ہنسی کی جھوٹن
لوگ
ہمارے دکھوں پر
کپاس کے پھول
رکھتے رکھتے
قہقہے ڈال جاتے ہیں
ہم ان قہقہوں کو
اپنے جوتوں کی
نوکیلی دیوار کے نیچے رکھ کر
دبائیں
تو نفرت کی نیلی نہر
پھوٹ پڑے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کی گم...
ہم نہیں جانتے دھوپ کا ذائقہ کیا ہے
روشنی کی شکل کس سے ملتی جلتی ہے
یہ پرندے کون ہیں
ہم درختوں کو چراغ لکھتے ہیں
ہوا کو موت
یہ پتے ہمارے آنسو ہیں
ہمیں کیا خبر کہ آسمان کا رنگ
تمہارے لہجے کی طرح
نیلا کیوں ہے؟
ہم...
کاش تم بارشوں کی طرح مر جاؤ
اور کسی سبز آنکھ میں
تمہارے چہرے نہ کھل سکیں
تم وہی ہو
جس نے ہمارا نام سیڑھی رکھا
اور دیوار پر اپنے جسم شائع کئے
ہم تمہاری بندوقوں سے نکلے ہوئے
منفی اعداد ہیں
تم ہمیں جنگلوں سے ضرب...
سدرہ سحر عمران: میرا مرد اس ٹیلی فون کی طرح خاموش ہے
جس کا نمبر کسی کو نہیں دیا گیا
لیکن وہ ہر ماہ بل کی ادا ئیگی کے لئے
اپنی چیزیں بیچ دیتا ہے
اس کے پاس اب ایک گھڑی کے سوا کچھ نہیں ہے