ہوا، راکھ اور محبت

ہوا، سادھو کو ریزہ، ریزہ کر کے جگہ، جگہ بکھیرتی اور پھر اس شغل سے اکتا جاتی تو سادھو اپنے زروں کی ڈھیری سے خود کی پھر سے جوڑنے لگتا اور جب مکمل ہو جاتا تو ہوا اسے پھر سے بکھیر دیتی۔

خواہش کی گھنٹیاں

دریا کنارے کے درختوں نے یہ منظر انتہائی خوف کے عالم میں دیکھا۔ انہیں اب تک گھنٹیوں کی آواز سنائی نہ دی تھی۔ چھوٹا درخت اس سارے ہنگامے سے بےنیاز اپنی خواہش کی گھنٹیاں بجاتا رہا۔

تجربہ

سنہری دھوپ پرندے کے سفید پروں پر پڑتی اور وہ روپہلے ہو جاتے۔ پرندہ آج بہت خوش تھا۔

کھنڈر

اس کے پیچھے سناٹے سے گونجتا ہوا گھر تھا اور سامنے اندھیرے کے علاوہ پہاڑیوں کا سلسلہ۔

رقص بسمل

فنا اپنی خواہشوں سے عاجز اور طاقت سے اُکتائی ہوئی مرگ کے لازوال سنگھاسن پرسر نیہوڑائے بیٹھی تھی۔ عاجز

تاوان

وہ ایک گاوں تھا جس نے قصبہ کی شکل اختیار کر لی تھی یا قصبہ تھا جو گاوں جتنا مختصر رہ گیا تھا۔

آخری درخت

وہ جنگل کا سب سے پرانا، سب سے طاقتور اور آخری درخت تھا۔۔۔ ریت کے بڑھ آنے ، جنگل کے ختم ہونے، موسموں کی شدتوں اور پانی کے کم ہونے کے عذاب سے لڑتا آخری درخت۔

آخری سچ

رُکے ہوئےزمانوں کا ذکر ہے جب لوگ تجسس سے گریز کرتے تھے۔ آبادی سے دور جنگل کے خاتمے پر جوپہاڑ تھے ان میں سے کسی کی غار میں ایک گُرو اور اس کے فرمابردار شاگرد کا ٹھکانا تھا۔

ٹوٹی ہوئی عورت

مچھیرے نے جب تیسری بار جال دریا میں ڈالا تو مچھلیوں کے ساتھ ایک ٹوٹی ہوئی عورت بھی نکلی۔

جھیل

موت کے بے رحمانہ پروں سے آگ کے شعلے نکلے اور دیکھتے ہی دیکھتے بستی کو نگل گئے۔

چوتھا بعد

اُس رات خواب ہڑتال پر تھے اور نیند ان کی غیرموجودگی میں خود کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی نڈھال ہو چکی تھی ۔

باز گشت

ساتوں سُر آخری بار اکٹھے ہوئے، شور نے ان پر واضح کر دیا تھا کہ اب صرف اسی کو کہا، سنا اور گایا جائے گا،سو انھوں نے دنیا چھوڑ دینے کا فیصلہ کرلیا۔

شکستگی

بستی کے باہر ٹوٹے ہوئے خوابوں کا چلتا پھرتا بازار آکے رُکا تھا اور اور وہ اُسے دیکھنے کو بے حد بےتاب تھا۔ اُس کی عمر کے لڑکوں کے پاس پیسے اتنے نہیں ہوتے جن سے کسی بھی قسم کے خواب خریدے جا سکیں۔