خوفِ خدا رہے کہ خیالِ بُتاں رہے
کس طرح ایک دل میں غم دو جہاں رہے

غُربت میں تیری یاد سہارا بنی رہے
تیرا خیال ساتھ رہا ہم جہاں رہے

ہم کو تیرے حضور سبھی کچھ قبول تھا
مجبور بھی رہے تو بہت شادماں رہے

جی بھر کے ہم نے لطفِ ستم تو اٹھا لیا
نامہرباں رہے تو بڑے مہرباں رہے

کب ہم کو امتیازِ فراق و وصال تھا
کیا جانیے کہ آپ کہاں ہم کہاں رہے

Leave a Reply