آزُوقہ
نصیر احمد ناصر: ایک زمیں کے ٹکڑے سے بھی کیا کچھ حاصل ہو سکتا ہے!
نصیر احمد ناصر: درد کی لَے میں ہوا صدیوں پرانا گیت گاتی ہے
نصیر احمد ناصر: بے ارادہ پانیوں سے آنکھ بھرتی جا رہی ہے
نصیر احمد ناصر: خفیہ خزانے کے پرانے آہنی صندوقچوں میں سرخ سِکوں کی جگہ ڈالر بھرے ہیں
نصیر احمد ناصر: میں تمہیں خواب کے دروازے پر اسی طرح جاگتا ہوا ملوں گا
نصیر احمد ناصر: ہمیں کس نگر میں تلاشو گے کن راستوں کی مسافت میں ڈھونڈو گے
نصیر احمد ناصر: اجنبیت ۔۔۔۔۔ قربتوں کے لمس میں سرشار گم گشتہ زمانے ڈھونڈتی ہے زندگی دکھ درد بھی قرنوں…
نصیر احمد ناصر: ماں نظم کو گود میں لیے بیٹھی رہتی نظم کے ہاتھ چومتی اور ایک الُوہی تیقن سے…
نصیر احمد ناصر: پھاگن چیتر کے آتے ہی بیلیں رنگ برنگے پھولوں سے بھر جاتی ہیں!!