[blockquote style=”3″]

خالد جاوید کا یہ افسانہ اشعر نجمی کی زیر ادارت شائع ہونے والے ادبی رسالے "اثبات” کے شمارہ نمبر چار اور پانچ کا حصہ ہے۔ ہم اشعر نجمی کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے "اثبات” جیسے معیاری رسالے کو آن لائن قارئین تک پہنچانے کی اجازت عنایت کی۔

[/blockquote]
اثبات میں شائع ہونے والی مزید تخلیقات پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

نیند کے خلاف ایک بیانیہ
تحریر: خالد جاوید
(شمس الرحمن فاروقی کے نام)

وہ جو ایک کتے کی طرح گم ہو جائے گا، آخر میں ایک دیوتا کی طرح دریافت کیا جائے گا۔
(یہودا امی خائی)

(۱)
ڈاک گھر اور ڈاکیے

ادھر کچھ عرصے سے لگاتار چند قصہ گو حضرات کے ساتھ رات کو دیر تک وقت گزارنے کی وجہ سے میرے اندر بھی یہ خبط پیدا ہونے لگا ہے کہ میں کچھ لکھوں۔ یہ خبط یا شوق مجھے زندگی میں پہلی بار ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ ابھی بھی نہ ہوتا ، اگر چند ماہ پیشتر میری بیوی طاعون کا شکار ہوکر مر نہ گئی ہوتی۔ حالاں کہ جب اسے پلیگ ہوا تو وبا تقریباً اپنے خاتمے پر ہی تھی ، کیوں کہ محلے کے سرکاری شفا خانے میں اسی دن سیاہ دیوار پر چاک سے آخری کراس بنایا گیا تھا۔ سرکاری شفا خانے کی عقبی دیواریں کالے رنگ کی ہیں۔ اسی دن، سوائے ایک لڑکھڑاتے ہوئے مریل سے چوہے کے، جس کے منھ سے خون کی لکیر پھوٹ رہی تھی، دوسرا کوئی چوہا بھی علاقے میں نظر نہیں آیا۔ مگر کسی بھی وبا میں پہلی یا آخری موت بہرحال انفرادی اور امتیازی نوعیت کی حامل ہوا کرتی ہے۔

مغرب کی اذان کے وقت ، جب وہ مررہی تھی تو اس کا بخار سے تپتا ہوا جسم حیرت انگیز طور پر پسینے چھوڑتے ہوئے ٹھنڈا ہونے لگا۔ میرے دونوں بچے (بڑا تیرہ سال کا ہے اور چھوٹا بارہ کا) پلنگ کے پائنتی بیٹھے اس کا پاؤں سہلا رہے تھے کہ اچانک اس کے منھ اور ناک سے ڈھیر سارا خون باہر آیا۔ میں نے بیوی کے سرہانے سے اٹھ کر اپنے دونوں ہاتھ اس کی بغلوں میں دیتے ہوئے اسے سہارا دیتے ہوئے اٹھانے کی کوشش کی مگر اس کا سارا جسم شل اور بے جان ہوگیا تھا۔ وہ تو نہ اٹھ سکی مگر میری دونوں ہتھیلیاں اس کی بغلوں میں ابھری ہوئی طاعون کی بڑی بڑی گانٹھوں سے ٹکرا کر رہ گئیں۔ گانٹھوں سے رسنے والی پیپ سے میری انگلیاں گیلی ہوگئیں۔

میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ مجھے بے حد کراہیت اور گھن محسوس ہوئی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس وقت اس کے منھ اور ناک سے نکلتے خون اور بغلوں اور رانوں کے درمیان گانٹھوں سے رستے بدبو دار مواد کی وجہ سے مجھے اس نیک بخت کی موت کا صدمہ محسوس ہی نہ ہوسکا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ یہ بس آخری بار ہے یعنی یہ گندگی ، یہ تعفن اور شب بیداریوں کے سبب جاگتی جلتی آنکھیں جو کہ ایک تیماردار کا ازلی مقدر ہوتے ہیں۔

مگر میں یہاں اپنی بیوی کے بارے میں یا اس کی بیماری اور موت کے بارے میں یوں ہی لکھ بیٹھا ہوں، شاید اپنے اناڑی پن اور ناتجربہ کار ہونے کے سبب۔میری سات پشتوں میں بھی کسی نے اپنے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں یا اپنے احساسات و جذبات کے بارے میں کچھ نہ لکھا ہوگا۔ میں نہ تو کوئی ادیب ہوں اور نہ کوئی کاتب یا منشی۔ میں تو ایک معمولی ڈاکیہ ہوں۔ جی ہاں ! ایک بے حد معمولی اور حقیر ڈاکیہ جس کی انگلیوں کو اس طرح سے قلم پکڑنے کی عادت ہی نہیں ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ اگر وہ یعنی گھر والی مر نہ گئی ہوتی تو میں شاید اس وقت گہری نیند سو رہا ہوتا۔ مگر ٹھہریے، اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ میں نے اس کی موت سے متاثر ہو کر کچھ لکھنا شروع کردیا ہے جس طرح میں نے سنا ہے کہ شاعر لوگ کرتے رہتے ہیں۔ میں جو لکھ رہا ہوں ، اس کی نوعیت ادبی یا علمی قسم کی نہیں ہے۔

ہوا دراصل یوں ہے کہ بیوی کے مرنے کے بعد میرے لیے رات کاٹنا مشکل ہو گیا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے میں نے اپنی ایک بیوہ بہن کو گاؤں سے بلوا لیا ہے۔ میں صبح آٹھ بجے اپنی وردی پہن کر ڈیوٹی کے لیے سائیکل پر گھر سے نکلتا ہوں۔ ڈاک خانے پہنچ کر اپنے حصے کی ڈاک وصول کرتا ہوں، پھر اس ڈاک کو جس میں سینکڑوں چٹھیاں ، منی آرڈر، پارسل وغیرہ ہوتے ہیں، سائیکل کے کیرئیر پر لاد کر اپنے علاقے میں بانٹنے نکل جاتا ہوں۔ آج کل میرے پاس دادو کا کنواں نام کا محلہ ہے۔ شام کو جب تھکا ہارا گھر واپس آتا ہوں تو سب سے پہلے اپنی وردی اتار کر دیوار پر لگی ہوئی کھونٹی پر ٹانگ دیتاہوں۔ میرا چھوٹا بیٹا وردی کو پلک جھپکائے بغیر دیکھتا رہتا ہے۔ خیر اس تفصیل میں جانے سے کیا فائدہ؟ بہرحال جب رات کو کھانے کے بعد گھر سے نکلتا ہوں تو محلے کے کچھ شناسا لوگ مجھے اپنے ساتھ چبوترے پر بٹھا لیتے ہیں۔ ہیں تو یہ بالکل ان پڑھ لوگ، مگر بلا کے قصہ گو۔ یا پھر یوں کہیں کہ اول نمبر کے غپی لوگ۔ آج کل گرمیاں ہیں۔ رات کو یہ سب طرح طرح کے قصے سناتے رہتے ہیں۔ بھوت پریتوں کے قصے، سنیما کے قصے، شکار کے اور فاحشہ عورتوں کے قصے۔ میرا وقت واقعی اچھا کٹ جاتا ہے۔ اب ان کی یہ اوٹ پٹانگ قصے سن سن کر میرے دل میں بھی یہ خواہش بڑی شدت سے پیدا ہوئی ہے کہ میں بھی کچھ سناؤں یا کہوں۔ لیکن میں بڑا جھینپو اور دبو قسم کا انسان واقع ہوا ہوں، اسی لیے میں نے سوچا کہ بجائے کہنے کے، کیوں نہ میں کچھ لکھنا شروع کردوں۔ کہنے اور لکھنے میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ لکھتے وقت آدمی زیادہ جھوٹ نہیں بول سکتا ، جب کہ قصہ گوئی ، بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہر قسم کی گفتگو زیادہ تر جھوٹ کا پلندہ ہی ہوتی ہے۔ میرا کام تو ویسے بھی لکھے گئے الفاظ کو ہی اِدھر سے اُدھر کرنا ہے۔ آخر کو میں ایک ڈاکیہ ہوں نہ۔

اسی لیے اب میں نے سوچا ہے کہ اپنے بارے میں، اپنی زندگی کے بارے میں کیوں نہ کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں۔ حالاں کہ مجھے یہ بھی علم ہے کہ اپنے بارے میں یا اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بھی لکھنا، میرے لیے شاید ڈاک گھر اور ڈاکیوں کے بارے میں لکھنے کے ہی برابر ہوگا۔ ویسے ایمان کی بات تو یہ ہے کہ آدمی کو جہاں تک ہو سکے، ذاتی یا نجی باتوں کے بارے میں کم سے کم لکھنا چاہیے۔ یہ باتیں ہوتی ہی کیا ہیں سوائے نفرت یا محبت یا پھر غصے یا انتقام وغیرہ کے بارے میں ….ناپختہ تجربوں کے سوائے ان میں کیا ہوتا ہے۔ ذاتی یا نجی باتیں بدلتی رہتی ہیں۔ وہ تقریباً اس قصے کی طرح ہوتی ہیں جو ہر بار سنانے میں اپنے بارے میں کچھ نہ کچھ اضافہ ، تبدیلی یا ترمیم کر لیتے ہیں۔ نجی واقعات چاہے وہ کتنے ہی ٹھوس انداز میں کیوں نہ پیش آئے ہوں، ایک نہ ایک دن سفید جھوٹ ہی ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ لکھنے کے لیے اور بہت سی باتیں ہیں، مثلاً ڈاکیوں کی، ڈاک گھروں کی، ریلوے اسٹیشنوں کی، گلیوں کی، محلوں کی وغیرہ وغیرہ۔

تو جب میں اپنی سائیکل پر دن بھر کی ڈاک لاد کر سڑکیں ناپنے چلتا ہوں تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ پتلی سے پتلی گلیاں، یہاں تک کہ بند گلیاں تک مجھے آسمان پر جانے والی سیڑھیاں محسوس ہوتی ہیں جن پر گویا میں تیزی سے چڑھتا جاتا ہوں۔ ابھی حال میں ریڈیو پر خبر سنی تھی کہ آدمی چاند تک پہنچ گیاہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو مجھے لگتا ہے کہ چاند پر پہنچنے کے لیے اس نے جو سفر طے کیا ہوگا، وہ میرے اس روز کے چٹھی پہنچانے تک کے سفر کے برابر ہی مسرت آگیں رہا ہوگا۔ یہاں میرے اس چھوٹے سے شہر کے آس پاس ندیاں بہت ہیں۔ کبھی کبھی مجھے ان کے کنارے، دلدل پر بھی چلنا ہوتا ہے۔ وہاں میری سائیکل کے پہیے بھی کبھی کبھی دھنس جاتے ہیں مگر مجھے وہ دلدل اس دنیا کی نہیں بلکہ بہشت کی دلدل نظر آتی ہے۔

مگر مجھے علم ہے کہ سب ہی ڈاکیے اس طرح سے نہیں سوچتے۔ بہت سے تو اپنی نوکری کو کوستے بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بارے میں بھلا میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ہاں، اتنا تو ہے کہ ڈاکیوں کی نوکری میں خطرے بھی بہت رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں لوگ بتاتے ہیں کہ ہر ڈاکیے کے ساتھ میں ایک ڈھول بجانے والا بھی رہتا تھاجو جنگل کے خطرناک راستوں سے گزرتے وقت زور زور سے ڈھول بجاتا رہتا تھا تاکہ جنگلی جانور وہاں سے بھاگ جائیں۔ بہت رات ہوجانے پر ڈاکیے کے ساتھ دو مشعلچی اور دو تیر انداز بھی چلا کرتے تھے۔ میں نے کل اپنے چھوٹے لڑکے کو بتایا کہ ایک بار تو ایسا ہوا کہ ایک ڈاکیے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ ایک ڈاکیہ بے چارہ ندی کی باڑھ کی زد میں آکر ڈوب گیاتھا۔۔۔۔۔۔اور بھی کتنے قصے ہیں۔ نہ جانے کتنے ڈاکیوں کو زہریلے سانپوں نے ڈس لیا ۔ بہت سے کسی چٹان کے پھسلنے سے یا ملبے میں دب کر مرگئے۔ لٹیروں اور ٹھگوں نے بھی بہت سے ڈاکیوں کو راستے میں لوٹ کر قتل کیا ہے۔ مگر یہ سب پرانی باتیں ہیں، بہت پرانی۔ اب کسی ڈاکیے کو اس طرح کے خطرات کا سامنا نہیں ہے۔

کچھ دنوں سے اپنے چھوٹے لڑکے میں ایک عجیب بات میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اسے ڈاکیوں کی باتوں اور ڈاک خانوں کے تذکروں میں غیر معمولی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔ میں اس کی طرف سے تھوڑا سا فکرمند بھی ہوں۔ اب میں کیسے لکھوں۔۔۔۔بات تو ہے بے حد ذاتی نوعیت کی مگر لکھ دینے میں بھی کیا حرج ہے۔ اب آدمی اس طرح کی باتیں لکھنے سے بالکل ہی تو بچ نہیں سکتا۔

اصل میں، میرا یہ چھوٹا ان دنوں پیدا ہوا تھا جب شہر میں طاعون پھیلا ہوا تھا۔ یہ خدا کی مہربانی ہی تھی کہ ان دنوں ہمارا گھر وبا سے پوری طرح محفوظ رہا۔ اب سوچا جائے تو یہ بھی بڑی عجیب بلکہ مضحکہ خیز سی بات ہے کہ طاعون کی زد میں آکر ہی میری بیوی، یعنی اس کی ماں خدا کو پیاری ہوئی اور طاعون کے زمانے میں ہی یہ کم بخت پیدا ہوا تھا۔ بہر نوع، یہ سب تو مشیت ہے۔ اللہ کی جو مرضی۔ ادھر کے اطراف میں تو طاعون پھیلتا ہی رہتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے کا سر کچھ نہ کچھ چوہے سے ملتا جلتا ہے۔ خیر وہ بھی ایسی کوئی بات نہیں۔ بہت سے لوگوں کے سروں کی بناوٹ کسی جانور کے سر سے مشابہ ہوتی ہے۔ کسی کا سر گھوڑے سے ملتا جلتا ہے تو کسی کا بلڈاگ کے سر سے۔ مگر بات یہ ہے کہ وہ مجھے دماغی طور پر کچھ کمزور محسوس ہوتا ہے۔ خدا کرے کہ یہ میرا وہم ہی ہو۔ ویسے وہ اسکول پابندی سے جاتا ہے۔ (بڑے لڑکے کو تو سوائے محلوں کے لونڈوں کے ساتھ اودھم مچانے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔)

مگر چھوٹا۔۔۔۔۔وہ آخر اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ کھیلتا کیوں نہیں؟ بس ڈاکیوں اور ڈاک گھروں کے بارے میں پوچھ پوچھ کر میری جان کیوں کھاتا رہتا ہے؟ اور جب میں اسے جو کچھ بھی جانتا ہوں، وہ بتاتا ہوں تو بجائے بچوں کی طرح خوش ہونے کے، کچھ سنجیدہ سا ہو جاتا ہے یا پھر کہیں دور خلا میں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا ہے۔میں نے اسے ڈاکیوں کے بارے میں بہت سے دلچسپ قصے بھی سنائے ہیں۔ اصل میں یہ من گھڑت قصے ہی ہوں گے، کیوں کہ انھیں میں بھی اپنے بچپن سے سنتا چلا آیا ہوں۔ مثال کے طور پر جاڑوں کی سرد اور ویران راتوں میں ایک ڈاکیے کا بھوت سنسان گلیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ رات کے ٹھیک دو بجے کسی کا دروازہ کھڑکتا ہے۔۔۔۔۔۔’’تار۔تار‘‘۔ اور جو کوئی بھی اٹھ کر تار لینے کے لیے دروازہ کھولتا ہے، اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے ویران سے ریلوے اسٹیشن پر سال میں ایک رات ایسی بھی آتی ہے جب رات کے دو بجے وہاں پہنچنے والی طوفان میل سے ڈاک کا ڈبہ آپ ہی آپ کٹ کر الگ ہوجاتا ہے۔ ٹرین ایک منٹ وہاں رکنے کے بعد روانہ ہوجاتی ہے ۔ مگر ڈاک کا وہ کٹا ہوا لال رنگ کا ڈبہ ، آپ ہی آپ، بغیر انجن کے اندھیری رات میں خاموش جھاڑیوں سے گھری ویران ریلوے کی پٹریوں میں نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتا پھرتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ میرا تو اس اسٹیشن پر جانے کا کبھی اتفاق ہوا نہیں مگر بتانے والے بتاتے ہیں کہ غدر کے زمانے میں بہت سے سرکاری محکموں کے ساتھ ڈاک گھر بھی نشانہ بنے تھے۔ تب، ایک رات جب ڈاک گھر میں آگ لگائی جارہی تھی، اپنی جان پر کھیل کر کچھ فرنگی ڈاکیے وہاں کی ڈاک کو طوفان میل سے منسلک ڈاک کے ڈبے میں کسی نہ کسی طرح رکھ دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ مگر آخری وقت میں انقلابیوں نے ڈاک کے اس لال ڈبے کو ٹرین سے کاٹ کر الگ کردیا تھا اور اس میں آگ لگا دی تھی۔ بالکل اسی طرح، جس طرح انھوں نے وہاں تک ڈاک لانے والے فرنگی ڈاکیوں کے سر دھڑ کاٹ کر الگ کر دیے تھے اور پھر ان کی لاشوں کو آگ لگادی تھی۔

کہتے ہیں کہ تب سے لے کر اب تک ہر سال اسی تاریخ کو رات کے دو بجے، سر کٹے ہوئے اور جلی ہوئی وردی پہنے چند ڈاکیے اسی اندھیرے اسٹیشن پر لالٹین ہاتھ میں لیے گھومتے نظر آتے ہیں اور طوفان میل سے ڈاک کا ڈبہ کٹ کر ریلوے لائینوں پر اکیلا ہی دوڑتا پھرتا ہے ۔۔۔۔۔ایک حواس باختہ بھوت کی طرح۔

میں اس قسم کے ڈراؤنے اور دلچسپ قصے جب اسے سناتا ہوں تو وہ جواب میں کچھ نہیں کہتا، نہ ہی ڈرا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔ ہاں، اس دن ضرور وہ کچھ خوف زدہ سا محسوس ہوا تھا جب کالی ندی کے پُل پر سے مغرب کے وقت س نے ان لوگوں کو دیکھا جو اپنے پیروں پر بانس باندھے قطار بنا کر گزررہے تھے۔ میں نے اسے سمجھایا تھا کہ ان سے ڈرنے کے کیا معنی؟ یہ توسگریٹ کے کسی خاص برانڈ کے اشتہار کی خاطر مسخرہ پن کے لیے نکلے ہیں۔

اِدھر چھوٹے کو دین اور اللہ رسولؐ کی باتوں میں بہت دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ قرآن شریف تو خیر اس کی بُوا نے پہلے ہی اس کو پڑھا دیا تھا۔ مگر فرشتے جس اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں اور اپنے فرائض منصبی پورا کرتے ہیں، تو اس پورے الوہی نظام سے وہ بہت متاثر معلوم ہوتا ہے۔ خاص طور پر جبرئیل علیہ السلام سے۔

جہاں تک بڑے لڑکے کا سوال ہے ، تو اسے نہ تو اسکول کی تعلیم سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی دینی تعلیم سے۔ میرا خیال ہے کہ وہ آوارہ ہوتا جارہا ہے۔

تقریباً بیس دن سے اس کاغذ پر میں نے کچھ نہیں لکھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا دل ہی نہیں چاہا۔ دراصل ہوا یوں کہ چھوٹے کی گردن پتنگ کے مانجھے میں پھنس گئی تھی۔ نرخرہ کٹتے کٹتے بچا۔ خدا نے بڑی خیر کی۔ اس بے چارے کو پتنگ وغیرہ سے کیا کام، مگر اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ وہ میرے گھر کے سامنے، کچھ دور نکل کر کالی ندی کے پُل ہے، اس کی ریلنگ پر دونوں طرف مانجھا بنانے والے مانجھا تانتے ہیں۔ بس وہ گزر رہا ہوگا پُل پر سے۔ اسے ندیاں دیکھنے کا شوق بھی بہت ہے۔ (حالاں کہ ندیوں اور کنوؤں کے آس پاس گھومنا خطرناک بات ہے۔)وہیں اس اس کی گردن تنے ہوئے مانجھے میں پھنس گئی۔ میں تو ڈاک بانٹنے گیا ہوا تھا۔ میری بہن اور محلے کے کچھ لوگ اسے لے کر سامنے والے گھر لے گئے جہاں حال ہی میں ایک سرکاری ڈاکٹر کہیں سے تبادلہ ہوکر رہنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بہت اچھے ہیں۔ انھوں نے ٹانکے لگانے اور مرہم پٹی کرنے کی کوئی فیس بھی نہیں لی۔ ان کی بیگم صاحبہ بھی بہت اچھی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے چھوٹے کو پڑھنے کے لیے انگریزی کی ایک کتاب بھی دی ہے۔ کتاب پر ان کی بیٹی کا نام لکھا ہوا ہے۔ وہ انگریزی اسکول میں پڑھتی ہے۔ چھوٹے سے دو سال بڑی ہوگی۔ بڑا گول چہرہ ہے اس کا ہے اور بالکل سفید۔ اتنا گول اور سفید چہرہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

مگر چھوٹے کا زخم بھرنے میں بیس دن لگ گئے۔ ٹانکوں میں بار بار مواد پڑجاتا تھا۔ ہلکا ہلکا بخار بھی رہنے لگا۔اس درمیان ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیٹی کو کئی بار ہمارے گھر، چھوٹے کی خیریت کے لیے بھیجا۔کتنی بڑی بات ہے۔ ایک معمولی ڈاکیے کے بچے کا اتنا خیال۔ یقیناًان کے دل میں خوف خدا ہوگا۔ دنیا ایسے ہی نیک لوگوں پر قائم ہے۔

تو بس میں انھیں ذہنی الجھنوں میں گرفتار رہا۔ لکھنے کا دل ہی نہ چاہا۔ ویسے بھی میں کوئی ڈائری تو لکھ نہیں رہا ہوں۔ یہ تو بڑے اور پڑھے لکھے لوگوں کے کام ہیں۔ میں بس ایک جعلی قسم قصہ گوئی کررہا ہوں جس کا چسکا مجھے ان غپ مارنے والوں نے لگادیا ہے۔ جعلی میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر قصہ زبانی نہ سنایاجائے تو وہ قصہ ہی کیا۔ اور اسے لکھا جائے تو وہ حرف دل کی ایک بھڑاس ہوتا ہے۔ اس میں دوسرے کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟ کیا میرے اندر بھی ایسی ہی کوئی بھڑاس ہے جسے میں دل سے باہر نکال کر پھینکنا چاہتا ہوں؟ اگر یہ بات ہے تو بہت غلط ہے۔ کچھ کچھ ایسے جیسے کیلے کے چھلکوں کو گھر سے باہر سڑک پر پھینک دینا، دوسروں کو پھسلتے رہنے کے سامان فراہم کرنے کے برابر۔

چھوٹے کے پاس وہ جو انگریزی کی کتاب ہے، اس میں بہت سے موضوعات پر مضامین لکھنے کے اصول بتائے گئے ہیں اور ساتھ میں نمونے کے طور پر کچھ مضامین بھی شامل کر دیے گئے ہیں مثلاً تاج محل پر، گائے پر اور پوسٹ مین پر۔

اب تو پاگل کو رٹ ہی لگ گئی ہے کہ وہ پوسٹ مین پر ایک ایسا طویل اور زبردست مضمون لکھے گا جو دنیا میں آج تک کسی نے نہ لکھا ہو۔ اب میں اسے لاکھ سمجھاتا ہوں کہ تمھاری جماعت کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ دو سو الفاظ کا مضمون لکھنا ہوتا ہے، ورنہ نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ مگر وہ مانے تب نہ۔ اس نے تو ضد پکڑ لی ہے۔ ڈاکیوں کے بارے میں ایک سے ایک معلومات اس نے نہ جانے کہاں سے حاصل کرلی ہیں۔ شاید وہ یہ مضمون لکھ کر ڈاکٹر صاحب کی بیٹی کو بھی دکھائے گا۔ کل رات میں نے اس کا پوسٹ مین پر لکھا ہوا مضمون پڑھا ہے جو ابھی ادھورا ہے۔ مضمون ابھی میرے سامنے ہی ہے۔ کیوں نہ اس کا ایک آدھ اقتباس میں یہاں نقل کردوں۔

خطوں کے ساتھ اگر ڈاکیے کی یاد نہ آئے تو وہ خط ہی کیا۔ ڈاکیے کی پہنچ جس طرح دنیا کے عام سے عام آدمی تک ہے،ایسی کسی اور سرکاری نوکر کی کہاں۔ لوگ چاہے شہروں میں رہتے ہوں یا قصبوں میں یا پھر گاؤں اور دوردراز کے جنگل کے علاقوں میں،وہ ہر جگہ پہنچ سکتا ہے۔ایک فرشتے کی طرح۔ اس کے پاس عام آدمی کی پیاری سواری یعنی سائیکل ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب وہ پیدل بھی چلتا تھا۔ کبھی گھوڑوں پر بھی قاصد بجلی کی رفتار سے دوڑتے تھے اور اپنے اپنے علاقے کی سرحد تک پہنچ کر وہ دوسرے گھڑ سوار قاصد کو خط سونپ دیا کرتے تھے۔ دنیا میں امن کے کتنے مجاہد ان قاصدوں کی رفتار کے مرہون منت رہے ہیں۔ کچھ مقاموں پر کبوتروں نے بھی ڈاکیے کا کام انجام دیا ہے۔ اس لیے کبوتر کو فرشتہ نما اور پاکیزہ جانور مانا جاتا ہے۔ ڈاکیے کا سماج کے ہر طبقے میں استقبال ہے۔ تیوہاروں کے موقع پر ہمیشہ اسے کچھ نہ کچھ بخشش دی جاتی ہے۔ ڈاکیہ سرکار کا پرزہ نہیں بلکہ سماج کا ایک حصہ ہے۔ وہ جب کسی کے گھر تار لے کر جاتا تھا تو تھوڑی دیر وہیں ٹھہر جاتا تھا، انسان کے سکھ یا دکھ میں ایمان داری کے ساتھ شریک ہونے کے لیے۔آج بھی بہت سے ڈاکیے اجنبی انسانوں کے سکھ دکھ میں اسی طرح شریک ہیں۔ میرے بابو بھی ایک ایسے ہی ڈاکیے ہیں….ایک عظیم ڈاکیے۔

بہت کم لوگوں نے غور کیا ہوگا کہ اس کی وردی کا رنگ پولیس والوں کی وردی سے ملتا جلتا ہے۔ مگر پولیس والوں کی وردی نے لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے سوا اب تک کیا کیا ہے؟ اور ڈاکیے کی وردی دیکھ کر لوگوں کے دل اپنائیت اور انسیت کی خوشبو سے بھر جاتے ہیں۔ گرمیوں کی سخت اور سنسان دوپہر میں، جب آسمان میں چیل انڈا چھوڑ رہی ہوتی ہے، اس کی خاکی وردی کی ایک جھلک دور سے نظر آنے پر ہی وہ ویران دوپہر رونق افزا ہو جاتی ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں امیدوں کے گلزار سجنے لگتے ہیں۔ کسی کو خط لکھنا اور کسی سے خط پانا بہت بڑی نعمت ہیں۔ میرے بابو یہی کہتے ہیں۔ میں نے پڑھا ہے کہ گاندھی جی خطوں کا جواب فوراً ہی لکھنا شروع کردیتے تھے۔ ان کے پاس روزانہ ڈھیر سارے خطوط آتے تھے۔ خط کا جواب لکھتے لکھتے جب ان کا دایاں ہاتھ تھک جاتا تھا تب وہ بائیں ہاتھ سے لکھنا شروع کردیتے تھے۔ کتنے اچھے تھے گاندھی جی۔ اتنے نیک اور عظیم انسان کو بھی کسی نے قتل کردیا۔۔۔۔۔آخر کیوں؟

خطوں کے حوالے سے پوسٹ کارڈ کی بات کرنا بھی ضروری ہے۔سرکار ہر شے کو مہنگا کر سکتی ہے مگر پوسٹ کارڈ کے دام بڑھاتے ہوئے ڈرتی ہے۔ ایک وہی تو عوام کی سب سے پیاری چیز ہے۔ روٹی اور دودھ اور دال اور چاول سے بھی پیاری چیز جو حقیر سے حقیر انسان کے وجود کو بھی بامعنی اور باوقار بنا دیتی ہے۔ ابھی حال میں اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ امریکہ میں ایک الیکٹرانک میوزک بینڈ کی ایجاد ہوئی ہے جس کا نام پوسٹل سروس رکھا گیا ہے۔ یہ نام اس لیے ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے جانے کن کن ملکوں سے آپس میں پوسٹ کارڈ لکھ لکھ کر آلات موسیقی کے بارے میں اپنے اپنے تجربات بیان کیے جن کو جمع کرکے یہ عظیم الشان بینڈ بنایا گیا۔

ڈاکیے کا نہ کوئی مذہب ہے نہ ذات اور نہ ہی کوئی طبقہ بلکہ وہ سماج کی مختلف اکائیوں اور طبقوں کو آپس میں ملانے اور پرونے کا کام انجام دیتا ہے۔
ہماری فلموں میں بھی اکثر ڈاکیے کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے۔میں نے تو ابھی تک کوئی فلم نہیں دیکھی ہے مگر بابو نے وعدہ کیا ہے کہ جب بھی کبھی ان کی جوانی کے دنوں کی مشہور فلم ’’ڈاک ہرکارہ‘‘ دوبارہ نمائش کے لیے پیش کی جائے گی تو وہ مجھے دکھانے کے لیے ضرور لے جائیں گے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ڈاکیہ فلموں کا نہیں بلکہ اصلی زندگی کا ہیرو ہے۔۔۔۔۔۔میرے بابو کی طرح۔ جب وہ اپنی خاکی رنگ کی وردی پہن کر ، ٹوپی لگا کر ، ڈاک گھر جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں تو اس طرح جگمگانے لگتے ہیں جس طرح مٹی میں ہیرا۔

اور اب آخر میں یہ بتانا بھی چاہتا ہوں کہ شروعات کے دنوں میں صرف خط یا چٹھی تقسیم کرنا ہی ڈاک والوں کا کام نہ تھا بلکہ وہ سرایوں کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے۔ وہ سڑک پر دن رات چلنے والے مسافروں کے سفر کو آسان اور سہولت سے بھرا ہوا بنا دیتے تھے۔ انھیں ٹھگوں اور راہزنوں سے محفوظ رکھتے تھے۔ یہی سرائے بعد میں آگے چل کر ڈاک بنگلوں کے نام سے مشہور ہوگئے۔ رات کو مسافر راستے میں پڑنے والی ڈاک چوکیوں میں بھی آرام کرسکتے تھے۔ اور سب سے اہم بات تو یہ کہ کچھ عرصے تک گاؤں اور دوردراز کے علاقوں میں ڈاکیوں نے پلیگ کی دوائیں مریضوں تک پہنچا نے کا فریضہ بھی انجام دیا۔

اب بھلا بتائیے کیا یہ بارہ تیرہ سال کے بچے کی تحریر معلوم ہوتی ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ مضمون میں بڑی بے ربطی ہے۔ جگہ جگہ کچا پن بھی ہے مگر وہ تو فطری ہی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس نے اتنی ساری معلومات کہاں سے حاصل کی ہیں اور بھلا ان تمام معلومات کا فائدہ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب اس کے ذہن کا تخیل ہوا۔ اس میں سے کسی بھی بات میں کوئی صداقت نہ ہو ۔ مگر اگر ایسا ہے تو یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ آخر اس کے ننھے سے ذہن پر ڈاکیے اور ڈاک گھر اتنا حاوی کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجہ میں ہوں؟ لیکن اب ایمان اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ میں ایک حقیر سا ڈاکیہ۔ یہ بھی کوئی رتبہ ہوا؟ اگر میں ڈاکٹر یا وکیل یا کوئی نیتا وغیرہ ہوتا تو بات سمجھ میں آسکتی تھی کہ ان لوگوں کے بچے اپنے ماں باپ کی نقل اتارا ہی کرتے ہیں۔

اور سب سے بڑھ کر، بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ میں خواب میں بھی ہرگز نہ چاہوں گا کہ میری اولاد بھی ڈاکیہ بنے، بھلے ہی مجھے اپنی چٹھیاں بانٹنے کے لیے نکلنا کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگتا ہو۔ امتحان میں ڈاکیے پر ہزار پانچ سو لفظوں میں مضمون لکھ دینا الگ بات ہے اور ڈاکیہ ایک قطعاً مختلف اور دوسری بات۔ دنیا ایسی ہی منافقتوں کی وجہ سے تو اتنی خوب صورت نظر آتی ہے۔

کچھ عرصے سے میں یہ واضح طور پر محسوس کرنے لگا ہوں کہ زمانہ بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس میں سے شرافت غائب ہوتی جارہی ہے۔ میں بہت کم پڑھا لکھا انسان ہوں مگر یہ پیشن گوئی کرسکتا ہوں کہ آگے آنے والا زمانہ بہت ہی خراب ہوگا۔ میرا بڑا لڑکا بھی غلط صحبت میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ اسے پڑھنے لکھنے میں تو کیا، قاعدے کے کھیل کود میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میری ڈانٹ پھٹکار کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ وہ اتنا بے غیرت ہوچکا ہے کہ میں نے اسے اب زیادہ کچھ کہنا سننا چھوڑ دیا ہے۔ محلے میں غنڈہ گردی بڑھتی جارہی ہے۔ گلیوں میں لفنگوں اور شہدوں کے جتھے ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ بے روزگاری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ اس ماحول کی وجہ سے ہی شاید سامنے والے ڈاکٹر صاحب یہ محلہ چھوڑ کر کہیں اور جا بسے ہیں،یا شاید ان کا کہیں تبادلہ ہوگیا ہے۔وہ لوگ اتنی خاموشی سے مکان خالی کرگئے کہ کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ اچھا ہی ہوا۔ ویسے بھی یہ بڑا منحوس علاقہ ہے۔ جب دیکھو تب یہاں طاعون ہی پھیلتا رہتا ہے۔ مگر ان کے جانے کے بعد میں نے محسوس کیا ہے کہ چھوٹا کچھ گم سم سا رہنے لگا ہے۔

کل یہاں ایک بہت ہی تکلیف دہ اور شرم ناک واقعہ ہوا۔ کالی ندی کے پُل کو پار کرتے ہی بائیں طرف سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سے ہری مسجد ہے۔ وہاں کوئی پردیسی آکر ظہر کی نماز پڑھنے لگا۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ دوسرے مسلک کا ہے۔ بس پھر کیا تھا، نمازیوں نے اپنی نیت توڑ کر اس پر حملہ کردیا جیسے وہ کوئی موذی سانپ تھا یا اس سے بھی بدتر۔ انھوں نے مسجد سے اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا۔ محلے کے کچھ نوجوان غنڈے اس کی طرف چاقو نکال کر بھی دوڑے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ اسے لگا نہیں۔ کسی طرح اپنی جان بچا کر بھاگا۔ اس کے بعد مسجد کا فرش، دیواریں اور یہاں تک مینار بھی دھو کر ’’پاک‘‘ کیے گئے۔ امام صاحب کا کہنا تھا کہ غیر مسلک کا آدمی وہاں نماز ادا کرے تو اللہ کا گھر ناپاک ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں، میں دین و مذہب کی اتنی باریک باتیں نہیں جانتا۔ مگر میں ایک بات سے اور فکر مند ہوں اور وہ یہ کہ مجھے شبہ ہے کہ بڑا بھی ان لونڈوں میں شامل تھا جو اس بے چارے کے اوپر چاقو تانتے ہوئے دوڑے تھے۔ اس واقعے سے آج کل ماحول میں تناؤ سا ہے۔ کل کوئی کہہ رہا تھا کہ آس پاس کے لڑکے زیادہ تر اپنے پاس چاقو اور دیسی طمنچہ رکھنے لگے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی حفاظت کرنا سمجھ داری کی بات ہے، کیوں کہ پورب کی سمت سے، جہاں نچلے طبقے کے ہندؤں کی بستی ہے، کبھی بھی مسلمانوں پر دھاوا بولا جا سکتا ہے۔

مجھے پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے کہ آج کل ڈاک بانٹنے کے کام میں میری طبیعت لگتی نہیں۔ مسجد والے واقعے کے بعد سے میرا دل برا ہوگیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ جو اتنے سارے خط ، پیغامات وغیرہ میں ایک انسان سے دوسرے انسان تک پہنچاتا رہتا ہوں، آخر ان میں ہوتا کیا ہے؟ یہ محبت نامے ہیں یا طاعون کے جراثیم؟ کیا انسان دوسرے سے اسی طرح مخاطب ہوتا ہے یا پھر یہ سارے لوگ ایک بھیانک نیند کے شکار تو نہیں ہوگئے ہیں؟ کسی ہدایت، کسی تلقین، کسی پیغام ، محبت اور خوشی کی ان تک واقعتا کوئی رسائی ہی نہیں ہے۔ وہ اس سیاہ نیند میں حرف نفرت اور تشدد کے خواب دیکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ایسی نیند کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ کام صور اسرافیل کے علاوہ اور کسی کے بس میں نہیں۔

ایک عرصہ ہوا جب مجھے لکھنے کا یہ شوق چرایا تھا۔ میں نے چاہا تھا کہ ذاتی باتیں لکھوں ۔مگر اب جو اپنا لکھا ہوا پڑھتا ہوں تو یہ سب مجھے اپنی نجی ڈائری کی طرح نظر آتا ہے۔ اگر کل کلاں کسی کو میرا یہ پلندہ مل جائے تو اس بکواس کو وہ ایک ڈاکیے کی ڈائری ہی سمجھے گا ، کوئی قصہ کہانی تو ہرگز نہیں۔ لہٰذا اب جا کر اس افسوسناک امر کا احساس مجھے ہوا ہے کہ جس طرح کسی جانور کی کھال اتارتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے لگا لپٹا خون نہ باہر آئے، بالکل اسی طرح دنیا کے بارے میں کوئی بھی بات لکھتے وقت انسان کی ذات کے لہو کی بو لفظوں سے ہمیشہ لپٹی رہتی ہے۔
اس لیے مایوس ہو کر میں یہ بیکار کا مشغلہ اب ترک کررہا ہوں ۔ بس اتنے ہی میں میرا شوق پورا ہوگیا، یا یہ کہیے کہ اب میرا دل بھر گیا۔ میں اس کے آگے کچھ بھی لکھنے سے بھر پایا۔

اس کے بجائے میں نے سوچا ہے کہ مجھے اپنی توجہ اپنی بوسیدہ سائیکل کو دینا چاہیے جس کی مرمت ایک عرصے سے ٹل رہی ہے۔ اس کے دونوں پہیوں میں لہر آگئی ہے اور مڈگارڈ کھڑ کھڑ بولتا رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مجھے چھوٹے کے ساتھ اب زیادہ وقت گذارنا چاہیے۔ آج کل رات کو سوتے وقت وہ بڑے بھاری بھاری خراٹے لینے لگا ہے۔ اور اس کا سر تو اب بالکل ایک طاعون زدہ چوہے کے سر جیسا ہی ہوتا جارہا ہے۔

(۲)
خون سے خالی سفید گول چہرہ

’’تم پھر یہاں آگئے؟ ‘‘ بڑے بھائی نے لیہی بناتے بناتے اسے خشمگیں نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔

وہ جواب میں کچھ نہ بولا۔ بس سامنے پڑی لکڑی کی کالی اور گندی میز پر ٹین کے ایک بدرنگ ڈبے میں رکھی ہوئی سفید گاڑھی لیہی کو اور کالی کالی مہروں کو چمکتی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ اس لیہی سے لفافے بند کیے جائیں گے۔ ڈاک ٹکٹ چپکائے جائیں گے اور پھر یہ کالی مہریں ان پر ثبت کردی جائیں گی۔

یہ ایک چھوٹا سا ڈاک گھر تھا۔ انگریزوں کے زمانے کی گوتھک طرز کی ایک گول اور منحوس پرانی عمارت۔ عام طور سے یہ گول ڈاک خانہ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کا بھائی اس گول ڈاک خانے میں لیہی اور گوند بنانے کا کام کرتا تھا۔

’’تم بھاگ جاؤ یہاں سے۔ میرا مذاق نہ بنوایا کرو۔‘‘ بڑے بھائی نے لیہی سنی انگلیاں ایک کپڑے سے صاف کیں۔
’’میں وہ سرنگیں دیکھنے آیا ہوں۔‘‘ وہ سر جھکائے ہوئے آہستہ سے بولا ۔
’’کون سے سرنگیں؟‘‘
’’بابو نے بتایا تھا کہ اس ڈاک خانے کے نیچے کچھ سرنگیں ہیں جو بہت دور دور کے شہروں کے ڈاک خانوں میں جا کر کھلتی ہیں۔‘‘
’’ہاں۔ سنا میں نے بھی ہے مگر ان تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ وہ فوجی تحویل میں ہیں اور ان میں اسلحہ بھرا ہوا ہے۔‘‘
وہ مایوس ہوگیا۔

’’اچھا تو پھر میں چلتا ہوں۔‘‘ اس نے اپنی وردی کی شکنیں درست کیں۔ سر پر لگی ہوئی ٹوپی کو سیدھا کیا اور اپنا تھیلا سنبھالتے ہوئے تقریباً دوڑتا ہوا وہاں سے واپس جانے لگا۔
’’سیدھے گھر جانا۔‘‘ بڑے بھائی نے آواز لگائی۔ ’’آج سورج گرہن پڑے گا۔‘‘
اس نے اپنے چوہے جیسا سر ہلایا۔

اس کا سر تو ضرور ایک طاعون زدہ چوہے کی طرح بے بس اور مغموم نظر آتا تھا مگر جسم مضبوط اور قد بہت لمبا تھا۔ اس کے حلیے کو دیکھ کر کبھی کبھی یہ بھی گمان گذرتا تھا جیسے کسی تندرست و توانا آدمی نے کسی تماشے کے لیے چوہے کا نقاب پہن رکھا ہے۔ یہ ایسا سر تھاجسے دیکھ کر یہ اندیشہ پیدا ہوتا تھا کہ شاید ابھی ابھی اس کے منھ سے خون کی پتلی لکیر پھوٹنے لگے اور ننھے ننھے دانت اس طرح باہر نکل آئیں جس طرح طاعون میں دم توڑتے ہوئے چوہے کے۔

مگر اس کے دانت بھی ننھے ننھے نہیں تھے۔ وہ عام دانتوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی بڑے اور چوڑے تھے۔ جب وہ ہنستا تھا (ایسا کم ہی ہوتا تھا) تو دیکھنے والوں کو لگتا کہ جیسے یہ دانت منھ سے باہر نکل کر خود اس کی ہنسی کو ہی چبا چبا کر نیست نابود کررہے ہوں۔

گرمی بہت بڑھ گئی تھی۔ جون کا مہینہ تھا۔ جون کی گرمی اور تپش کی انفرادیت ہی یہ ہے کہ وہ بار بار آدمی کے دل کو ایک گیلے تولیے کی طرح نچوڑتی رہتی ہے۔

تیز تیز چلتا ہوا وہ گول ڈاک خانے سے بہت دور نکل آیا تھا۔ سڑک کے چاروں طرف جنگلی جھاڑیاں اُگ رہی تھیں۔ بس تھوڑا آگے چل کر بائیں طرف مڑنے پر کالی ندی کا وہ بوسیدہ پُل پڑتا تھا جس کے تین در تھے۔ برسات کے دنوں کو چھوڑ کر صرف ایک در میں ہی پانی بہتا تھا۔ ویسے کالی ندی کا کیا تھا، وہ تو یہاں بھی بہہ رہی تھی۔ ادھر جھاڑیوں کے پیچھے خاموشی کے ساتھ۔

کچھ دور نکل آنے پر اسے ندی کا پُل نظر آنے لگا۔ وہ چونک پڑا، مگر اس بار خوف زدہ نہیں ہوا۔ آج وہ اسے تیسری بار نظر آئے تھے۔ وہ پُل پر سے جا رہے تھے۔ قطار بنا کر، پیروں میں لمبی لمبی لکڑیاں لگائے ہوئے۔

اسے یاد تھا۔ پہلی بار جب انھیں دیکھا تھا،زمانہ گذر گیا۔
خوف زدہ ہو کر اس نے بابو کا ہاتھ سختی سے بھینچ لیا تھا۔
’’بابو یہ کیا ہے؟‘‘

’’ ارے یہ؟ یہ تو ’پاسنگ شو‘، سگریٹ کا اشتہار ہے۔ یہ ایک کرتب ہے۔ نٹوں کا کرتب۔ یہ اپنے پیروں میں بانس لگا کر چل لیتے ہیں۔ مگر اس میں ڈرنے کی کیا بات ہے؟‘‘

وہ اسی طرح بابو کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے کھڑا رہا۔

وہ سب سفید کپڑوں میں ملبوس تھے۔ اتنے طویل قامت کہ ان کے سروں کی، جوکروں جیسی سفید ٹوپیاں پُل کے کنارے لگے بجلی کے کھمبوں کے تاروں کو چھُو رہی تھیں۔ وہ گھر وں کی دیواروں سے بھی اونچے تھے۔ یہ ایک بھیانک منظر تھا۔ اس کا دل گھبرانے لگا۔ دوسرے ہاتھ میں دبی ہوئی میٹھے چورن کی پڑیا چھوٹ کر نیچے گر گئی۔ کہیں بہت دور سے، سردی میں بھی نہ کہاں سے بھٹکتا ہوا پسینہ آگیا۔

اور دوسری بار اس نے انھیں جب دیکھا تو اس کے بابو کا جنازہ جا رہا تھا۔ وہ بھی جنازے کے ساتھ ساتھ تھا۔ جب میت ندی کے پُل پر پہنچی تو اس نے دیکھا کہ سامنے سے وہ آ رہے تھے۔ سفید کپڑے، پیروں میں وہی لمبے لمبے بانس لگائے۔ ایک خاموش جلوس کی شکل میں چلتے ہوئے وہ خود بھی ایک جنازے ہی کی مانند نظر آئے۔

بابو کی میت جب ان کے قریب پہنچی تو وہ سب رک گئے۔ اسے اس وقت احساس ہوا کہ چار اشخاص کے کاندھوں پر اٹھا کر لے جائے جانے والا میت کا پلنگ ان درجنوں کی تعداد میں، پیروں میں بانس لگا کر چلنے والے مہیب طویل قامت لوگوں سے اتنا نیچا ہوگیا تھا کہ نظر ہی نہ آتا تھا۔

’’کیا تم ڈر رہے ہو؟یہ ایک کرتب ہے۔ کرتب تب ہی دکھائے جاتے ہیں جب لفظ مر جاتے ہیں اور دنیا کو نیند آنے لگتی ہے۔‘‘ مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔ پُل کے نیچے بہتی کالی ندی میں شام گر رہی تھی۔ بابو کے جنازے اور ان ہولناک اشخاص کے عکس کالی ندی میں ٹوٹ ٹوٹ کر بہنے لگے۔

وہ نہ جانے کب سے یہیں کھڑا تھا۔ وہ تو پُل پر سے نہ جانے کب کے غائب ہوچکے تھے۔ وہاں اب ہر طرف سناٹا تھا۔ بچپن میں وہ بار بار اس پُل پر سے گذرتا تھا۔ ویران سا خستہ حال پُل۔ دونوں طرف زنگ لگی ہوئی کمزور سی ریلنگ ۔ وہ اس کے گزرنے سے ہلتا تھا۔

وہ دن وہ کیسے بھول سکتا تھا۔ پُل پر بادلوں کے سائے تھے اور گذری ہوئی بارشوں کے چھینٹے تھے۔ ریلنگ پر دونوں طرف سفید رنگ کا مانجھا تنا ہوا تھا۔
سڑک نہ جانے کب ہوئی بارش سے بھیگی پڑی تھی۔ اسی بھیگی سڑک پر اس کا پیر پھسل گیا۔ اس کی گردن تنے ہوئے مانجھے کے درمیان پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔ وہ مانجھا نہیں تھا۔ ایک چاقو تھا ۔ ایک تیز دھار والا بے رحم ہنسی ہنستا ہوا چاقو۔

گردن سے بہتی خون کی دھار کو اپنے دونوں ہاتھوں سے روکتے ہوئے، بارش سے بھیگے اسی ہلتے پُل کے نیچے بہتی ہوئی کالی ندی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ اس کا سر چکرا نے لگا۔ وہ ندی کو اور نہ دیکھ پایا اور آنکھیں موند لیں۔

جب اس نے آنکھیں کھولیں تو سامنے وہ کھڑی تھی۔ ایک لڑکی جو عمر میں اس سے دو تین سال بڑی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل گول اور بے حد سفید تھا۔ اتنا سفید کہ اسے شائبہ گذرا کہ شاید اس میں خون ہی نہیں ہے۔ لڑکی کی دو گھورتی ہوئی آنکھیں اسی پرٹکی ہوئی تھیں۔ نہ جانے کیوں وہ اس کے چہرے سے لاکھ کوشش کرنے پر بھی نظریں نہ اٹھا سکا۔

ڈاکٹر صاحب نے ٹانکے لگانے اور پٹی باندھنے کی کوئی فیس نہیں لی۔ بوا نے اس کا ہاتھ تھاما اور ان لوگوں کو دعائیں دیتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چل دیں۔

آہستہ آہستہ اس کا زخم بھرنے لگا۔ مگر اسے ہلکا ہلکا سا بخار ہوجاتا تھا۔ آواز میں بھی تھوڑی سی تبدیلی آگئی تھی۔ دراصل زخم تو بھر رہا تھا مگر ٹانکوں میں کہیں کہیں مواد پڑ گیا تھا۔ مواد ہمیشہ آنے والے کھرنڈ کا راستہ روک لیتا ہے۔

ان دنوں وہ اپنے پلنگ پر لیٹا لیٹا صرف گول ڈاک خانوں اور گول سفید چہروں کا ہی آپس میں موازنہ کرتا رہتا تھا۔
پھر ایک دن وہ آئی، اس کا حال دریافت کرنے۔ اس کے ہاتھ میں انگریزی کی ایک کتاب تھی۔
’’یہ امی نے تمھیں دی ہے۔ اسے پڑھنا۔ دل بہلے گا۔‘‘ لڑکی نے کہا۔ اور اسے محسوس ہوا جیسے یہ آواز بھی اس کے چہرے ہی کی طرح سفید اور خون سے خالی تھی۔

لڑکی نے تھوڑی دیر بوا سے کچھ رسمی باتیں کیں پھر یہ کہہ کر کہ وہ کل آئے گی، رخصت ہوگئی۔مگر دروازے پر پہنچ کر اس نے ایک بار مڑ کر اسی کی طرف دیکھا تھا۔ دیکھا تھا یا گھورا تھا، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل تھا۔

تب تو نہیں مگر اب وہ واضح طور پر سب جانتا ہے کہ دراصل اس کی آنکھیں ہی ایسی تھیں۔ وہ گھورتی رہتی تھیں۔ وہ کسی شکرے کی آنکھیں تھیں۔ گھورنے سے ہی ان آنکھوں میں قوت اور بصارت کا نور پیدا ہوسکتا تھا۔ ورنہ وہ صرف اندھے کی آنکھیں تھیں۔ مگر بچپن میں وہ یہ سب کہاں جانتا تھا۔ان دنوں تو اسے ان گھورتی ہوئی آنکھوں اور خون سے خالی سفید گول چہرے سے محبت ہوگئی تھی۔ وہ تقریباً روز ہی اس کے گھر آتی تھی مگر باتیں صرف بوا سے کرتی تھی۔ اسے تو صرف گھورتی رہتی تھی۔

وہ اب ٹھیک ہوگیا تھا، اسے بخار بھی نہیں آتا تھا۔ مگر جب وہ اس سفید چہرے کی جانب نظر اٹھاتا تو اسے اپنی ہڈیوں کے اندر پوشیدہ ایک تازہ بخار کا احساس ضرور ہوتا۔ عجیب بات تھی کہ اسے صرف اس کا چہرہ ہی نظر آتا تھا۔ کوشش کرنے پر بھی وہاں اور کچھ نہیں دیکھا یا محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ بہت ڈھیلے ڈھالے اور ضرورت سے کچھ زیادہ ہی کپڑے پہنتی تھی۔ اس کے پیٹ کی طرف دیکھنے پر لگتا جیسے وہ آنتوں سے خالی پیٹ ہو۔ جیسے وہاں صرف ہوا بھری ہو۔ وہ کبھی کبھی اس کی کہنیوں کی ہڈیوں یا کلائی کی ہڈیوں کو دیکھنا چاہتا تھا مگر یہ ممکن نہ تھا۔

وہ گول سفید چہرہ بھی دراصل ایک خالی طشتری ہی کی طرح تھا جس پر اس کی بے حس ، گھورتی ہوئی دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں کسی ڈیزائن کی مانند چسپاں تھیں۔ یقیناًوہاں ناک تھی، ہونٹ تھے، ٹھوڑی تھی اور کان بھی تھے مگر وہ یاد نہ آتے تھے۔ اور اکثر وہ چہرہ انھیں اپنی حبس بھری سفید گول دھند میں چھپا لیتا تھا۔

’’شاید وہ مجھ سے محبت کرتی ہے ،اس لیے گھورتی ہے۔‘‘ وہ اکثر سوچتا۔ دراصل گھورنا ایک پراسرار عمل ہے۔محبت میں، نفرت میں، غصے میں، غوروفکر میں اور یہاں تک کہ بے خیالی میں بھی آنکھوں کو بہرحال گھورنے کا فرض تو ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ وہ تو پھوٹ پھوٹ کر رونے کا وقت ہی ہے جب آنکھوں کو گھورنے سے نجات ملتی ہے۔

اس لیے وہ کوئی فیصلہ نہ کرپاتا مگر ایک دن آخر اس نے ارادہ کر ہی لیا۔ بڑی ہمت کرکے اس نے ایک سفید کاغذ پر لکھا۔
’’مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘
پھرا س جملے کو انگریزی میں بھی لکھا ، کیوں کہ اسے یاد آیا کہ وہ انگریزی اسکول میں پڑھتی ہے۔
"I love you”

عبارت کے نیچے اس نے بچکانہ انداز میں ایک پھول بھی بنا دیا تھا۔ یہ اس کا محبت نامہ تھا۔ زندگی کا پہلا اور آخری محبت نامہ جسے اس نے لڑکی کو دی ہوئی انگریزی کتاب میں احتیاط کے ساتھ رکھ دیا۔

اس دن صبح سے دوپہر تک بارش ہی ہوتی رہی۔ جب بارش تھمی تو وہ آئی۔ اس کے آنے پر وہ کتاب ہاتھ میں تھام کر دروازے پر کھڑا ہوگیا۔ اگست کا مہینہ تھا۔ بارش کے بعد دھوپ نکل آئی تھی۔ محلے کے گھروں کی دیواریں اور منڈیر یں صبح کی بارش سے بھیگی ہوئی تھیں مگر اب ان پر سنہری دھوپ چمکنے لگی تھی۔

کچھ دیر بوا سے باتیں کرنے کے بعد وہ اپنے گھر واپس آنے کے لیے نکلی۔اس نے اسے دروازے پر کھڑے دیکھا تو چونک گئی۔
’’لو اپنی کتاب۔‘‘ اس نے اسی گھرگھراتی ہوئی آواز میں کہا جو گردن کے زخم کے بعد اس کے حلق سے نکلنے لگی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ آواز خود ایک کٹا پھٹا زخم تھا جس میں پیپ بھر گئی ہو۔ ایک پل کے لیے اس نے خود کو دروازے پر کھڑا ایک ڈاکیہ تصور کیا۔
’’اس میں ایک خط ہے۔‘‘ اس نے اپنی پیپ بھری آواز میں اس طرح کہا جیسے ڈاکیے دروازے پر آواز لگاتے ہیں۔

لڑکی نے کتاب تھامی ، پھر اس کے اندر سے وہ سفید کاغذ نکالا۔اس کا سفید گول چہرہ اور بھی زیادہ خطرناک حد تک سفید ہوگیا۔ اس کی گھورتی ہوئی دو آنکھیں اس کے چہرے سے نکل کر اُڑنے لگیں ، کسی شکاری عقاب کی طرح۔

’’میں تمھارے چوہے جیسے نفرت آمیز سر کو دیکھتی تھی۔ میں تم سے نفرت۔۔۔۔۔۔۔‘‘ لڑکی کی خون سے خالی آواز دروازے کی چوکھٹ سے ٹکرائی۔ اس نے کاغذ کا وہ ٹکڑا پرزہ پرزہ کرکے اس کے منھ پر دے مارا۔ پھر اس کے جسم پر کپڑے اور بھی زیادہ بڑھ گئے۔ اتنے زیادہ کہ اس کے بعد وہ اسے دوبارہ نہ دیکھ سکا۔

ٹھیک اس وقت آسمان پر کہیں رینگتا ہوا گھنا سیاہ بادل آ پہنچا اور دیواروں، منڈیروں سے چپکی ہوئی دھوپ پٹ کی آواز کے ساتھ ایک حواس باختہ یا مردہ چھپکلی کی طرح نیچے گر گئی اور سڑک کنارے، کالا پانی لے جاتی ہوئی تنگ نالی میں کسی زرد سانپ کی طرح بل کھاتی ، بہتی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

وہ سفید چہرہ اس کا اکلوتا اندھیرا بن گیا۔ اس اندھیرے میں ایک تیز دھاروالا نفرت آگیں چاقو پھر اس کی گردن پر آکر ٹھہر گیا۔

وہ پُل اب بہت پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ چلتے چلتے وہ وہاں سے دور نکل آیا ہے۔ اب وہ بچہ یا کم سن لڑکا نہیں ہے۔ ادھیڑ عمر کا ایک آدمی ہے۔ مگر اب بھی اس کے خوابوں میں سبز رنگ کا ایک بڑا سا ڈاک ٹکٹ اُڑتا ہوا آتا ہے جس پر وہ گول اور سفید چہرہ بنا ہوا ہے۔ ان خوابوں میں، جنھیں دیکھ کر سوتے وقت وہ زور زور سے خراٹے لیتا ہے اور کبھی کبھی اس کی بیوی بے رحمی کے ساتھ زور زور سے اس کا شانہ جھنجھوڑ کر جگا دیتی ہے۔

چلتے چلتے اسے محسوس ہوا کہ تھیلے میں سے کاغذ ڈھیلے ہو کر باہر آ رہے تھے۔ تھیلے کا توازن بگڑنے لگا۔ وہ سڑک پر اکڑوں بیٹھ گیا اور تھیلے کے کاغذوں کو ایک ڈوری سے کس کر باندھنے لگا۔

اور تب اس نے سوچا کہ محبت اور نفرت دونوں اپنی الگ الگ تاریخ لکھتی ہیں۔ دو متوازی تاریخیں اور پھر آخر میں یہ دونوں ایک ہی ڈوری سے بندھ جاتی ہیں۔ کبھی نہ سمجھ میں آنے کے لیے، ایک راز، ایک معمہ بن جاتی ہیں۔

اس نے اپنی گردن کو چھوا۔ زخم جب بھر جاتے ہیں تو ان کے اندر رہنے والا درد کہاں جاتا ہے۔ کس اندھیرے گوشے میں جاکر چھپ جاتا ہے؟ کیوں کہ اس ناقابل معافی دنیا میں کوئی بھی شے ، کوئی بھی کیفیت کبھی مٹتی نہیں۔ وہ صرف اپنا چولا بدل لیتی ہے۔

وہ دوڑ دوڑ کر چل رہا تھا۔اسے یاد آیا کہ چوبیس سال بعد آج پھر سورج گرہن پڑنے والا ہے۔ مگر دھوپ میں ایک دوسرے قسم کی تیزی ہے۔ ایک شدید احتجاج، ایک تپتا ہوا غصہ چاند کے خلاف۔ زمین کے خلاف۔ آسمان کے پردے سے باہر آرہاتھا۔ دور کسی پنجرے میں بند درندے کی غراہٹ کی طرح۔ اس نے اسے واضح طور پر سنا۔

(۳)
قتل کا حلیہ کیسا ہے؟

’’بھیا۔ ڈبے میں کریلے اور روٹیاں رکھ دی ہیں۔ مگر ہوسکے تو آج دوپہر سے پہلے ہی گھر آ جانا۔ آج سورج گرہن ہے۔‘‘ بہن نے بھائی سے کہا تھا۔
’’اب جتنی ڈاک ہوگی وہ تو بانٹنا ہی پڑے گی مگر تم دونوں بچوں کو دوپہر میں گھر سے باہر مت نکلنے دینا۔‘‘ اس نے چائے پیتے پیتے جواب دیا تھا۔
’’بابو سورج گرہن میں کیا ہوتا ہے؟‘‘ چھوٹے نے باپ کی وردی پر رینگتی ہوئی چیونٹی کو جھاڑتے ہوئے پوچھا تھا۔

’’چاند زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے اور سورج کی روشنی کم ہوجاتی ہے۔‘‘
’’بابو میں بھی چلوں تمھارے ساتھ، سورج گرہن دیکھنے؟‘‘

’’میں سورج گرہن دیکھنے تھوڑی جا رہا ہوں۔ میں تو اپنی ڈیوٹی پر جا رہا ہوں۔ مگر تم دوپہر میں گھر سے مت نکلنا۔ اس کے اثرات خراب ہوتے ہیں۔‘‘
وہ اپنی چائے ختم کرکے اٹھ گیا۔ اپنی وردی اور ٹوپی کو سنبھالتے ہوئے اس نے دروازے میں کھڑی سائیکل اٹھائی جس کے کیرئیر میں چھوٹا سا المونیم کا ناشتہ دان لگاہوا تھا۔

بابو آج ہیرو نظر آ رہے ہیں، یہ وردی ان پر کتنی سجتی ہے۔ چھوٹے نے سوچا تھا۔

گیارہ بجے سے لگاتار ڈاک بانٹتے بانٹتے وہ تھک گیا تھا۔ اب دوپہر ہو رہی تھی۔ اس کی سائیکل کچھ دنوں سے بہت بھاری چلنے لگی تھی۔ پیڈل مارنے میں پیروں کی جان ہی نکل جاتی تھی۔ مئی کی دوپہر تھی۔ لُو بہت تیز چل رہی تھی، گرم گرم جھکڑ اس کی وردی کو اڑائے دے رہے تھے اور سائیل ہوا کے زور سے باربار پیچھے کی طرف جاتی تھی۔ اسے بہت طاقت لگانا پڑرہی تھی۔ سڑکیں اور گلیاں آج تقریباً ویران تھیں۔ ایک تو دوپہر کی وجہ سے اور شاید گرہن کے سبب بھی۔

بس یہ دو منی آرڈر اور پہنچا دوں، پھر آرام سے بیٹھ کر کہیں کھانا کھاؤں گا۔ اس نے سوچا۔ بھوک اور پیاس سے اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔
اب وہ دادو کے کنویں کے قریب آگیا تھا جس کے پاس پاکھڑ کا ایک پرانا درخت تھا۔ اسے دادو کے کنویں کے سامنے والی گلی میں جانا تھا جو آگے چل کر بند تھی۔

تب اسے خیال آیا کہ یہی وقت سورج گرہن کا ہے۔
دھوپ مٹیالی ہوگئی تھی۔ دھوپ کا یہ مٹیالا پن خوش گوار نہ تھا۔ سورج کے سامنے بادل کا کوئی چیتھڑا تک نہ تھا مگر کسی پراسرار سبب سے اس کی چمک کم ہوتی سی محسوس ہوئی۔

ویران دوپہر میں آسمان میں کوئی چیل انڈا چھوڑ رہی تھی۔
ماحول میں ایک عجیب سی، ناقابل تشریح قسم کی نحوست طاری ہوگئی۔

وہ سائیکل سے اتر کر ، پیدل، سائیکل کا ہینڈل تھامے تھامے اس سنسان بند گلی میں داخل ہوا۔
اس نے دیکھا سامنے تین چار لڑکے کھڑے ایک فحش سا گیت گاتے ہوئے اس کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔
’’ہٹ جانا بھائی،آگے جانا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔

’’چپ تیری بہن کی۔۔۔۔۔نکال کتنے پیسے ہیں تیرے تھیلے میں ۔‘‘
’’اسے ہاتھ مت لگانا۔ یہ منی آرڈر کے پیسے ہیں۔ میری جیب میں جو ملے، وہ لے لو۔‘‘ وہ سہم کر تقریباًگڑگڑاتے ہوئے بولا۔
’’تیری تو ماں کی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ایک لڑکے نے جیب میں سے لمبا سا چاقو نکالا ۔
اس نے ڈاک کے تھیلے کو کس کر اپنے سینے سے لگالیا۔
لڑکوں نے مل کر اسے دبوچ لیا اور اس پر پے درپے چاقو کے وار کرنے لگے۔

وہ بڑی ہذیانی چیخیں تھیں مگر اس وقت جیسے انھیں سننے والا کوئی نہ تھا۔ تھیلا چھین کر وہ چاروں دادو کے کنویں کی طرف بھاگتے چلے گئے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ تھامے ہوئے چیختا ہوا دادو کے کنویں کی طرف دوڑا مگر پھر اس میں سکت نہ رہی۔ اپنا پیٹ تھامے تھامے وہ جھکتا چلا گیا۔ پھر بے دم ہو کر زمین پر پڑی ہوئی اپنی سائیکل پر گر پڑا۔

وہ یوں ہی اپنی سائیکل پر گرا ہوا تھا۔ اس کے پیٹ سے آنتیں نکل کر باہر آگئی تھیں۔ اس کے نیچے زمین پر خون کا دھبہ بڑا ہوتا جارہاتھا۔ اسی خون پر اس کا ناشتہ دان کھل کر الٹ گیا تھا جس میں سے کریلوں کی سبزی اور دو روٹیاں نکل کر اس کے پیٹ سے باہر آئی ہوئی بھوکی آنتوں سے جا لپٹی تھیں۔
وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا پیٹ تھامے دم توڑ رہا تھا۔ آسمان اور بھی مٹیالا ہونے کی طرف جھکا۔ دھوپ یکبارگی کو بالکل مدھم ہوگئی۔آسمان کی اونچائیوں میں ایک چیل چیخی اور دادو کے کنویں میں بیٹ کرتی ہوئی گذر گئی۔ دور خلا میں سورج کو گرہن لگا۔ پھر ایک ثانیے بعد دھوپ تیز ہوئی اور تب دادو کے کنویں کی طرف سے ایک شور اٹھا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں سے نکل کر دوڑتے ہوئے ادھر چلے آ رہے تھے۔

’’ارے ڈاکیے کو مارڈالا۔ بے چارے غریب ڈاکیے کو۔‘‘ کوئی چلا چلا کر کہہ رہا تھا مگر اس کے کانوں میں یہ آواز بہت مدھم سی سرگوشی بن کر آئی اور شاید یہ اس دنیا کی آخری آواز تھی جو اس کے کانوں نے سنی۔

چھوٹے کو صرف اتنا یاد ہے کہ بھری دوپہر میں سڑک پر خون کا ایک بڑا سا دھبہ تھا جو لُو کے گرم تھپیڑوں سے خشک اور سیاہ ہوتا جاتا تھا۔ سائیکل کی گھنٹی، مڈ گارڈ، پہیے، تیلیاں، گدی، سب پر خون کے چھینٹے تھے۔ بابو کی خاکی رنگ کی وردی خون میں اس طرح لتھڑی ہوئی تھی جیسے مٹی خون سے لتھڑ جاتی ہے۔ اس کو بابو کی شکل نظر نہیں آئی، یہاں تک کہ اس شام جب اسے باپ کی میت کے پاس لے جایا گیا تو وہاں بھی اسے کوئی شکل نہیں دکھائی دی۔ سفید کفن کے نیچے جھانکتا ہوا صرف وہی خون کا بڑا سا دھبہ ہی چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔

بہت عرصہ گذر جانے کے بعد کسی مسخرے نے اس سے پوچھا تھا۔
’’قتل کا حلیہ کیسا ہوتا ہے، وہ دیکھنے میں کیا لگتا ہے؟‘‘
تب چھوٹے نے اعتماد اور اطمینان کے ساتھ جواب دیا تھا کہ قتل خون کے رنگ کا ایک ڈاک ٹکٹ ہے جس پر ایک چاقو بنا ہوا ہے۔

(۴)
بہروپیا

جب وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو بیوی باہر ہی کھڑی مل گئی۔
’’آگئے؟ آج کتنا کمایا؟‘‘ وہ زہر خند لہجے میں بولی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا مگر چہرے سے خوشی کا اظہار کیاا۔ آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرے تک آیا، پھر وردی اتار کر دیوار پر لگی کھونٹی پر ٹانگ دی۔ پھر سر سے ٹوپی اتاری اور فرش پر پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

’’روٹی کھاؤگے؟‘‘
اس نے بظاہر خوش دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفی میں سر ہلادیا۔
’’اچھا ہو اگر تم اپنی ٹوپی ہر وقت سر پر لگائے رہو، ایک تو بالکل گنجے ہو چکے ہو، اوپر سے ٹوپی اتارنے پر تمھارے سر کا چوہاپن کچھ اور نمایاں ہونے لگتا ہے۔‘‘ بیوی نے کہا۔
اچانک اس کے چہرے کی خوش دلی غائب ہوگئی۔ اس کے اندر سے اداسی اس طرح نمایاں ہوگئی جیسے رنگے ہوئے بالوں میں سے سفیدی جھانکنے لگتی ہے۔
وہ خاموش بیٹھا رہا۔
’’کیا بات ہے۔ آج کچھ جلدی آگئے؟‘‘
وہ بیوی کو بغیر پلکیں ہلائے دیکھنے لگا۔جب بھی وہ اس طرح بغیر پلکیں ہلائے دیکھا کرتا تو محسوس ہوتا جیسے وہ ساری دنیا کو اپنی پلکوں پر ڈھیر کی طرح اکٹھا کرکے بیٹھا ہے اور جب پلکیں ہلاتا تو لگتا جیسے وہ ساری دنیا کو غصے کی آگ میں جلا کر راکھ کر دینے کے لیے بار بار دیا سلائیاں رگڑ رہا ہے۔
’’آج سورج گرہن پڑے گا۔ پورے چوبیس سال بعد۔‘‘ وہ افسردگی کے ساتھ بولا۔

’’تو…تو تم کیا کروگے؟ کیا کالا چشمہ لگا کر گرہن لگنے کا منظر دیکھو گے؟‘‘ وہ درشتی کے ساتھ بولی۔
اس نے بیوی کے درشت لہجے کو محسوس کیا اور یہ سوچنے لگا کہ وہ گرہن لگنے کا ایک منظر دیکھ چکا ہے…چوبیس سال پہلے کالے شیشے کے بغیر مگر آسمان پر نہیں سڑک پر۔

بیوی بھی گویا اس وقت اس کے سر ہی ہوگئی تھی۔
’’تمھیں اپنا بہروپیا پن جتنا دکھانا ہے، دکھاؤ۔ مگر اس سڑی گلی ، اگھور وردی کو تو لے جا کر کوڑے میں پھینک آؤ۔ اس میں نہ جانے کتنے جوئیں اور پسّو پڑ گئے ہوں گے۔ ایسی بھی کیا باپ کی نشانی۔ تم کیسے اسے برداشت کرتے ہو؟ اس پر تمھارے باپ کے خون کے دھبے نظر آتے ہیں۔‘‘
اور یہ حقیقت تھی کہ وردی پر جگہ جگہ خون کے دھبے تھے جو وردی کے دھلتے رہنے کے ساتھ اور وقت گذرجانے کے باعث کالے اور جامنی رنگ میں بدل گئے تھے۔ اس میں جگہ جگہ سوراخ ہوگئے تھے۔برسات میں پانی بھیگ کر اس سے ایسی سڑاندھ نکلتی کہ قریب کھڑے آدمی کو اپنی ناک پر ہاتھ رکھنا پڑ جاتا۔ بوا نے باپ کے مرنے کے بعد ہی خون سے سنی اس منحوس وردی کو پھینک دینا چاہا تھا مگر اس نے ضد پکڑ لی تھی۔

’’وردی نہیں جائے گی۔ ہر گز نہیں جائے گی۔ وردی میری ہے۔‘‘ وہ رو رو کر کہہ رہا تھا۔ آخر بوا کو بن ماں باپ کے اس سنکی سے بچے کے سامنے ہار ماننا ہی پڑا۔

’’سنو! پرانے کپڑے فروخت کر کر کے اب مجھ سے گذر بسر نہیں ہو سکتی۔ تم یہ بہروپیا پن چھوڑ کر کوئی ٹھیلہ ہی لگا لو۔‘‘ بیوی نے اس بار نرمی اور سمجھانے والے انداز میں کہا تھا۔ بیوی کے سانولے ماتھے پر پھر چند دانے ابھر آئے تھے، جیسے مچھروں کے کاٹنے سے ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی اس کی نظر ان دانوں پر پڑی، اسے اپنے جسم کے اندر ایک جانی پہچانی سی بو کا احساس ہوا۔ ایک ایسی بُو جو صرف شہوت جگاتی تھی اور کھال کے مساموں میں کوئی شے باہر سے آ کر رینگنے لگتی ہے۔ اس کی بیوی نے اس بُو کو پہچان لیا۔

’’ہوش میں رہو۔‘‘ اس نے حقارت کے ساتھ کہا اور اندر چلی گئی۔

وہ تھوڑی دیر یوں ہی فرش پر بیٹھا رہا، پھر لیٹ گیا اور بوا کو یاد کرنے لگا جسے گذرے ہوئے دس سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی بوا کی سسرال کی ایک دور کی رشتے دار ہوتی تھی۔ وہ ایک مطلقہ عورت تھی جس کے کوئی بچہ نہ ہوسکا تھا۔ بوا نے اس کے ماں باپ کو پتہ نہیں کیا پٹّی پڑھائی تھی کہ وہ اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔ بیوی کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی ضرور تھیں مگر ان میں کوئی جاذبیت نہ تھی بلکہ وہ ہمیشہ اس طرح پھٹی پھٹی رہتیں جیسے ان میں تنکا پڑ گیاہو اور وہ آنکھیں پھاڑ کر اسے کسی سے نکلوانا چاہتی ہو۔ دبلی پتلی ہونے کے باوجود اس کے کولہے بھاری اور ضرورت سے زیادہ گول مٹول تھے۔ اس کے پستان چھوٹے اور ڈھلکے ہوئے تھے مگر ان میں گولائی نام کو نہ تھی۔ وہ کچھ لمبوترے سے تھے۔ ایک عجیب بات اس میں یہ بھی تھی کہ اکثر اس کے ماتھے پر ایسے سرخ سرخ دانے ابھر آیا کرتے تھے جو گرمیوں میں نکلنے والی پھنسیوں سے مشابہ تھے یا پھر مچھر کاٹے سے ۔ ان دانوں کا کوئی وقت یا موسم نہ تھا ۔ وہ پراسرار انداز میں کبھی بھی نکل سکتے تھے۔ اور جب وہ نکلتے تو انھیں دیکھ کر وہ جنسی خواہش سے بے قابو ہو جاتا۔ ایک ایسی خالص اور ایمان دار جنسی خواہش جس میں محبت کی ملاوٹ کا کوئی شائبہ تک نہ تھا۔ بس یہی وہ زمانہ ہوتا جب رات کے اندھیرے میں پلنگ پر وہ دونوں وحشیوں کی طرح مضحکہ خیز انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھا پائی سی کرتے، جب تک کہ ا ن کی سانسیں ڈھیلی نہ پڑ جاتیں۔ تب اس کا مضبوط جسم سر خرو ہوتا مگر اس کا چوہے جیسا سر تکیے پر ڈھلک جاتا۔
پھر بیوی اندر والے کمرے میں جا کر سو جاتی جہاں تک اس کے خراٹوں کی آواز نہ آتی تھی۔

یقیناًیہ ایک بھیانک بات تھی مگر ہر ایمان دار اور خالص جذبے میں قسم کا ناقابل فہم اور اس کا بالکل نجی بھیانک پن ہوتا ہی ہے جس کے لیے اسے معاف کردینا چاہیے۔

اور یہ تو سب کو عیاں تھا کہ اس کی بیوی کے بچے نہ ہوسکتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اسے ایک ایسے شخص سے بیاہ دیا گیا تھا جو دنیا کی نظر میں صحیح الدماغ نہ تھا، بلکہ شاید پاگل تھا۔
شاید یہی سبب تھا کہ ٹھیک ٹھاک پڑھ لکھ لینے کے باوجود اس کو محکمۂ ڈاک میں اپنے باپ کی جگہ نوکری نہ مل پائی تھی۔ ہاں، اس کے بھائی کو ضرور گول ڈاک خانے میں لیہی اور گوند بنانے کی ایک حقیر سی نوکری مل گئی تھی۔ بڑا بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ الگ مکان میں رہتا تھا اور چھوٹے بھائی کے سنکی پن سے اتنا نالاں تھا کہ اس سے تقریباً ہر قسم کا تعلق ہی توڑ چکا تھا۔

’’بہروپیا۔ بہروپیا!‘‘ باہر گلی میں بچوں نے آواز لگائی۔
وہ چونک کر اٹھ بیٹھا۔ شاید اسے جھپکی آگئی تھی۔ شام ہورہی تھی۔ سورج گرہن گذر چکا تھا۔ شاید ساتھ خیریت کے۔ صرف اس کے ہاتھ پیر کچھ گرم سے تھے۔
’’بہروپیا!‘‘ باہر بچے پھر چلائے۔

اور یہ حقیقت تھی کہ وہ ایک بہروپیا تھا۔ مگر کیسا عجیب بہروپیا، کہ صرف ڈاکیے کا ہی بہروپ بھرتا تھا۔ بچپن سے ہی وہ باپ کی زندگی میں ہی نہ جانے کہاں کہاں کے ڈاک گھروں میں بھٹکتا پھرتا۔ باپ کی چھٹی کے دن وہ اس کی وردی پہن کر ڈاکیے کی نقل اتارتا۔ یہ سلسلہ باپ کے قتل کے بعد رکا نہیں بلکہ پاگل پن میں بدل گیا۔ محلے والے اسے چھیڑا کرتے اور یوں تو شہر میں بہت سے بہروپیے گھومتے رہتے تھے، کوئی ڈاکٹر کا بہروپ بھرتا تھا، کوئی وکیل کا، کوئی ٹریفک کے سپاہی کا تو کوئی ڈاکو کا، یا چیتھڑے لگائے ہوئے مجنوں کا۔ جو بھی ہو، بہروپیے بھکاریوں سے تو بہتر تھے اور انھیں بھکاریوں کے مقابلے زیادہ عزت اور قدر کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے تھا۔ مگر وہ تو صرف ڈاکیے کا ہی بہروپ بھرتا تھا اور کچھ لوگ اسے مجذوب بھی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کئی بار پولیس بھی اسے غیر ملکی جاسوس ہونے کے شبہ میں پوچھ تاچھ کے لیے تھانے لے گئی تھی۔ لیکن اب اسے سب جاننے لگے تھے۔ وہ تقریباً تمام شہر میں مذاق کا نشانہ بن گیا تھا۔ خاص طور پر محکمۂ ڈاک کے لیے۔ مگر اس سے کیا ہوتا ہے؟ وہ یہ بخوبی جانتا تھا کہ مذاق اڑانے والوں میں اور مذاق کا موضوع بننے والوں میں آپس میں کچھ بھی مشترک نہیں ہوتا۔ یہ کوئی رشتہ ہی نہیں ہے، اگرچہ دنیا کے سب سے زیادہ دلچسپ اور تفریح کن رشتے کا التباس ضرور پیدا کرتا ہے۔ یہ دونوں قطعی طور پر مختلف دنیاؤں کی مخلوق ہیں۔ خدا کی بنائی ہوئی دو دنیائیں۔ مذاق اڑانے والوں کے سر طاعون سے بیمار چوہوں جیسے نہیں ہوتے اور سوتے وقت انھیں بھیانک خراٹے نہیں آتے، وہ ایک الگ دنیا کے بہروپیے ہیں۔

باہر گلی میں اب بہت سے بچوں نے مل کر ہانک لگائی۔
’’بہروپیے۔۔۔بہروپیے! کہاں ہو تم؟‘‘
مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔ وہ گھر سے باہر آنے لگا۔ محلے کے بچے اسے دیکھ کر اچھلنے کودنے لگے۔ پھر وہ چلائے۔
’’وردی پہن کر آؤ۔ وردی پہن کر آؤ۔‘‘
وہ واپس گھر میں وردی پہننے کے لیے دوڑا۔
صبح سے شام تک اور کبھی کبھی رات میں یہی اس کا مشغلہ تھا جسے وہ ایک عین اخلاقی فرض کی حیثیت سے سالہا سال سے کرتا آرہا تھا۔ بہروپیا بن کر اپنی دانست میں وہ معاشرے میں مسرت پیدا کررہا تھا۔ ایک ایسی مسرت جو حیرت زدگی کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ معصوم حیرت زدگی جو صرف اس لیے غائب ہوتی جارہی تھی کہ خود لوگوں نے نہ جانے کتنے نقاب اوڑھ رکھے تھے۔ معصوم حیرت زدگی بہرحال لوگوں کو اپنے اصل روپ کے اندر تک تو لے جاتی تھی مگر وہ تھا ہی کیا؟ اس کی اوقات ہی کیا تھی؟ وہ تو شاید ایک ڈاکیہ بھی نہ تھا۔ صرف ڈاکیے کا بہروپیا تھا جو دوپہر، شام، رات ہر وقت گلی ، کوچوں، ویران علاقوں اور کبھی کبھی کالی ندی کے سنسان اور ویران کناروں پر بھی بھٹکتا پھرتا تھا۔ وہی کالی ندی جو شاید اس کے جسم سے امر بیل کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔
وہ پیدل دوڑ دوڑ کر، ڈاک بانٹا کرتا اور یہ ڈاک کچھ اس طرح کی ہوتی۔
ردی کاغذ کے ٹکڑے، بچوں کی ردی میں بیچی گئی کتابیں اور کاپیوں کے اوراق، سودا فروخت کرنے والوں کی اخباری یا بانس کے کاغذ کی بنی تھیلیاں، جن میں وہ جھوٹ موٹ کے پارسل بنا لیتا۔ ان میں جنگلی پھول، گھاس اور کنکریاں وغیرہ بھردیتا تھا۔ کسی غریب بچے کو سڑک کنارے روتا ہوا دیکھتا تو بھاگ کر اس کے پاس آتا اور کہتا۔
’’لو تمھاری چٹھی آئی ہے۔‘‘ اور پھر اس کے ہاتھ میں ایک میلا سا دبا مسلا رنگین کاغذ پکڑا دیتا، جس پر کچھ نہ کچھ لکھا ضرور ہوتا تھا، کیوں کہ تحریر کے بغیر کاغذ کی کوئی اہمیت نہ تھی اور ایک چھوٹا بچہ بھی اس نکتے کو بہرحال بخوبی سمجھتا تھا۔ اس کے تھیلے میں پرانے رنگین کلینڈر، پرانے شادی کے کارڈ، سال گرہ یا تیوہاروں کی مبارک باد وغیرہ کے کارڈ بھی رہتے تھے۔ بچوں کی طرح وہ ان بوڑھے ماں باپ کو بھی کوئی نہ کوئی کاغذ یا کارڈ دے کر بہلا دیتا تھا جو اپنی اولادوں کے خطوں کے انتظار میں تقریباً مردہ ہوچکے تھے۔

کیا واقعی یہ ایک قسم کی اداکاری تھی؟ صبح سے شام تک یہ بہروپ بھرنے کے بعد اس کے پاس صرف ایک خالی اور بے معنی دنیا رہ جاتی تھی جو کہ صرف اس کا ہی نہیں بلکہ ہر عظیم اداکار کا مقدر ہوتی ہے۔ مگر نہیں اس خالی اور بے معنی زندگی میں رات کے وقت اس کے لیے ایک شے اور پوشیدہ تھی اور وہ تھی اس کے خراٹے۔ یہ کوئی عام خراٹے نہ تھے۔ اس کے سوجانے کے بعد اس کے قریب لیٹ کر دنیا کے کسی بھی شخص کو نیند نہیں آ سکتی تھی۔ دوسروں کے لیے یہ بے حد خوف ناک اور پراسرار خراٹے تھے۔ ویسے تو یہ بیماری اسے ہمیشہ سے تھی مگر بچپن میں مانجھے سے گردن کٹ جانے کے بعد سے یہ بڑھ گئی تھی اور گذشتہ دو سال سے اس نے بے حد شدت اختیار کرلی تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ خراٹے لینے کی وجہ ناک کے پچھلے حصے ، تالو، حلق کے کوے اور زبان کی کوئی نہ کوئی خرابی ہوتی ہے۔ دراصل ہوا کا راستہ بند ہو جانے سے آدمی خراٹے لیتا ہے۔ اس کے لیے یا تو تالو کا آپریشن کرانا ہوگا یا پھر حلق کے کوے نکلوانے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ نہ تو وہ اپنے ظاہری یا جسمانی زندگی کے تئیں اتنا چوکنا تھا اور نہ کوئی دوسرا اس کے لیے یہ درد سر مول سکتا تھا۔ مگر ڈاکٹروں کا اندیشہ تھا کہ اس طرح کے خراٹوں میں دل پر دباؤ بڑھتا رہتا ہے ، جس کی وجہ سے کبھی بھی سانس رک سکتی تھی۔ دل کی دھڑکن بند ہو سکتی تھی اور وہ مر سکتا تھا۔

کبھی کبھی جب اس کے گلے کے غدود بڑھ جاتے تو یہ خراٹے اٹک اٹک کر آنے لگتے۔ کچھ اس طرح جیسے تالو میں ازل سے بیج کی صورت پوشیدہ ’شبد‘ ناک اور منھ سے نکلتی ہوئی ہوا کے سہارے باہر آنا چاہتے ہوں۔ کسی نادیدہ، پرا سرار اور عظیم زبان کے حروف تہجی میں شامل ہوکر نیند کی خاموشی کے خلاف ایک بیانیہ کی تشکیل کرنے کے لیے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے یہ خراٹے اداس اور دکھی تھے۔ ایسے خراٹے موت کے کتنا قریب تھے اور شاید اس کالی ندی سے بھی جو اس کے شہر میں ہر طرف بہتی پھرتی تھی۔

وردی پہن کر اور کاغذوں سے بھر اہوا خاکی رنگ کا تھیلا لیے ہوئے وہ گھر سے پھر نکلا اور گلیوں گلیوں دوڑتا ہوا گھومنے لگا۔کسی بچے کے ہاتھ میں کوئی رنگین کاغذ تھماتا ہوا ، کسی راہ گیر کو کسی ایسی شادی کا کارڈ دیتا ہوا جس کی تاریخ نکل چکی تھی۔ ایک سچے بہروپیے کی طرح اپنا فرض پورا کرتے ہوئے وہ دوڑ دوڑ کر اپنی ڈاک بانٹا کرتا۔ دوڑنے میں اس کی سانس بری طرح پھول جاتی تب وہ دم بھر کو سڑک کنارے یا کسی دوکان کے پٹلے پر بیٹھ جاتا۔ مگر آہستہ چلنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ شاید اسے معلوم تھا کہ جدید انسان کے ارتقا میں دوڑنے کا کتنا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ دوڑنے میں انسانوں کی گردن اور ریڑھ کی ہڈیوں کے گُر یوں نے تمام دھچکے برداشت کرنا سیکھ لیا۔ دونوں بانہوں اور کاندھوں نے توازن برقرار رکھنے کا کام انجام دیا ہے اور یہ انسانی کولہے ہی تو ہیں جودوڑتے وقت تیزی سے مڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ وہ قدیم انسان جب درختوں سے نیچے اترے تب دوڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔
مگر وہ اور بھی تیز دوڑنا چاہتا تھا، تقریباً اڑنا چاہتا تھا۔ مگر کسی پرندے کی طرح نہیں بلکہ ایک پاگل ہوا کی طرح۔۔۔۔۔۔آزاد۔ ادھر سے ادھر۔ تقدیر میں بدلتی ہوئی ہوا، ریگستان میں ریت کے تودوں کی جگہ بدل دینے والی ہوا کی طرح۔
وہ اکثر سوچا کرتا کہ زمانہ کسی چٹھی رساں کے قدموں کے بنائے ہوئے راستوں پر کیوں نہیں چلتا۔
اور یوں تو زمانہ قیامت کی چال چل گیا تھا۔

وہ بہت تیز رفتار ہوگیا تھا۔ مگر انسانی جسم کی حرکت و رفتار تقریباً ایک مردے کے جسم کے برابر ہی رہ گئی تھی۔ جسم نظر آتے تھے، پہیوں پر بیٹھے بے جان مورتیوں کی طرح۔ پہیے ہوا سے باتیں کرتے تھے۔ انسانی جسم نہ ہلتا تھا۔ اس کو پسینہ تک نہ آتا تھا۔نظر نہ آنے والی قوت کے کاندھوں پر سوار پل بھر میں لوگ ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرلیتے تھے۔ صرف ان کی انگلیاں ادا کے ساتھ ہلتی تھیں اور اس کے خیال میں یہ ایک فحش بات تھی۔ سب کچھ مایوس کن حد تک خوب صورت ہوتا جا رہا تھا۔

یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت تھی کہ لوگ اب اس کے اس بہروپ سے تقریباً اکتا گئے تھے۔ پھر بھی بھکاریوں کی طرح دن بھر میں اسے چند پیسے مل ہی جایا کرتے جن سے اس کی خودداری کو ٹھیس لگتی تھی۔ اسی لیے وہ ان پیسوں سے پرچون کی دوکان پر جا کر ردی کاغذ خرید لاتا۔ گھر کا خرچ بیوی ہی چلارہی تھی۔ وہ بڑے شہر جا کر وہاں سے پرانے کپڑے خرید لاتی اور یہاں غریب گھروں میں بیچ آتی۔ مگر پرانے کپڑوں میں آج تک اسے کبھی ڈاکیے کی وردی بھولے سے بھی نہ مل پائی۔ ہاں کچھ سال پہلے پرانے کپڑوں میں اسے ایک بوسیدہ سے رنگ کا کوٹ ضرور مل گیا تھا۔ یہ کوٹ کسی ایسے شخص کا رہا ہوگا جسے موٹاپے کی بیماری ہو۔ جاڑوں میں کبھی وہ اسے پہنتا تو اس کا سارا جسم اس میں چھپ جاتا۔ وہ اس کوٹ میں بھس بھرا ہوا آدمی نظر آتا اور جس طرح بھس بھرے شیر کی بے چارگی صاف اس کے منھ سے عیاں ہوتی ہے، بالکل اسی طرح اس کا چوہے جیسا سر مضحکہ خیز انداز میں بے چارہ ہو جاتا۔
اور لوگ۔۔۔۔۔۔وہ بہروپیے تو کیا، دراصل ڈاکیے سے ہی اکتا گئے تھے اور خود ڈاکیہ بھی اپنے وجود کی توقیر برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کی زندگی سے نکل کر حاشیے پر آگیا تھا۔ وہ بس اب سمن، قانونی نوٹس، شئیر مارکیٹ کے بانڈ، ٹیلی فون کے بل، منی آرڈر اور کچھ میگزین وغیرہ ہی اِدھر سے اُدھر ڈھونڈتا نظر آتا تھا۔ بمشکل ہی کسی کے پاس کوئی خط ہوتا تھا۔ لوگوں نے خط لکھنا ہی چھوڑدیے تھے۔ دنیا کی ہڈیاں سُکڑ گئی تھیں۔ وہ بونی ہوگئی تھی جس پر کروڑوں کی تعداد میں انسان اس طرح چمٹے ہوئے تھے جیسے مٹھائی پر چیونٹیاں اور مکھیاں۔ بس ایک بالشت بھر کی دوری رہ گئی تھی جس میں دنیا کو سر سے لے کے پاؤں تک چھوا جا سکتا تھا۔ لوگوں کو صرف خبروں کی ضرورت تھی، کسی پیغام یا ہدایت کی نہیں۔ خبریں پلیگ کے زہریلے جراثیم کی طرح تھیں۔ وہ دنیا پر برس رہی تھی۔ لوگ خبروں کے اس لیے خواہاں تھے کہ وہ اپنی موت میں دوسروں کی شمولیت بھی چاہتے تھے۔ وہ وبا میں مرنا پسند کرنے والے لوگ تھے اور یقیناًانفرادی موت سے اجتماعی موت کی طرف بھاگنا قدرے عافیت کی بات تھی۔
ویسے تو ڈاکیہ ہمیشہ ہی انسانوں کے پیغامات، ان کے دکھ سکھ کو ایک دوسرے تک پہنچانے میں اپنی انفرادی شخصیت اور ساخت قربان کرتا آیا ہے۔ اس کی شکل سیال ہوکر بہتی ہے۔ تم اس کا اکثر نوٹس نہیں لیتے ، کیوں کہ وہ انسانوں کے شادی و مرگ کے کاغذوں کے حساب کتاب ڈھوتے رہنے میں تجریدی ہوجاتا ہے۔ ڈاکیے گلی میں گونجتی ہوئی وہ آوازیں ہیں جن کے ہم عادی ہوگئے یا آسمان پر آوارہ گردی کرتے ہوئے وہ بادل جن سے بھیانک بارش کا کوئی امکان نہ ہو اور اس لیے وہ اپنے حصے کا رعب اور وقار کھو چکے ہیں۔

اسے یاد ہے وہ بابو کے ساتھ شادی کی ایک تقریب میں گیا تھا۔ ایک شاندار سجی سجائی محفل جہاں بابو مٹی کے رنگ کی وردی پہنے خاموش کھڑے تھے۔ وہ سہما سہما ان کی انگلی تھامے تھے۔ محفل میں بابو کے ہاتھ پر صرف ایک نوٹ رکھ دیا گیا تھا۔ فضا میں چاروں طرف دیسی گھی کی کچوریوں کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ اس کا دل کچوری کھانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ مگر دعوت اور آؤ بھگت کے وہ دونوں باپ بیٹے حقدار نہ تھے۔ انھیں نظر انداز کردیا گیا۔ یہ کیسی عجیب بات تھی کہ جن مسرتوں اور تقریبوں کے پیغام اور بلاوے وہ ساری دنیا میں بانٹتے پھرتے تھے، انھیں میں شرکت کے لیے ان کے پاس نہ کوئی بلاوا تھا اور نہ ہی کوئی مقام۔

گلیوں گلیوں بھٹکتے، وہ اچانک شہر کے سب سے رونق افزا بازار والی سڑک پر آ نکلا۔سڑک کے دونوں طرف نیون بلب، اونچے کھمبوں میں سڑک کی طرف منھ کیے اپنی روشنی پھینک رہے تھے۔ سڑک اتنی روشن تھی کہ اس پر گری ہوئی باریک سے باریک سوئی بھی نظر آ سکتی تھی۔ دوکانوں کے ساتھ بورڈ رنگین بدلتی ہوئی روشنیوں میں جھلملا رہے تھے۔ کاروں، بسوں اور موٹر سائیکلوں کا جم غفیر تھا۔ اس بھیڑ میں فیشن ایبل، نیم عریاں گداز بدن والی پکی پکائی عمر کی عورتیں سب سے زیادہ نمایاں تھیں۔خوشبوؤں کے ریلے اڑ رہے تھے۔ فٹ پاتھ پر آئس کریم اور چاٹ کے ٹھیلوں کے برابر ایک غبار والا کھڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر سحر زدہ سا ہوگیا۔ اگرچہ وہ سینکڑوں بار ادھر سے گذرا تھا مگر آج اس سڑک کی رونق کچھ دوسری طرح کی تھی۔
ٹھیک اسی وقت ایک عجیب سے گھر گھراہٹ سنائی پڑی۔ جیسے سڑک پر کچھ گھسیٹا جا رہا ہو اور تب اس نے دیکھا۔
دور سڑک پر سامنے سے کوڑھیوں کی گاڑیاں قطار باندے چلی آ رہی تھیں۔ لکڑی کی گاڑیاں جن میں بال بیرنگ کے چھوٹے چھوٹے پہیے لگے تھے۔ ان گاڑیوں کی اونچائی سڑک سے بس اتنی ہی تھی جتنی ایک خاص نسل کے کتے کے پیٹ کی زمین سے ہوتی ہے۔ گاڑیاں مہیب اور کریہہ آوازوں کے ساتھ گھسٹتی ہوئی قریب آ گئیں۔ کوڑھی مرد اور عورت انھیں کھینچ رہے تھے۔

مگر اس دہشت ناک منظر سے الگ ایک اور منظر بھی تھا۔ یا شاید منظر نہیں بلکہ منظر کو کھرچتی ہوئی ایک لکیر۔ ایک خراش۔ کسی کسی گاڑی میں کوڑھیوں کے معصوم بچے بیٹھے تھے اور ان کے ہاتھوں میں گیس کے غبارے دبے ہوئے تھے۔ یقیناًکوڑھیوں نے بھی اپنے بچوں کے لیے رنگین غبارے خریدے تھے۔
بازار رواں دواں تھا۔ تمام افراد ان گاڑیوں سے بچ کر نکل رہے تھے۔ مگر کوڑھیوں کے بچوں کے ہاتھ میں تھمے اونچے اٹھتے ہوئے گیس کے وہ رنگین غبارے جیسے ساری دنیا کا مضحکہ اڑا رہے تھے، زندگی کا بھی اور اپنا بھی ۔
اس نے خود کو شدت سے اداس محسوس کیا۔ اس کے تھیلے میں ایسا کوئی کاغذ نہیں تھا جو وہ ان سڑتی گلتی انگلیوں میں تھما سکتا۔ زندگی میں پہلی بار اسے اپنے بہروپیے پن کی لا حاصلی کا احساس ہوا۔
گاڑیاں آہستہ آہستہ اپنی دہشت سڑک پر گراتی ہوئی اس کے پاس سے گذرگئیں۔ اور تب اس نے بے اختیار چیخ کر کہا۔
’’میں وہ رقعہ جلد ہی لے کر آؤں گا جس میں تمھارے جسم کی کھال کو کندن کی طرح دمکنے کی خبر دی جائے گی۔ تمھاری ٹیرھی اور ناپاک انگلیاں سیدھی اور پاک ہو جائیں گی۔ چہروں پر ستواں ناک جگمگائے گی۔ بس اپنے بچوں کے ہاتھوں میں غبارے تھمائے رکھنا۔ یہ غبارے اونچے اڑتے اڑتے ایک دن آسمان تک پہنچیں گے اور خدا کو تمھاری داستان سنائیں گے۔۔۔‘‘
مگر اس نے محسوس کیا کہ اس کے منھ سے جو الفاظ باہر آ رہے ہیں، ان پر لگاتار اس کے حلق کے بڑھے ہوئے غدود کا دباؤ پڑ رہا ہے۔ اس لیے اس کی آواز محض ایک بھیانک خراٹے سے مشابہ ہے۔ اسی لیے اپنی اپنی گاڑیاں گھسیٹتے ہوئے کوڑھیوں نے اسے نہیں سنا۔ یا اگر سنا بھی ہوگا تو اس آواز کو بھی اپنی گاڑی کے پہیوں سے نکلنے والی کریہہ آواز ہی سمجھا ہوگا۔
اسے لگا جیسے اسے تیز بخار چڑھ رہا ہو۔
دور چمکتی ہوئی روشنی میں کوڑھیوں کی گاڑیوں کے بدنصیب سائے بے ہنگم انداز میں سڑک پر پڑتے نظر آئے۔ پھر وہیں کہیں دب کر رہ گئے۔

اس رات جب وہ سویا تو خراٹوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ دوسرے کمرے میں لیٹی ہوئی بیوی کو وہاں تک آتی رہی اور وہ وہاں بھی چین کی نیند نہ سو سکی۔ اس بار خراٹوں کے ساتھ ان کی ہمزاد کھانسی بھی تھی۔ بار بار گلے میں پھندا سی لگاتی ہوئی کھانسی۔ شاید اس کے حلق کے غدود بڑھ کر سُوج گئے تھے، کیوں کہ رات بھر اسے بخار بھی رہا۔ گرمی اور حبس اپنی انتہا تک پہنچ گئے تھے۔ پوری رات جی کو متلا کر رکھ دینے والی گرمی کے منحوس سائے میں ہی گذر گئی۔

صبح جب وہ دیر سے اٹھا تو بیوی نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح چپ رہا۔ وہ جانتا تھا کہ ماتھے پر ہاتھ رکھنے کے پیچھے کوئی ہمدردی نہ تھی۔

’’تمہارا ماتھا جل رہا ہے۔ اور گھومو ایسی قیامت کی گرمی میں۔‘‘
’’تم نے مجھے اٹھایا نہیں۔ دن چڑھ آیا۔‘‘ اس نے اپنی گھرگھراتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’مجھے کیا پڑی تھی کہ اٹھاتی۔ کیا اپنی کمائی لاکر مجھے دیتے ہو؟ ویسے بھی رات اتنے خراٹے لیے ہیں اور اتنا کھانسے ہو کہ جینا دو بھر کردیا۔‘‘ بیوی کا لہجہ بدل گیا۔
وہ خاموشی سے اٹھا ۔ اس نے اپنے کاغذوں کے تھیلے کو فرش پر پلٹ دیا اور ایک سے ایک الم غلم شے کو اٹھا کر اس طرح قرینے سے لگانے لگا جیسے کسی دفتر کا بابو فائلیں لگاتا ہے۔ بیوی نے اس کی طرف نفرت سے گھورا ، پھر تیز تیز چلتی ہوئی دوسرے کمرے میں گھس گئی جہاں اسے پرانے کپڑے سلیقے سے لگا کر گھڑی میں باندھنا تھے۔
اور تب اس کی نظر تھیلے سے نکلی اخبار کے کا غذ کی بنائی ہوئی ایک تھیلی پر پڑی۔ وہ چونک پڑا۔ اس پر ایک بچی کی تصویر تھی۔ آٹھ نو سال کی بچی۔ گٹھنوں تک فراک پہنے بچی کا چہرہ بے حد اداس تھا۔ بڑی بڑی معصوم آنکھوں میں شاید آنسوؤں کی نمی تھی۔ بال بکھر کر اس کے ماتھے پر آ رہے تھے۔ تصویر کے نیچے ایک عبارت تھی۔
سات سال کی بچی اپنی چٹھی کی تلاش میں ایک سال سے شہر کے ہر ڈاک گھر میں چکر لگاتی گھوم رہی ہے۔ ’’روشنی‘‘ نام کی یہ بچی ستیہ پرکاش سنگھ کی اکلوتی بیٹی ہے۔ ستیہ پرکاش نے سال بھر پہلے سینٹرل جیل عزت نگر میں خود کشی کر لی تھی۔ اس پر اپنی بیوی کے قتل کا الزام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ستیہ پرکاش نے یہ چٹھی اپنی خودکشی سے پہلے جیل کے کسی کارکن کے ذریعے اپنی بچی کے نام پوسٹ کروائی تھی۔ جیل کے کارکن کا بیان ہے کہ وہ چٹھی روشنی کی سال گرہ کا کارڈ تھی۔ مگر سال گرہ کی مبارکباد محکمۂ ڈاک کی گھٹیا اور غیر ذمے دارانہ کار کردگی کی وجہ سے ایک برس بیت جانے پر بھی روشنی کو نہ مل سکی۔ محکمۂ ڈاک کا بیان ہے کہ شاید وہ چٹھی ’ڈیڈ لیٹر‘ بن گئی ہے اور اسے آسانی سے اب تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اُدھر روشنی ماں باپ کے نہ رہنے اور چٹھی کے کھو جانے کے غم میں تقریباً پاگل ہوچکی ہے۔ وہ نہ کچھ کھاتی ہے، نہ پیتی ہے۔ بس صبح سے لے کے شام تک چھوٹے بڑے ہر طرح کے ڈاک گھروں کے سامنے کھڑی رہتی ہے۔ نائب وزیر برائے امور خزانہ نے بچی کی پرورش اور تعلیم کے لیے اپنے فنڈ میں سے ایک بڑی رقم دینے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ معصوم روشنی کو باپ کی طرف سے اپنی سال گرہ کی مبارک باد مل پائے گی یا نہیں؟‘‘

وہ بری طرح بے چین ہوگیا۔ اس کے جسم کا سارا بخار اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں اتر آیا۔ اور اس کا چوہے جیسا سر آہستہ آہستہ دائیں بائیں ہلنے لگا۔ وہ تیزی سے فرش پر سے اٹھ گیا۔ سامنے سادہ ورقوں والی وہ کاپی رکھی تھی جس میں اس کی بیوی پرانے کپڑوں کے خرید و فروخت کا حساب لکھواتی تھی۔ اس نے کاپی میں سے ایک سادہ ورق پھاڑا۔ کچھ لکھنے کے لیے اس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں ۔ کوئی قلم، پنسل، افسوس کہ کوئلے کا ٹکڑاتک نہ تھا۔ وہ گھبرانے لگا۔اب اور زیادہ وقت برباد نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس نے سوچا۔

اچانک اس نے دیکھا کہ سامنے پلنگ پر تکیے کے اوپر بیوی کا ہئیرپن پڑا ہوا ہے جس میں بیوی کے دو تین کھچڑی بال پھنسے ہوئے تھے۔ اس نے جھپٹ کر ہئیر پن اٹھایا اور پوری طاقت کے ساتھ اپنی بائیں ہتھیلی میں بھونک دیا۔ لال لال خون آہستگی کے ساتھ رسنے لگا۔ تب اس نے دوسرے ہاتھ ہاتھ کی کلمے کی انگلی کے پور کو اس خون سے تر کیا اور سادہ ورق پر لکھا۔

پیاری بیٹی روشنی کو جان نچھاور کرنے والے باپ کی طرف سے جنم دن بہت بہت مبارک ہو۔

۔ ستیہ پرکاش
پھر اس نے عبارت کے نیچے خون سے گلاب کا ایک پھول بھی بنا دیا۔ ورق کو پھونک مار کر سکھانے کے بعد اسے احتیاط کے ساتھ کھونٹی میں ٹنگی وردی کی اندرونی جیب میں رکھ دیا۔ اس کے بعد دو اخباری کاغذ کی اس تھیلی کو ہاتھ میں تھامے تھامے دروازے کی طرف دوڑا مگر اسے خیال آیا کہ اس نے وردی تو پہنی ہی نہیں ہے۔ تب بہروپیے نے ڈاکیے کی وردی پہنی ، سر پر ٹوپی لگائی اور بھوکا پیاسا ہی نکل کھڑا ہوا۔

دوپہر ہو چکی تھی۔ موسم دم گھونٹ دینے کی حد تک حبس زدہ تھا۔ ماحول اور فضا میں بے حد دھول اور دھند تھی۔ ایسا گمان ہوتا تھا جیسے ساری دنیا جس مٹی سے بنی تھی ، وہ آہستہ آہستہ کھرچی جا رہی تھی۔توڑی جا رہی تھی۔ بالکل اسی طرح جیسے مٹی کی کسی عظیم الشان مورت کے توڑنے پر دھول کا ایک غبار اٹھتا ہے۔ ہوا کا تو نام بھی نہ تھا۔ جو بھی ہوا تھی وہ اس کی اپنی تھی اور اس کے دوڑنے سے پیدا ہوتی تھی۔

اور وہ دوڑ رہا تھا۔ ریل سے کٹے ہوئے ایک بدبخت ڈبے کی طرح جو ویران راتوں میں ریل کی پٹریوں پر اکیلا ہی دوڑتا تھا، بغیر انجن کے۔
آج اس کے ساتھ بچوں کی بھیڑ نہ تھی۔ سڑکیں، گلیاں ویران پڑی تھیں۔ بار بار وہ اخبار میں چھپی اس بچی کی تصویر دیکھتا۔ اسے ذہن نشین کرنے کی کوشش کرتا پھر اِدھر سے اُدھر نکل جاتا۔ وہ دھند کے ایک بگولے کی طرح چکرارہا تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ اپنا وقت برباد کررہا ہے۔ بچی کسی ڈاک خانے پر ہی ملے گی۔ یہ خیال آتے ہی وہ کالی ندی کے پُل پر بے تحاشا بھاگنے لگا۔ پُل سے ایک ڈیڑھ میل کی دوری پر ہی وہ چھوٹا سا گول ڈاک خانہ تھا جہاں اس کا بھائی لیہی اور گوند بنانے کا کام کرتا تھا۔ اور اسے معلوم تھا کہ اس چھوٹے سے ڈاک خانے کے اندر کہیں سرنگیں تھیں جو کہ زمین کے اندر ہی اندر کائنات کے سارے ڈاک خانے سے جا ملتی تھیں۔

اتنا تیز تیز دوڑنے پر بھی آج ڈاک گھر آتا نظر نہیں آتا۔ کدھر گیا؟ اس نے فکر مند ہو کر سوچا۔ اب اسے احساس ہوا کہ پُل پار کرنے کے بعد وہ غلط سمت کو نکل آیا تھا۔

وہ حواس باختہ ہو کر واپس مڑا اور مخالف سمت میں دوڑنے لگا۔ دھند اور مٹی کا غبار اور دبیز ہوتا جارہا تھا۔ اس کی سانس بری طرح پھولنے لگی۔ اس کی ناک اور آنکھوں میں دھول بھر گئی تھی۔ اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ وہ ایک لمحے کو رکا اور سینے میں نہ سماتی ہوئی سانسوں کو درست کرنے لگا۔ اس کے منھ اور ناک سے مٹی کی بو آتی تھی۔

وہ پھر دوڑنے لگا اور تب دور وہ نظر آیا۔ وہ پرانا چھوٹا سا گول ڈاک خانہ۔ وہ امید سے بھر گیا۔ جلدی جلدی بھاگتے ہوئے وہ اس تک پہنچ گیا۔
گول ڈاک خانہ دھند اور دھول کے پہلے غبار میں لپٹا خاموش کھڑا تھا۔ اس کے صدر دروازے پر ایک موٹا سا زنگ آلود تالا جھول رہا تھا۔

اُف! آج اتوار تھا۔ اس نے افسوس اور صدمے کے ساتھ سانس بھری اور ڈاک خانے کی زرد دیوار سے پیٹھ ٹیک کر بیٹھ گیا۔ اب روشنی کو وہ کہاں تلاش کرے؟ روشنی کہاں ہوگی؟ اس بے رحم اور بے حس دنیا میں وہ اپنے باپ کی چٹھی کا انتظار کررہی ہے مگر کہاں؟ کدھر؟

اس کے جی میں آیا کہ وہ گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے مگر وہ جانتا تھا کہ وہ سب اس وقت بھی نیند میں ڈوبے ہوں گے۔ یہ شہر تو مرگی کے ایک مریض کی طرح تھا جہاں ہر شخص بے ہوش تھا یا ایک پاگل نیند کا عادی ۔ افسوس کہ ایسے شہر میں کوئی خط ، کوئی پیغام یا کوئی تہنیت نامہ کس طرح دیا جاسکتا تھا۔

بہرحال، وہ پھر اٹھا۔ اسے اپنا فریضہ اداکرنا تھا۔ اس بار تیز تیز چلتے ہوئے اسے غیر معمولی تھکن کا احساس ہوا۔ سامنے دور تک سنسان سڑک پھیلی ہوئی تھی۔ کاش کے وہ اڑ سکتا۔ مگر بعد میں اس نے یہ بھی سوچا کہ اسے اپنے جسم پر بال و پر نہ ہونے کا افسوس نہ کرنا چاہیے۔ پرندے ارتقا کے سفر میں انسان سے اس طرح پیچھے رہ گئے تھے جس طرح فرشتے۔

اسے یاد آنے لگا کہ کسی دن کوئی کہہ رہا تھا کہ ڈاکیے کی وردی اب بجائے خاکی کے نیلی ہوا کرے گی۔ مگر اسے یہ منظور نہیں، کیوں کہ ڈاکیہ نیلے آسمان سے پَر لگائے زمین پر اترتا ہوا کوئی پیغام رساں نہ تھا۔ وہ خلا سے نہیں آ رہا تھا۔ ڈاکیہ تو زمین کا بیٹا تھا۔ وہ زمین سے زمین پر ہی چلتا تھا۔ اس لیے اس کو تو مٹی اوڑھے ہوئے ہی گھومتے رہنا چاہیے جو کہ زمین کا رنگ ہے۔

اچانک وہ پھر تیز تیز دوڑنے لگا۔ دوپہر کیا، سہ پہر گذر چکی تھی۔ اور اب تو شام قریب تھی ۔ اگرچہ دھند کی اس چادر کے نیچے وقت اپنے خد وخال مسخ کرچکا تھا۔

اس کا سارا دن اسی طرح بھٹکتے بھٹکتے ختم ہوگیا۔ شہر پر مٹی برس رہی تھی جس میں وہ خود بھی خاک، دھول اور مٹی کا ایک چلتا پھرتا پتلا ہی نظر آ رہا تھا۔

اچانک سامنے اسے کالی ندی بل کھاتی ہوئی نظر آئی۔ وہ بھٹکتے بھٹکتے ندی کے کنارے آ نکلا۔ کنارے ویران پڑے تھے۔ وہ رک گیا۔ اب بارش ہونا چاہیے۔ اس نے خواہش کی۔ صرف بارش ہی زمین سے آسمان تک تنے ہوئے مٹی کے اس مہیب پردے کو دھو کر مٹا سکتی ہے۔

اور یقیناًوہ آ رہی تھی۔ اسے بارش کی آہٹ سنائی دی۔ وہ کہیں دور ہو رہی ہوگی مگر اس کے آگے آگے چلنے والی ہواؤں کا ایک اداس، ٹھنڈا جھونکا ادھر کو آ نکلا۔

اس نے آسمان کی طرف منھ اٹھایا۔ ایک بوند اس کے ماتھے پر گری اور پھر کوندے، گرج چمک اور تیز ہواؤں کے ساتھ وہ خاک اور دھول کے اس خواب غفلت میں مبتلا شہر پر برسنے لگی۔ بارش نے پانی سے بنے اپنے لمبے لمبے ہاتھوں سے دھند کو مسل کر رکھ دیا۔ کالی ندی کے کنارے اندھیرے ہونے لگے۔ بارش بہت تیز تھی۔ آہستہ آہستہ ندی کے کنارے کی زمین دلدل بنتی جارہی تھی۔ پانی کے زور سے ندی میں جیسے سیلاب آ گیا تھا۔ اس سیلاب کا پانی اسی طرح زمین پر پھیل رہا تھا جیسے گھاس کو چرتا ہوا جانور۔

تیز ہوا میں اس کی وردی اڑی جارہی تھی۔ اس نے تصویر والا اخبار سنبھال کر وردی کی جیب میں رکھ لیا۔ مگر اب واپس جانا ناممکن تھا۔ واپس جانے کے لیے گھونگے کی مانند رینگنا ضروری تھا۔ ارتقا کے ٹوٹے ہوئے پیر صرف آگے کی طرف گھسٹ سکتے تھے۔ گوشت کے لوتھڑوں کی طرح لڑھکتے ہوئے ہی سہی، مگر آگے کی طرف۔

اسے اب اپنی بائیں ہتھیلی میں سخت درد محسوس ہوا۔ ہتھیلی پھول کر کپا ہوگئی تھی۔ وہ بارش میں بھیگ رہا تھا۔ اس کے پھیپھڑے بارش اور ہوا کے سخت دباؤ سے گویا پھٹنے لگے۔ اس کا بخار اس کے جسم پر گرتی ہولناک بارش کے نیچے دبا کچلا پڑا تھا۔

اب اسے ایک بھیانک نیند آتی محسوس ہوئی مگر نیند کا یہ غلبہ شاید صرف اس کے جسم پر تھا۔ اس کی روح کو تو اس نیند کے خلاف چلتے ہی جانا تھا۔ اس لیے اس کی آنکھیں بار بار نیند سے چپک چپک کر چھوٹ جاتی تھیں۔

(۵)
دلدل میں چاقو

رات تقریباً آدھی بیت گئی تھی جب کچھ آدمی اسے اس حالت میں گھر لے کر آئے کہ اس کے منھ سے خراٹے جاری تھے۔ بارش نے رکنے کا نام نہیں لیا تھا۔ اس کی وردی کیچڑ اور پانی میں سنی ہوئی تھی۔ بیوی نے ہراساں ہو کر جب اس کی وردی اتار کر کھونٹی میں ٹانگی تو پانی میں بھیگ جانے کے سبب اس میں سے ایسی بدبو آ رہی تھی جیسی اصطبل سے آتی ہے۔

وہ سیدھا سیدھا پلنگ پر پڑا ہوا تھا۔ بائیں ہتھیلی پر ایک چھوٹا سا زخم تھا مگر ہتھیلی اتنی سُوج گئی تھی کہ وہ کسی انسان کی نہ ہوکر کسی عفریت کی ہتھیلی معلوم ہوتی تھی۔

کچھ لوگوں نے مل کر اس کے بھیگے ہوئے کپڑے اتار کر سوکھے کپڑے پہنادیے اور ایک چادر سے اس کے جسم کو ڈھک دیا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور منھ آدھا کھلا ہوا تھا جس سے وہ بلند آواز میں وحشت ناک خراٹے لگاتار آئے چلے جا رہے تھے۔

’’ذرا بارش کم ہو تو ڈاکٹر کو لے کر آتے ہیں۔‘‘ کوئی بولا۔

کھونٹی کے نیچے جہاں اس کی وردی سے ٹپکتا ہوا پانی فرش کو گیلا کر رہا تھا، اس کی بیوی اس جگہ کو ایک کپڑے سے پونچھنے لگی۔ اسی وقت اس نے اخباری کاغذ کی ایک بڑی سی تھیلی کو دیکھا جو پانی میں بھیگ کر گل چکی تھی۔ اس کے دل میں نہ جانے کیا آیا کہ وہ احتیاط کے ساتھ تھیلی اٹھا کر اسے غور سے دیکھنے لگی۔

کوئی تصویر تھی جس کے نقش و نگار بارش کے پانی نے اپنے اندر جذبے کر لیے تھے۔ تصویر کے اوپر اخبار کی تاریخ قدرے مٹ جانے کے باوجود پڑھی جا سکتی تھی۔

وہ آج سے ٹھیک چودہ سال پرانا اخبار تھا۔
بیوی نے تھیلی اٹھائی اور کمرے سے باہر آنگن کی موری میں پھینک دی۔

’’اسے جھنجھوڑ کر ہوش میں لائیں؟‘‘ کسی نے آہستہ سے کہا تھا۔
’’نہیں۔ ڈاکٹر کو آنے دو۔‘‘
مگر کیا وہ واقعی بے ہوش تھا؟

اگر یہ ممکن تھا کہ کسی کا عکس آئینے میں نظر نہ آئے اور آئینے سے کہیں بہت دور جا کر بھٹکے تو شاید اس کا عکس بھی کہیں اور….بھٹک رہا تھا۔ وہ دلدل پر بنے ایک چھوٹے سے ڈاک بنگلے کے سامنے ہاتھ میں ایک خط لیے کھڑا تھا۔ یہ ڈاک بنگلہ جس کی بناوٹ گرجا گھروں کی سی تھی۔ ڈاک بنگلے کے اندر ایک کمرے میں ایک لڑکی کمپیوٹر پر بیٹھی تھی ور اس کے کان سے ایک سیل فون لگا ہوا تھا۔

لڑکی کا چہرہ بے حد گول اور سفید تھا۔ اتنا سفید کہ جیسے قلت خون کا مارا ہوا ہو۔ وہ کمرے سے باہر آئی۔ دروازے پر سرجھکائے وہ خاموش کھڑا تھا۔
’’آپ کے شوہر نے آپ کو یہ محبت نامہ بھیجا ہے۔‘‘ اس نے لڑکی کی طرف ایک کاغذ بڑھایا جس پر ’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘ لکھا ہوا تھا اور نیچے بچکانہ انداز میں ایک پھول بھی بنا تھا۔

لڑکی مسکرائی اور شرماتے ہوئے اس کے ہاتھ سے خط لے لیا۔

اس نے بہت ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے تھے مگر اس کے پیٹ کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے آج اس میں آنتیں واپس آ گئی ہوں۔

پھر لڑکی نے اسے لگاوٹ کے ساتھ گھورا۔ ان آنکھوں میں پیار کرنے کی جنگلی سی خوشبو اتر آئی۔ لڑکی نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے تپتے ہوئے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اس کی خاکی وردی جنگلی پھولوں کی خوشبوؤں سے بھر گئی۔

وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے کی بانہوں میں سمائے ہوئے دلدل میں دھنسنے لگے۔ دلدل کے نیچے پانی میں دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ جس طرح کسی مکان کی کھلی بنیادوں میں دھوپ چمکتی ہے۔

دلدل کے نیچے موجود پانی میں ۔۔۔۔۔۔۔گہرے پانی میں انھوں نے ایک دوسرے سے جی بھر کر پیار کیا۔ لڑکی کے بدن پر بہت کپڑے تھے مگر اس کے بڑے بڑے پستان کپڑوں سے باہر لٹک رہے تھے۔ پستانوں سے دودھ کی ایک سفید نہر دلدل پر بہتی جاتی تھی۔

پھر وہ آہستہ آہستہ پانی سے اوپر آنے لگے۔ ساری کائنات ہی جیسے پانی سے ابھر رہی تھی۔ زندگی آ رہی تھی۔ پانی سے نکل کر زمین کی طرف۔ کائی سے لتھڑ کر دونوں کے جسم ہرے ہوگئے تھے۔

’’تم مجھ سے پیار کرتی تھیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مانجھے سے میرا گلا کٹ گیا تھا۔‘‘
’’ہاں ہاں۔‘‘
’’تمھیں دادو کا کنواں یاد ہے اور وہ بند گلی؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’میرے بابو کو وہیں تو مار ڈالا تھا۔ اتنا بڑا خون کا دھبہ۔‘‘

اچانک سفید ، خون سے خالی گول چہرہ اس کے منھ پر ایک غبارے کی طرح پھٹ گیا۔ غبارہ جس میں گندہ، رقیق بدبو دار سفید پانی بھی تھا۔ ایسا پانی جس کی جگہ کوئی چہرہ نہ ہو سکتا تھا۔ پھر وہ سفید پانی ایک نفرت آمیز بے رحم چاقو میں بدل گیا۔ بہت تیز ہوا چلی جھاڑیاں دلدل کے چاروں طرف اس بے ترتیبی سے پھیل گئیں جیسے وہ پاگل ہو گئی ہوں۔

چاقو ایک فحش چمک کے ساتھ اس کے چہرے کی طرف بڑھتا ہے۔ پھر خاص اس کے نرخرے کی طرف۔
اسے گلا کٹنے میں کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ وہ تو صرف کالی ندی کے بارش سے بھیگے ہوئے پُل کو دیکھے جارہا ہے جہاں آج نہ جانے کہاں سے اتنے بہت سے کوے آکر بیٹھ گئے ہیں۔

(۶)
نیند کے خلاف

’’یہ کس قسم کے خراٹے ہیں؟‘‘ اچانک بیوی نے سراسیمہ ہو کر کہا۔
’’اسے تو یہ خراٹے آتے ہی ہیں۔‘‘ بڑا بھائی آہستہ سے بولا جو ابھی ابھی بارش میں بھیگتا ہوا آیا تھا۔
’’نہیں ۔ یہ ویسے نہیں ہیں۔ یہ تو کچھ اس طرح کی آوازیں ہیں جیسے کسی کا نرخرہ کاٹا جاتا ہو۔‘‘ بیوی چلائی۔

اور یہ درست تھاکہ اب اس کے منھ سے باہر آنے والے خراٹے دوسری ہی طرح کے تھے۔ یہ کسی شے کے خلاف احتجاج کرتی ہوئی بے زبانی تھی۔ اس کی آنکھیں بند ہونے کے ساتھ ساتھ اب منھ بھی پورا بند تھا۔ ہونٹ آپس میں بھنچ گئے تھے۔

پھر یہ خراٹے کہاں سے نکل رہے تھے؟ شاید اس کے پورے جسم سے، جسم کے تمام مساموں سے؟ ہر بار کے خراٹے میں اس کی سانس اٹک جاتی۔ سینہ اور پیٹ اوپر کو اٹھ جاتے جیسے دم نکل رہا ہو مگر چند ہی ثانیے بعد اکھڑتی اور اٹکتی سانس پھر اپنی جگہ واپس آ جاتی۔ اس کا سُوجا ہوا زخمی ہاتھ متواتر اس انداز میں آگے کو پھیلا ہوا تھا جیسے وہ کسی کو کوئی شے سونپ رہا ہو۔ مگر حیران کن امر یہ تھا کہ اس کا چہرہ اپنے تمام عضلات سمیت بالکل پر سکون تھا۔ بھائی نے اس کا ماتھا چھوا اور جلدی سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ ماتھا انگارے کی طرح جل رہا تھا۔ آنگن میں بارش کا پانی بھرتے بھرتے گھٹنوں تک آگیا۔

مگر وہ ۔۔۔۔وہ تو دراصل گانا گا رہا تھا۔ اس کا جسم بے حد فعال ہو گیا تھا ۔ اتنا فعال اور سبک رفتار کہ بستر پر لیٹے لیٹے ہی وہ سب سے دور کہیں گاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ کوئی گیت تھا جو لوگوں کو خراٹوں کی صورت سنائی دیتا تھا۔ وہ اپنی ہی ہوا میں جھومتا ہوا دلدل پر چلا جارہا تھا جہاں کمل کے پھول اور جڑیں بکھری ہوئی تھیں۔

خدا کے پیغام آ رہے ہیں، جا رہے ہیں۔ لکھا گیا لفظ ہی سب کچھ تھا چاہے وہ قلب پر ہی کیوں نہ لکھا جائے یا انسانوں کے حلق، تالو اور غدود کے درمیان۔ وہ بھی لکھے ہوئے لفظ کو اپنے قلب، حلق اور تالو میں ثبت کررہا ہے ۔ اس کے سر کے اوپر کبوتر، بادل اور ہوائیں ہیں ۔ کبوتر کے پنجے میں لفظ بندھا ہے۔ پانی پانی بادل میں لفظ کا عکس تھا اور ہواؤں میں لفظ کی خوشبو۔ یہ سب بھی اسی جانب جا رہے ہیں جہاں وہ دلدل میں جھومتا گاتا چلا جا رہا ہے۔ دلدل پر اس کے پیروں کے نشان بنتے جاتے تھے۔ یہ ایک چٹھی رساں کے اکیلے قدم تھے۔

اسی طرح گیت گاتے گاتے اس نے دیکھا کہ وہ ندی جو امربیل کی طرح اس کے جسم سے لپٹی ہوئی تھی، وہ قطرہ قطرہ ہو کر اس سے الگ ہورہی ہے۔ وہ اب نیچے ایک گہری گھاٹی میں بہہ رہی تھی۔ ایک کالی ندی بن کر، پتلی سی، رینگتے ہوئے سانپ کی مانند۔ وہ خوشی خوشی، نشے میں جھومتے ہوئے اس گہری گھاٹی کی طرف جانے والی ڈھلان کی جانب چلا۔ اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا، کیوں کہ وہاں ڈھلان پر، دلدل میں وہ چھوٹی سی سات سال کی بچی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ بچی کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ بال بکھر کر ماتھے پر آگئے تھے۔ گھٹنوں سے اونچی فراک کیچڑ سے سنی ہوئی تھی۔

’’روشنی۔ روشنی! میں آگیا۔ تمھارے پاپا کی چٹھی لے کر۔ سال گرہ مبارک ہو۔‘‘
وہ اس کے پیروں سے لپٹ گئی۔ وہ خوشی سے رو رہی تھی۔
اس نے بچی کے روکھے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ پھر اپنی وردی کی اندرونی جیب سے وہ کاغذ نکال کر اس کی معصوم مٹھی میں تھما دیا۔
’’میں نے تمھارے گانے کی آواز دور سے سن لی تھی۔‘‘
’’ میں تمھارے لیے ہی تو گا رہا تھا۔‘‘
’’سچ؟‘‘
’’ہاں۔آؤ اس دلدل پر گلاب اُگائیں۔‘‘
اس نے بچی کے ہاتھ میں گلاب کا ایک پھول دیا۔ پھر دونوں نے مل کر گھٹنوں کے بل جھکتے ہوئے دلدل میں گلاب بویا۔
’’وہاں روشنی ہو گئی۔‘‘
’’اچھا روشنی۔ میں چلتا ہوں۔‘‘
’’فرشتے! تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’مجھے ابھی اپنا گیت مکمل کرنا ہے۔‘‘

ڈھلان پر وہ آگے چلنے لگا۔ اس کے پیر یہاں دھنس رہے تھے مگر اسے محسوس ہوا جیسے وہ اُڑ رہا تھا۔ زوال کا راستہ ہی روح کی اُڑان تھا۔ جب وہ وردی میں نیچے بہنے والی کالی ندی میں گر رہا تھا تو ندی سے ایک بھیانک بارش کی طرح نظر آئی جو گھاٹی سے آسمان کی طرف بہہ رہی تھی۔ ندی ایک سرکش گھوڑی کی طرح کسی طور قابو میں ہی نہ آتی تھی مگر اب وہ قطعاً نہیں گھبرایا۔ پیچھے روشنی کھڑی تھی۔ اس نے اپنے وجود کو ایک عظیم الشان چھتری کی مانند کھلتا اور پھیلتا پایا جس کے اوپر سے ندی کی شور مچاتی بھیانک موجیں گذر رہی تھیں۔ اسے اپنے تمام خط، تمام محبت نامے اور پیغام بھیگنے سے بچانے تھے اور وہ کامیاب ہوگیا۔ طوفانی ہوائیں اور خوفناک بارش اس کے چھتری جیسے وجود کو صرف پھڑ پھڑانے پر مجبور کرسکی تھیں۔ بس!

اس نے اپنا گیت پھر شروع کیا۔
یہ گیت اس ردعمل کا نام تھا جو وہ دنیا اور فطرت کی خوب صورتی کو بھینٹ کر رہا تھا۔ اگرچہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ خوب صورتی کی طرف جانے والے راستے خوب صورتی کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ یہ وہ گیت تھا جو سناٹے کی طرف نہیں جا رہا تھا بلکہ سناٹے کے خلاف لڑ رہا تھا۔
وہ اب بھی دلدل پر چل رہا تھا مگر اس کے پیروں کے نشان اب دلدل سے باہر بن رہے تھے۔

تو کتنا طویل، دکھ بھرا راستہ اس نے کاٹا تھا۔ ہوا کے اندر ہوا، بارش کے اندر بارش، لاش کے اندر لاش اور خواب کے اندر خواب کو پار کرتے ، گذرتے رہنا ہی اس کا عظیم مقدر تھا۔

یہ ایک اکیلے، اداس بہروپیے کے سونے اور بوجھل پاؤں کے نشان تھے جو غفلت اور نیند کے خلاف ایک نیا بیانیہ گڑھ رہے تھے۔
کیا انسانیت ان نشانوں کے پیچھے چلنے کو تیار تھی؟
مگر اب اسے اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ اس کے عقب میں دلدل پر گلزار سج رہے تھے۔ ساری سرنگوں کے دہانے روشن ہو گئے تھے….
دنیا میں پھول ہی پھول۔ روشنی ہی روشنی۔ گیت ہی گیت۔

صبح کے چار بج رہے تھے جب بارش رکی۔
ڈاکٹر آیا اور اس کا معائنہ کیا۔
’’بخار تو اب بہت کم ہے۔ کل سے اس علاقے میں پھر طاعون کی افواہ اڑ رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے اس کی بغلوں اور رانوں کو ٹٹولا۔
’’نہیں پلیگ تو نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’مگر بخار میں بھیگ جانے کے سبب سخت اور جان لیوا نمونیا ہوگیا ہے۔‘‘
’’اور ایک بات اور….‘‘ ڈاکٹر نے اس کی آنکھوں کی پتلیوں کو کھول کر دیکھتے ہوئے مایوسی سے کہا۔
’’یہ کوما میں چلے گئے ہیں۔ شاید ایک گھنٹہ پہلے انھیں ایک ہارٹ اٹیک بھی ہوچکا ہے۔‘‘
’’کوما؟‘‘ سب نے ڈاکٹر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’ہاں۔ ایک ایسی بے ہوشی یا نیند جس میں مر کر بھی آدمی نہیں مرتا۔ کبھی سال بھر کبھی دوسال اور کبھی کبھی تو بیس سال تک بھی یا اس سے بھی زیادہ۔ کوما میں گئے ہوئے انسان کے دماغ کے خلیے کچھ اس طرح کام کرتے ہیں کہ وہ خواب ہی دیکھتا رہتا ہے۔ اور خواب بھی زیادہ تر اچھے اور خوب صورت۔ مثلاً پھولوں کے، بچوں کے، وادیوں کے اور روشنی کے۔‘‘
اس کے بلند خراٹے اسی طرح جاری تھے۔
’’یہ کیا بات ہوئی ڈاکٹر؟ یہ تو کتے کی موت مرنا ہوا۔‘‘ اس کی بیوی نے نفرت اور شکایت بھرے انداز میں کہا۔
’’ہاں مگر کہا نہیں جا سکتا کہ یہ حالت کب تک رہے گی۔ انسان کبھی کبھی اس طرح بھی لڑتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’کس سے؟‘‘ بڑے بھائی نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں۔شاید موت سے، یا زندگی سے یا پھر کسی اور شے سے۔‘‘ ڈاکٹر نے چپکے سے کہا اور تیزی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گیا۔

Leave a Reply