ہوا، سادھو کو ریزہ، ریزہ کر کے جگہ، جگہ بکھیرتی اور پھر اس شغل سے اکتا جاتی تو سادھو اپنے زروں کی ڈھیری سے خود کی پھر سے جوڑنے لگتا اور جب مکمل ہو جاتا تو ہوا اسے پھر سے بکھیر دیتی۔
دریا کنارے کے درختوں نے یہ منظر انتہائی خوف کے عالم میں دیکھا۔ انہیں اب تک گھنٹیوں کی آواز سنائی نہ دی تھی۔ چھوٹا درخت اس سارے ہنگامے سے بےنیاز اپنی خواہش کی گھنٹیاں بجاتا رہا۔
وہ جنگل کا سب سے پرانا، سب سے طاقتور اور آخری درخت تھا۔۔۔ ریت کے بڑھ آنے ، جنگل کے ختم ہونے، موسموں کی شدتوں اور پانی کے کم ہونے کے عذاب سے لڑتا آخری درخت۔
رُکے ہوئےزمانوں کا ذکر ہے جب لوگ تجسس سے گریز کرتے تھے۔ آبادی سے دور جنگل کے خاتمے پر جوپہاڑ تھے ان میں سے کسی کی غار میں ایک گُرو اور اس کے فرمابردار شاگرد کا ٹھکانا تھا۔
بستی کے باہر ٹوٹے ہوئے خوابوں کا چلتا پھرتا بازار آکے رُکا تھا اور اور وہ اُسے دیکھنے کو بے حد بےتاب تھا۔ اُس کی عمر کے لڑکوں کے پاس پیسے اتنے نہیں ہوتے جن سے کسی بھی قسم کے خواب خریدے جا سکیں۔