علی اکبر ناطق: سب سے بڑھ کر یہ کہ مَیں اس ملک میں اِتنا اجنبی ہوں کہ میری پُرسش کو اِس وقت ایک چیونٹی تک نہیں آئے گی۔ پھر آپ یہ پولیس کس لیے لائے تھے؟
علی اکبر ناطق: شمس الحق نواز صاحب کی اِس بات پر مسکرا دیا۔ اُسے خوب علم تھا،اسسٹنٹ کمشنر نوازالحق نے اِس کام کے عوض اپنی ترقی کی سفارش کا معاوضہ طلب کیا ہے۔
علی اکبر ناطق: سب نے دیکھا،انہی خدمت گزاریوں کی وجہ سے وہ صرف دو سال میں ہی تحصیل دار ہو گیا۔ جبکہ ساتھ والے،جو ذرا خدمت گزاری میں کم تھے،ابھی تک اُنہی بوسیدہ میزوں پر بیٹھے مکھیاں مار رہے تھے۔
علی کابر ناطق: زمانے کے گزرتے ماہ سال میں ولیم کو اِس پورے نقصان پر تاسف تو ہوا لیکن وہ اُس کو قبول کر چکا تھا۔ چنانچہ ایک عرصے سے اُس نے بھی اُنہیں یاد کرنا چھوڑ دیا۔
علی اکبر ناطق: ولیم کی نظر میں ایک دم اپنی افسری کے کئی واقعات یاد آنے لگے۔ جس میں وہ بھی دیسی لوگوں کی درخواستوں پر کچھ اِسی قسم کے دو ٹوک احکامات صادر کرتا تھا اور دوبارہ نظر ثانی کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتا تھا۔ اب اُسے محسوس ہوا دوٹوک فیصلے دینے میں درخواست گزار کا کلیجہ کیسے پھٹتا ہے۔
علی اکبر ناطق: شمشیر سنگھ اور اُس کا جتھا جودھا پور میں داخل ہوا تووہ حیران رہ گئے۔ سارے گاؤں میں کوئی فرد بھی اُنہیں کسی گلی میں چلتا پھرتا نظر نہ آ یا۔ گویا کوئی دیو پھر گیا ہو۔ مکانوں کو تالے لگے ہوئے تھے۔
علی اکبر ناطق: الیکشن میں دو ہفتے باقی تھے۔ کمپین کے لیے جلسے اور جلوس زوروں پر تھے۔ اِن جلسوں میں کانگرس اور یونینسٹ پارٹی کے اُمیدوار بھی کہیں کہیں تقریریں کرتے اور ووٹ مانگتے نظر آ رہے تھے۔ لیکن اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
علی اکبر ناطق: ملک بہزاد جان گیا تھا،غلام حیدر کو نواب نے کوئی پیسے نہیں دیے مگراُس نے پیسوں کی تھیلی پکڑ لی کیونکہ اب اُسے بھی پیسوں کی ضرورت تھی،پھر روز روز مفت میں تو کام نہیں ہو سکتے تھے۔
علی اکبر ناطق: نجاب میں ہر طرف حالات مسلم لیگ کے حق میں ہیں،جیسا کہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ لیکن مشرقی پنجاب کے کچھ علاقوں میں پوزیشن ٹھیک نظر نہیں آتی۔ اندیشہ ہے،تحصیل جلال آباد،تحصیل مکھسر اور تحصیل فیروز پور سے ہم الیکشن ہار جائیں گے،مجھے یہی پریشانی اس وقت بھی ہے۔
علی اکبر ناطق: جو مشکل سب سے اہم تھی وہ یہ کہ اب ہندوستانی بھی پہلے والے نہیں رہے تھے۔ اب یہ لوگ چالاکی اور عیاری میں گوروں کے بھی کان کاٹتے تھے اور اِس چکر میں تھے،کب انگریز یہاں سے نکلیں۔ ایسے میں انہیں آزاد نہ کرنا ایسے ہی تھا،جیسے بغیر ہتھیار کے بھیڑیے کے ساتھ رات گزاری جائے۔
علی اکبر ناطق: ولیم کو لاہور میں ایک سال تین ماہ گزر چکے تھے۔ اِن پندرہ مہینوں میں سوائے جم خانہ جانے کے،اِدھر اُدھر کی گھٹیا اور بے کار فائلوں پر دستخط جمانے اور کلرکوں کے بیہودہ چہروں کے دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہ تھا۔
علی اکبر ناطق: جھنڈووالا میں سردار سودھا سنگھ سمیت ایک دم دس لاشیں پہنچیں تو اندھا کر دینے والا حبس چھا گیا۔ لاشیں دو گَڈوں پر لادی ہوئی تھیں۔ گولیوں سے چھلنی اور خون سے لت پت گو یا مَسلی جا چکی تھیں۔
علی اکبر ناطق: غلام حیدر نے ملک بہزاد کو اپنے معاملات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا،چاچا بہزاد،اماں جان کو میں نے پاکپتن کی بجائے کہیں اور بھیج دیا ہے۔ اس کے علاوہ مال کافی سارا بیچ کر بقیہ نواب صاحب کی فرید کوٹ والی حویلی میں منتقل کر دیا ہے۔ نواب صاحب پوری طرح دوستی کا حق ادا کرنے کو تیا ر ہیں۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے مجھے اپنی ایک جیپ بھی ڈرائیور سمیت بھیج دی ہے،جو نواب صاحب کی گرو ہرسا والی حویلی میں موجود ہے۔ اگر اُس کی ضرورت پڑی تو استعمال کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ گرو ہر سا کے تھانیدار کو بلا کر منصوبے پر عمل کروانے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ تھانیدار نے کہا ہے،اگرمیں کارروائی کر کے دوگھنٹوں کے اندر دوبارہ تھانہ گرو ہرسا کی حوالات میں پہنچ جاوں تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ پھر ساری بات وہ سنبھال لے گا۔ وہ مجھے ناجائیز اسلحہ رکھنے کے عوض حوالات میں بند کر کے عین واردات کے وقت باہر نکال دے گا۔ میں اور میرے بندے کارروائی کر کے دوبارہ وہیں پہنچ جا ئیں گے۔ اِس طرح یہ کارروائی مکمل ہو جائے گی لیکن مجھے اِس میں خطرہ ہے کہ کام صرف سودھا سنگھ کا ہی ہو گا،دوسرے دونوں بچ جائیں گے۔ کیونکہ اُس کے لیے وقت نہیں ہو گا۔