Laaltain

تمہارا کہکشاں سے وصال ہوا

علی زریون: اے بزرگ ستارے تم ہمیشہ روشن رہو گے کھوج کرنے والی پیشانیوں کائنات کا کُھرا نکالنے والے بہادر دماغوں اور بچوں کی ہنسی میں
علی زریون: یہ رستہ ایسے بازارِ ملامت سے گزرتا ہے جہاں ہر سمت سے طعنوں کے پتھر مارے جاتے ہیں
علی زریون: ماں رتھ فاؤ تم کو جنّت سے کیا لینا تم خود دھرتی کی جنّت ہو
جمیل الرحمان: پیارے علی زریون یہاں تخت درختوں کی لکڑی سے نہیں معصوموں اور کمزوروں کی ہڈیوں اور گوشت سے بنتے ہیں
علی زریون: لیکن بندوق کبھی کوئی رسوائی نہیں دیکھے گی کیونکہ لوہے پر کوئی بد دعا اثر نہیں کرتی
علی زریون: خدا کے نام لیواوں کو اک " ماں" کی ضرورت ہے جو ان کو نرم کر پائے جو ان کو یہ بتا پائے خدا ظالم نہیں ہوتا
علی زریون: میں تو کوڑھیوں میں بیٹھا ہوں دو کوڑی کے گھٹیا کوڑھی ! یہ دھرتی کے اجڑے پن پر خاک لکھیں گے؟؟ مجمع گیر بھلا کیسے ادراک لکھیں گے؟؟
علی زریون: مجھے معلوم کر لینا کسی بجھتی ہوئی تاریخ کے ان حاشیوں اندر جہاں کچھ ان کہی باتیں ہمارے مشترک احساس کی تسبیح شاید اب بھی پڑھتی ہوں
علی زریون: آیتیں سچ ہیں مگر تُو نہیں سچّا مُلّا تیری تشریح غلط ہے، مِرا قُرآن نہیں دین کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے تجھ سوا اور یہاں کوئی مسلمان نہیں ؟؟؟
علی زریون: اپنی نظموں کے یہ "کھوٹے سکّے" اُٹھا اپنے جیسوں میں جا اور یہاں سے نکل