مائے

علی زریون: خدا کے نام لیواوں کو اک " ماں" کی ضرورت ہے جو ان کو نرم کر پائے جو ان کو یہ بتا پائے خدا ظالم نہیں ہوتا

مجھے معلوم کر لینا

علی زریون: مجھے معلوم کر لینا کسی بجھتی ہوئی تاریخ کے ان حاشیوں اندر جہاں کچھ ان کہی باتیں ہمارے مشترک احساس کی تسبیح شاید اب بھی پڑھتی ہوں

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے

علی زریون: میں تو کوڑھیوں میں بیٹھا ہوں دو کوڑی کے گھٹیا کوڑھی ! یہ دھرتی کے اجڑے پن پر خاک لکھیں گے؟؟ مجمع گیر بھلا کیسے ادراک لکھیں گے؟؟

رات ہمیشہ تو نہیں رہتی ہے

علی زریون: آیتیں سچ ہیں مگر تُو نہیں سچّا مُلّا تیری تشریح غلط ہے، مِرا قُرآن نہیں دین کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے تجھ سوا اور یہاں کوئی مسلمان نہیں ؟؟؟

مردود

علی زریون: اپنی نظموں کے یہ "کھوٹے سکّے" اُٹھا اپنے جیسوں میں جا اور یہاں سے نکل

راوی رستہ موڑ

علی زریون: راوی رستہ موڑ کبھی اس شہر کی جانب جو جلتا ھے سن زخمی آواز جو سینے چیر رہی ہے