ہے کوئی لینے والا -نصیر احمد ناصر
نصیر احمد ناصر: میرے پاس بہت سی دھوپ ہے اور بہت سی چھاؤں
نصیر احمد ناصر: میرے پاس بہت سی دھوپ ہے اور بہت سی چھاؤں
نصیر احمد ناصر: میں نے کہا تھا دروازے بند ہو جائیں گے اور تم نہیں مانتے تھے
نصیر احمد ناصر: ہم اپریل میں پیدا ہوئے لیکن ہماری موت پتا نہیں کس ماہ، کس موسم میں ہو گی
اور جب تم دیکھو کہ رات معمول سےطویل ہو گئی ہے اور سورج طلوع ہونے کا نام نہیں لے رہا…
مجھ تک آنے کے لیے ایک راستہ چاہیے جو پاؤں سے نہیں دل سے نکلتا ہو مجھ تک آنے کے…
کہانی کار! تم نے مجھے بہت سی نظمیں دی ہیں اس کے باوجود کہ میں تمہارا لفظ نہیں ہوا کو…
خدا معبدوں کی راہداریوں میں گم ہو گیا ہے دلوں سے تو وہ پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا خود…
ابھی تو دن ہے اور ہم دیکھ سکتے ہیں ایک دوسرے کو دکھ میں اور خوشی میں اور مِل سکتے…
وقت کے نورانیے میں تہذیبیں زوال کی سیاہی اوڑھ لیتی ہیں لیکن اکاس گنگا کے اَن گنت اَن بُجھ ستارے…