
چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے لاکھوں
تیری دیور پہ لکھا ہے سارے دکھ اندر نہیں تھوکے جا سکتے میرے دوست! میں تیرا اگال دان ہوں اور گرتی ہوئی دیوار کا سایہ
میں : گوشت میں لتھڑی ہوئی اس قوم کے حیلوں ، بہانوں سا ہے یہ گرداب ، کہ جس میں ہم اور تم فنا ہونے
کچھ عرصہ قبل ایک فاضل دوست سعدی جان نے “اسلامی ریاست، ذمی اور سیکولر حضرات کی غلط فمہیاں” کے عنوان سے ایک تحریر لکھی اور
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row][vc_row full_width=”” parallax=”” parallax_image=“”][vc_column width=“1/2”][vc_column_text css_animation=”” css=”.vc_custom_1475943083005{background-color: #e0e0e0 !important;}”] Heritage Life was bequeathed a love of mirrors And mirrors hold her love’s reflections. Life
وقت کے نورانیے میں تہذیبیں زوال کی سیاہی اوڑھ لیتی ہیں لیکن اکاس گنگا کے اَن گنت اَن بُجھ ستارے لُک چُھپ لُک چُھپ کھیلتے
مجھ میں ادھوری لذت سو رہی ہے میں اِس کی نیند کو طُول دینا چاہتا ہوں لیکن ایسا مُمکن نہیں اپنے طے شُدہ اوقات میں
چوتھا سبق: ذرات کارلو رویلی ترجمہ: زاہد امروز، فصی ملک اسی سلسلے کے مزید اسباق پڑھنے کے لیے کلک کیجیے۔ اس کائنات میں موجود تمام
ہماری گردنوں سے لپٹے ہوئے مفلر ہمارا گلا گھونٹتے ہیں تو بڑھی ہوئی کھردری شیو میں الجھ جاتے ہیں ہماری پتلیاں پپوٹوں کے بند دروازوں
کیا تم جاننا چاہو گے ادنیٰ ہونے کا مطلب؟ تو سنو! یہ ایسے ہے جیسے گھنٹوں قطار میں انتظار کے بعد تم کھڑکی کے قریب
“جناب یہ ریل گاڑی یہاں کیوں رکی ہے ؟ “ جب پانچ منٹ انتظار کے بعد گاڑی نہ چلی تو میں نے ریلوے اسٹیشن پہ
وہ ہمیشہ سے مجھے متاثر کن لگے، لمبے بال، ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ یا شرٹ،اس کے نیچے کبھی جینس تو کبھی نیکر،ناک پہ چشمہ،بظاہر اکھڑی
