استعاروں کے مقتل میں

جمیل الرحمٰن:نظم کی سانس اکھڑ رہی ہے زمین بگڑ رہی ہے لفظ چلّا رہے ہیں کیا تمہیں یہ علم نہیں "خدا یہ نظم دوبارہ نہیں لکھے گا

دردِ زہ میں مبتلا کوکھ کا چارہ گر

جمیل الرحمان: وہ فلائی اووروں پر چل کر نہیں لوٹ سکے گا اُسے پرانے راوی کو نئے راوی میں انڈیل کر پانی کی تیز لہروں کو اپنی فولادی بانہوں سے چیر کر اُس میں راستہ بناتی اپنی جرنیلی سڑک کو بچھا کر اُسی پر چلتے ہوئے لوٹنا ہوگا

ایک خالی کمرے میں معرکہ

جمیل الرحمان: کمرے میں موجود خالی کرسی اور اس کے سامنے پڑی بیضوی میز اُن آواز وں کے بین سُن رہی ہیں جو دروازے کے کواڑوں سے لٹک رہی ہیں

واپس دو

جمیل الرحمان: میں تم سے آج اپنا آپ واپس مانگتا ہوں مجھے تم خوں بہا مت دو

وصل گزیدہ

جمیل الرحمٰن: داستان ایک وحشی کی طرح عنوان کو برہنہ کرنے میں مصروف ہے اور انجانی لذّتیں قطار باندھے مسہری پر ٹپکتے جرثوموں کی کلبلاہٹ پر ہنس رہی ہیں

ایک ہذیانی لمحے کا عکس

جمیل الرحمان: سورج مکھی تیرے شہر میں دن راستہ بھول گیا تیرے مکینوں کی لاشیں خاک پر اوندھے منہ پڑی رہیں اور تیرے سورج کو بیڑیاں پہنا دی گئیں کیا تیرے شہر میں کوئی ایسی شام تو دفن نہیں جس کے کتبے کا حاشیہ لکھنے والے بد ہیئت ہاتھ ستاروں کے لہو سے لتھڑے ہوئے تھے؟؟؟؟

صبح و شام کے درمیان

جمیل الرحمان: سورج دیوتا نے شہزادے کا رتھ الٹ دیا شہزادے کا کچھ پتہ نہین چلا لیکن شہزادی کی لاش کے ٹکڑے راہگیرون کو گھاٹی میں ملے