بے وطن عورت کا مارچ اور دیگر نظمیں – سدرہ سحر عمران
سدرہ سحر عمران: میں زوجہ فلاں ابن فلاں تمہاری وردیوں کے لئے حلال نہیں ہو سکتی
سدرہ سحر عمران: میں زوجہ فلاں ابن فلاں تمہاری وردیوں کے لئے حلال نہیں ہو سکتی
ہنسی کی جھوٹن لوگ ہمارے دکھوں پر کپاس کے پھول رکھتے رکھتے قہقہے ڈال جاتے ہیں ہم ان قہقہوں کو…
ہم نہیں جانتے دھوپ کا ذائقہ کیا ہے روشنی کی شکل کس سے ملتی جلتی ہے یہ پرندے کون ہیں…
کاش تم بارشوں کی طرح مر جاؤ اور کسی سبز آنکھ میں تمہارے چہرے نہ کھل سکیں تم وہی ہو…
سدرہ سحر عمران: میں مٹی کے صابن سے جھاگ بنا کر آسمان سے رات صاف کرنا چاہتی ہوں
سدرہ سحر عمران: زنجیریں ہمارے دم سے زندہ ہیں ہمیں نیکیوں کے ہار مت پہناؤ
سدرہ سحر عمران: ہمیں وراثت میں اپنی عیاشیاں سونپ جائیں گے حرمزادو! خُدا کے لئے ہمیں بانجھ پن کی دعائیں…
سدرہ سحر عمران: جب بارود کا دن آتا ہے لاشیں گنتی میں بدل جاتی ہیں
سدرہ سحر عمران: تم نے مذہب کو گولی سمجھا اور ہمارے جنازوں پہ دو حرف بھیج کر اسلحہ کی دکانیں…