ghazals, 'Ghaflat Kay Brabar' (2007). His poetry frequently takes up themes of existential angst, meaninglessness of life, disillusionment and displacement.
ہمیں معلوم ہے
یہ شام بکھر جاے گی
اور یہ رنگ۔۔۔۔ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے
یہ زمیں دیکھتی رہ جاے گی.. قدموں کے نشاں
اور یہ قافلہ۔۔۔۔۔
ہستی کی گزرگاہوں سے
کسی انجان جزیرے کو نکل جاے گا
جس جگہ آج
تماشائے ط...
بہت یاد آتے ہی
چھوٹے ہو جانے والے کپڑے ،
فراموش کردہ تعلق
اور پرانی چوٹوں کے نشان -
----اولین قرب کی سرشاری،
سرد راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے ,ریتلے میدان ...
پہلے پہل کی چاندنی میں ----
ڈھولک کی سنگت میں گاۓ ہوے کچھ ...
ابرار احمد: اور وہ بھی تم ہو گے
جو کبھی ۔۔۔ بارشوں سے دھڑکتی کھڑکی کے شیشے سے
اپنی نمناک آنکھوں سے
میری جانب دیکھو گے
جب میں
دنیا کی خوبصورتی برداشت کرنے سے
انکار کرنے والا ہوں گا
ابرار احمد: جو منتظر تھا ہمارا، جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا، جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں، اس حصار کی جانب
کسی طلب کو، کسی انتظار کی جانب