مجھے تو اس وقت بھی حیرت ہی ہوتی تھی جب میں بی-اے سال اول کا طالب علم تھا کہ آخر یہ کن باتوں پر اردو زبان و ادب کی بنیاد قائم کی جارہی ہے جس کو پڑھ کر اردو کے طلبہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا ذہن کسی طرح کے اکتسابی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اگر آپ نے ہندوستانی ہونیور سٹیز میں رائج اردو زبان و ادب کا نصاب نہیں دیکھا ہے تو ایک بار اس کو دیکھنے کی کوشش کر لیجیے۔ نہایت افسوس کے ساتھ آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ اردو کے زوال کا اولین سبب ہندوستان میں یہ ہی نصاب ہے۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ اردو میں اس نصاب میں غزل اور نظم کی جو تنقید ہے اور جس طر ح کے افسانے ، ناول اور تنقیدی مباحث یہاں پڑھائے جاتے ہیں اسے کوئی بھی معمولی درجے کا نصاب پڑھنے والا پڑھا سکتا ہے ، لیکن ہماری یونیورسٹیز میں اس بات پر بہت زور دیا جاتا ہے کہ اس نصاب کو پڑھنے کے بعد طلبہ کی بصیرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیسرے درجے کی ادبی اور علمی لیاقت رکھنے والے لوگوں کے ذریعے تیار کیے ہوئے اس نصاب میں سوائے پرانی ، فرسودہ اور رٹی رٹائی چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ وہی عام سوال و جواب پر مبنی تنقیدی کتابیں ، وہیں ہزار بار کی پڑھی ہوئی غزلیں اور نظمیں اور وہی قصیدے۔ اردو کے نصاب میں اس درجہ اسفل اور سطحی چیزیں شامل ہیں جس کو پڑھ کر کوئی بھی سال اول یا دوئم کا طالب علم ذرا سی کوشش کرے تو نقاد بن سکتا ہے اور صورت حال بھی کچھ یہ ہی ہے کہ ہماری یونیورسٹیز سے ایسے ہی نقاد پیدا ہو رہے ہیں۔
آپ کو جان کر حیرت ہو گی ہندوستانی یونیورسٹیز میں اردو کے نصاب میں سال اول سے سال آخر تک (بی-اےمیں) اور اس کے بعد ایم-اے کے دونوں برسوں میں غزل اور نظم کی تعاریف پر سولات کیے جاتے ہیں ، نظم کیا ہے؟ اس کی بہت ہی سطحی بحث ہوتی ہے۔ افسانوں کے نام پر منٹو ، بیدی ، کرشن چند اور عصمت یا عینی کے دو ، دو ، چار ، چار افسانے پڑھائے جاتے ہیں ۔ناول میں ہادی رسوا کا امراو جان اور باغ و بہار یا فسانہ عجائب کی تلخیص کو روا رکھا ہوا ہے اور تنقید کے نام پر وہی الٹے سیدھے فاروقی ، نارنگ اور دوسرے درجے کے مباحث چھیڑنے والے نقاد ،جن میں کسی بھی شعر کو کسی بھی طرح سے بیان کر دینے کی صلاحیت موجود ہے۔کے مباحث پڑھائے جاتے ہیں۔ ڈرامے کے نام پر آغا حشر اور حبیب تنویر کی کچھ نگارشات اور تاریخ میں نور الحسن نقوی کی چھوٹی سی تاریخ ادب اردو سے کوئی بھی طالب علم پانچ برسوں میں اردو ادب پر با آسانی اچھے نمبروں سے ہاتھ صاف کر لیتا ہے۔ جن کتابوں کو اردو نصاب میں معاونت کے نام پر شامل کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر اردو کے پروفیسروں کی کتابیں ہوتی ہیں جو انہوں نے انہیں الٹے سیڈھے ناقدین کی کتابوں کو پڑھ کر لکھی ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ جو کچھ ہوتی ہیں جن میں گیان چند جین اور محمد حسن جیسے اساتذہ کی کتب کو شامل کیا جاتا ہے جو نصاب کے نام پر یوں بھی ناقص ہوتی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ خود اساتذہ نے بھی ان کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا اور اگر کیا بھی ہوتا ہے تو بہت سرسری۔ اردو کے نصاب کی ہی یہ دین ہے کہ کوئی بھی شخص یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے بحال ہو جاتا ہے ، کیوں کہ پی ۔ایچ ۔ڈی تک پہنچتے پہنچتے اردو کے ہر طالب علم میں اس کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس طرح گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے استاذ ہمیں زبان و ادب کے نام پر بے وقوف بناتے ہوئے جو کور چشم باتیں پڑھا اور سمجھا رہے ہیں وہ کس طرح ہمیں اگلوں تک پہنچانا ہے۔ اس کے حاصل کے طور پر یونیو رسٹیز میں جو اگلی نسل آتی ہے وہ اس سے زیادہ کور چشم ہوتی ہے۔ لہذا غزل میں محبوب کی باتیں اور نظم کے نام پر اخترالایمان یا فیض کی یا حالی اور نظیر اکبر آبادی کی بہت مشہور نظموں کے دو چار اشعار پر ایک دوسرے سے بات کرنے کو زبان و ادب کی خدمت سمجھتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وہ لوگ جن کا یونیورسٹیز سے کوئی تعلق نہیں صرف یونیورسٹیز کے چند اساتذہ کے ساتھ جن کا اٹھنا بیٹھنا ہے وہ تک اردو و زبان و ادب کے نام پر چند ایک مشہور شاعروں اور ادبیوں اور نقادوں پر پندہ ، بیس لوگوں سے مضمون لکھوا کر ادب کی خدمت کا دم بھر نے لگتے ہیں ۔ ہندوستان میں اردو کے نصاب کی پیدا کی ہوئی کور چشم عوام کا ایسا راج ہے کہ اردو ادب کے نام پر نہایت بھونڈی کتابیں آئے دن سامنے آتی ہیں ۔ نئے افسانہ نگار اور نئے ادیب بھی اردو میں وہی ہوتے ہیں جنہوں نے اس مردہ اور بے جان نصاب سے فیض حاصل کیا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ کی اردو ادب کا یہ نصاب پڑھنے کی وجہ سے یہ حالت ہے کہ وہ کسی بھی اچھے اور پڑھے لکھے ادیب سے رائی برابر واقف نہیں ہوتے۔ ذرا مشکل ادب تک ان کی رسائی نہیں ہوتی اور کسی بھی نظم کے پیچیدہ شاعر کو تو وہ اٹھا کر ہی نہیں دیکھتے۔ اس کے علاوہ ادب کے ساتھ شاعری اور افسانہ نگاری سے باہر قدم رکھنا تو ان کی شریعت میں حرام ہوتا ہے۔ ٹیکنکل ہینڈ اتنا کمزور کہ کسی بھی ویب سائیٹ کو کس طرح اوپن کرنا ہے۔ اس سے کس طرح استفادہ کرنا ہے اور اردو میں کس طرح نئے تکنیکی خیالات شامل کرنا ہے اس سے ذرا واقفیت نہیں ہوتی۔ ہندوستانی یونیورسٹیز میں صرف ایک شخص خواجہ اکرام کو اگر نکال دیا جائے تو کوئی شخص اردو کے نئے تکنیکی ارتقا سے واقف نہیں ۔ بعض اساتذہ کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنی ای –میل آئی ڈی تک اوپن نہیں کر سکتے۔
یہ تمام باتیں کہیں نہ کہیں اردو کے اس فرسودہ نصاب سے ہی لگا کھاتی ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر اور پڑھا پڑھا کر اردو کے اساتذہ اور طلبہ دونوں کور چشم ہو چکے ہیں ۔ ذرا سا نیا خیال اور نئی صورت حال ہمارے طلبہ اور اساتذہ کو کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ اردو کے بہت سےطلبہ اور اساتذہ ہندوستان میں ایسے ہیں جنہوں نے کشور ناہید، فہمیدہ ریاض ، سعید الدین، نیر مسعود، سی-ایم نعیم ، اجمل کمال، محمد خالد اختر ، افضال احمد سید اور ذیشان ساحل وغیرہ جیسے کتنے شاعروں افسانہ نگاروں اور ادیبوں کا نام تک نہیں سنا۔ کسی بھی نئے اور اچھے لکھنے والے کو تو دور اردو کی یونیورسٹیز کے نصاب میں کھوئے ہوئے طلبہ اور اساتذہ اردو کی اچھی نثر اور نظم لکھنے والوں کی ہوا تک سے محروم ہیں ۔ ایک اور بڑا المیہ یہ ہے کہ نصاب میں بھی شامل کتابوں کو اردو والے ڈھنگ سے نہیں پڑھتے جن میں کہیں کہیں حالی اور شبلی کے یہاں ایک دو باتیں کام کی مل جاتی ہیں یا سر سید اور خطوط غالب میں کچھ رمق موجود ہے اس تک بھی ان کی رسائی نہیں۔
اردو نصاب کی صورت حال تو ابتر ہے ہی اس کو تیار کرنے اور رائج کرنے والوں کی حالت اس سے بھی خراب ہے۔ ادب کے نام پر تاریخ کے دو چار ادیبوں کے کارناموں کو رٹنے کے علاوہ اردو کے اساتذہ اور طلبہ نے گزشتہ کئی برسوں سے کچھ نہیں کیا ہے۔ جس سے بہت ہی خراب صورت حال یہ ابھر کے آئی ہے کہ نئے طلبہ سرے سے کورے ہوتے ہیں اور کھل کربات کرنے اور علمی انداز میں اختلاف مباحث کے آداب سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں نئے نصاب کے طور پر اردو میں جو چیز یں اور کتابیں رائج ہونا چاہیے ان کی طرف کسی بھی شخص کی نگاہ نہیں۔ ادب کے تنقیدی مباحث سے گریز کرنے کا بھی کوئی خیال نہیں اور تحقیق کے پرانے خیالات کو القط کرنے کا بھی نہیں۔ جہاں ہندوستان کی یونیورسٹیز کے نئے شعبوں میں ادب اور آرٹ کی نئی معنویت پر بہت غور و فکر کیا جا رہا ہے اس میں آزاد ی رائے اور آزاد ی خیال اور طرز حیات پر غور کر کے بہت فری ماحول پیدا کیا جا رہا ہے وہیں ہندوستان کی یونیورسٹیز اردو کے شعبوںمیں بہت پچھڑے ہوئے ماحول کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس کو رائج رکھنے کی کوشش میں دن رات محنت ہو رہی ہے۔ اردو زبان و ادب کے ایسے دور میں یونیورسٹیز کے نصاب کو سرے سے کاٹ کر نئے طور پر مرتب کرنے کی ازحد ضرورت ہے اور نئے ذہنوں کو ہندوستانی یونیو رسٹیز کے شعبوں میں جگہ دینے کی اور پرانے اور فرسودہ ذہن جو گدیوں پر براج مان ہیں ان کی از سر نوذہنی تربیت کر نے کی۔