ہم قیدی ہیں (صدیق شاہد)

ہم قیدی ہیں
اور ہمارے چاروں طرف دیواریں ہیں
دو نظمیں (عبدالودود دائم)

میں نے نظمیں کہیں
جن کی آنکھیں نہیں تھیں!
چائے کے لیے ایک نظم اور دیگر نظمیں (نسیم خان)

شاعر کی آنکھ کھلتی ہے
اور وہ خود کو زندہ پاکر خوشی سے پاگل ہونے لگتا ہے
میں تیرے قہقہے میں دھنسا جا رہا ہوں (رضی حیدر)

میں تیرے قہقہے میں دھنسا جا رہا ہوں یا تیری رندھی ہوئی ہچکی میں دونوں میں ایک طویل سکتہ تھا یہ کوئی دلدل ہے شاید یا کوئی شہرِ مدفون وقت کی سِلوں کی عبارتیں مٹ رہی ہیں خاموشی کی چھپکلی زبان سے اپنے ڈیلے صاف کرتی ہے (خدایا کیا دھنسنا ہمارا مقدر ہے اس ماتھے […]
لہروں پر جھومتا چاند! (ایچ-بی-بلوچ)

لہروں پر جھومتا چاند رات کے طول کا ایک دیدہ عکس ہے باقی نادیدہ سراپا پانی کی نظر ہو چکے ہیں گزرے لمحات کی قبر میں مدفون اے میری راحت! میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میں نے تجھے کبھی چوما تھا ! میں اکیلائی کے جسم پر مجوزہ منصوبوں کی وارداتیں لکھتا ہوں […]
تنہا رہنے کا موسم اور دیگر نظمیں (اویس سجاد)

میرے پاس سب کچھ ہے
سوائے نایاب ہوتے قہقہوں کے
پنڈت ہری چند اخترؔ: “کفر و ایمان” کا شاعر: جدید و قدیم کے درمیان (تالیف حیدر)

“کسی شاعر کی تعین قدر اور اس کے متن کی تحلیل سےبہت پہلے جو بنیادی سوال قائم ہوتا ہے وہ شعر کی ماہئیت اور اس کے وجودیاتی مباحث سے متعلق ہوتا ہے۔جب تک ہم شعر کے مسئلے کو حل نہ کریں کسی شاعر کی قدر کا تعین ہر گز نہیں کر سکتے۔ شعر یقیناً ایک […]
محبت کبھی ضائع نہیں جاتی – نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر: ایک بار لگ جائے
تو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتی
ہے کوئی لینے والا -نصیر احمد ناصر

نصیر احمد ناصر: میرے پاس بہت سی دھوپ ہے
اور بہت سی چھاؤں
گوشہ نشینی – ثروت زہرہ

ثروت زہرہ: میں مری نہیں ہوں
مگر سانس روک کر دیکھنا چاہتی ہوں
قہقیوں کے گھونٹ اور دیگر نظمیں – عظمیٰ طور

عظمیٰ طور: میں نے طویل چیخ کے بعد
چیخ کے خلا کو پر کرنے کے واسطے
قہقہوں کے کئی بڑے بڑے گھونٹ نگلے ہیں
انتظار – غنی پہوال

غنی پہوال: اُداسیوں کی بانجھ آنکھیں
روشنی کو حاملہ کر کے
دیمک کی چال سے اندر بھیج رہی تھیں
ہم زندہ رہیں گے! – ایچ- بی- بلوچ

ایچ-بی-بلوچ: جب تک ہم زندہ رہیں گے
خواہش موت کی أنکھوں میں مکڑی کے جال بنتی
اور سنگینوں کی نوک کو گدگداتی رہے گی
نمبردارکی حویلی – حسین عابد

سات زمینوں
سات آسمانوں کے پار
خدا کی انگلیوں پر
جو ہمارے گناہ ثواب
اپنی پوروں پر گن رہا ہے
آج کا گیت: جیون ایک دھمال (سرمد صہبائی، پٹھانے خان)

جیون ایک دھمال اُوسائیں جیون ایک دھمال تن کا چولا لہر لہو کی آنکھیں مِثل مَشال جیون ایک دھمال سانولے مکھ کی شام میں چمکے دو ہونٹوں کے لعل جیون ایک دھمال وصل کی برکھا باندھ کے نکلی ست رنگا رومال جیون ایک دھمال کس کے دھیان کی رُت میں ڈولے من کی کچی ڈال […]