Laaltain

اسلامی ریاست اور غیرمسلم (شعیب محمد)

26 دسمبر، 2018
Picture of شعیب محمد

شعیب محمد

کچھ عرصہ قبل ایک فاضل دوست سعدی جان نے “اسلامی ریاست، ذمی اور سیکولر حضرات کی غلط فمہیاں” کے عنوان سے ایک تحریر لکھی اور اس میں کچھ دیگر دعووں کے ساتھ درج ذیل نکات پیش فرمائے:

٭ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری ریاست کے وہ ’خصوصی‘ اور ’وی آئی پی‘ شہری ہیں، جن کی خصوصیت، اہمیت اور حساسیت کی بنا پر اسلام نے انہیں ایک الگ معزز نام الاٹ کیا ہے، یعنی ذمی۔

٭ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری بھی مسلم شہریوں کی طرح مکمل حقوق کے حامل شہری ہوتے ہیں، جو آج کی جدید دنیا میں شہریت کے لوازم سمجھے جاتے ہیں۔

عرض ہے کہ قرآن و حدیث کے صریح نصوص اور آثار خلفائے راشدین و صحابہ کرام کی موجودگی میں یہ تمام نکات تو محلِ نظر ہی ہیں۔ ایک طرف اسلامی ریاست کی بات کی جاتی ہے جو کہ قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کے طریق پر ہو اور مثالوں میں ان مسلم حکمرانوں کا برتاؤ بھی پیش کر دیا جاتا ہے جسے خود ہمارے علماء و مشائخ مثالی حکومتیں قرار نہیں دیتے۔

کہا گیا ہے کہ مسلم ریاست میں “غیر مسلم بھی ریاست کی نظر میں دوسرے شہری کی طرح ہوتے ہیں” یا انہیں بھی برابر کا باعزت شہری ہونا تسلیم کیا جاتا ہے حالانکہ یہ واضح اسلامی احکامات کے خلاف بات ہے۔ چنانچہ قرآن میں غیرمسلم کفار سے جزیہ کا حکم بیان ہی اس صورت میں ہوا ہے کہ

“یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔” (التوبہ: 29)

یہ صریح آیت ہے، اس کے ترجمے پر چونکہ اعتراض کر کے ہمارے مذہبی دوست مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ مشہور ترین تراجم ملاحظہ فرمائیں:

٭جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر۔ (مولانا احمد رضا خان بریلوی)

٭یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ (مولانا مودودی)

٭یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ (مولانا احمد علی لاہوری)

٭یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔ (مولانا فتح محمد جالندھری)

٭یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلّت کے ساتھ تمہارے سامنے جزیہ پیش کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ (علامہ جوادی)

٭یہاں تک کہ وه ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔ (مولانا محمد جوناگڑھی)

٭یہاں تک کہ وہ چھوٹے بن کر (ذلیل ہوکر) ہاتھ سے جزیہ دیں۔ (محمد حسین نجفی)

لہٰذا دوسرے درجے کا بلکہ ذلت رسوائی کے ساتھ شہری بن کر رکھنا ہی جزیہ لینے کا مقصد ہے۔ تمام بڑے بڑے مترجمین و مفسرین نے ہرگز آیت کو مداہنت کے ساتھ گول مول کرنے کی کوشش نہیں کی، یہ آج کے دور میں ہی مطلب بدل رہے ہیں۔ امام المفسرین ابن کثیر رح نے اسی آیت کی تفسیر میں بھی لکھا:

“پس (اللہ) فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو۔”
(تفسیر ابن کثیر مترجم، ج2 ص550، مکتبہ اسلامیہ لاہور)

حضرت خالد بن ولید نے بھی اہل فارس کے نام خط میں لکھا: “ہم تمھیں اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، اگر تم انکار کرو تو تم اپنے ہاتھوں جزیہ ادا کرو اس حال میں کہ تم ذلیل ہو کیونکہ میرے ساتھ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں قتال کو ایسے پسند کرتے ہیں جیسے فارسی شراب پسند کرتے ہیں۔”
(مجمع الزوائد: 310/5، امام ہیثمی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔)

لہٰذا ایک اسلامی ریاست و حکومت کے زیر اثر غیر مسلموں کی ذلت حربی و غیر حربی ہونے سے بھی ہرگز مشروط نہیں بلکہ راہ چلتے غیر مسلموں کو بھی ذلیل کرنا اسلامی احکامات میں شامل ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے:

“یہود و نصاریٰ کو سلام میں پہل نہ کرو اور جب ان میں سے کوئی راستے میں مل جائے تو اُسے تنگ راستے کی طرف مجبور کر دو۔”
(صحیح مسلم، حدیث 5546 طبع دارالسلام)

امام ترمذی لکھتے ہیں: “بعض اہل علم کہتے ہیں: یہ اس لیے ناپسند ہے کہ پہلے سلام کرنے سے ان کی تعظیم ہوگی جب کہ مسلمانوں کو ان کی تذلیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح راستے میں آمنا سامنا ہو جانے پر ان کے لیے راستہ نہ چھوڑے کیوںکہ اس میں بھی ان کی تعظیم ہے۔”
(سنن ترمذی، تحت حدیث 1602)

گویا اسلامی ریاست میں تو غیر مسلم شہریوں کو راستے میں آتے جاتے ذلیل و رسوا کرنا تعلیمات میں شامل ہے اور اسلامی ریاست کے عروج میں پائے جانے والے ہمارے بڑے بڑے آئمہ انہی احکامات کے قائل رہے ہیں۔

ہمارے دوست فاضل کالم نگار نے یہ لکھا کہ حضرت امیر معاویہ، حجاج، عبدالملک مروان وغیرہ کچھ مسلمان حکمرانوں نے غیر مسلموں کو اہم عہدے سونپے تھے تو عرض ہے کہ یہ کام کرنے کو تو صحابی رسول حضرت ابوموسیٰ اشعری نے بھی کیا تھا کہ ایک غیر مسلم کو اپنا کاتب مقرر کیا لیکن خلیفہ راشد دوم حضرت عمر فاروق نے اس پر شدید ردعمل دیا۔ ملاحظہ ہو۔ چنانچہ حضرت عمر نے کہا:

“تجھے کیا ہوا، اللہ تجھے تباہ کرے، کیا تو نے اللہ کا فرمان نہيں سنا: {اے ایمان والو ! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں، تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوستی کرے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہے ، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہِ راست نہیں دکھاتا } المائدۃ ( 51 )۔ تو نے ملت حنیفی پر چلنے والے کو حاصل کیوں نہ کیا ( یعنی مسلمان کاتب کیوں نہ رکھا)؟”

ابو موسی رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے کہا: اے امیرالمومنین! مجھے تو اس کی کتابت چاہیے اور اس کے لیے اس کا دین ہے، عمر رضي اللہ عنہ فرمانے لگے :

“جب اللہ تعالی نے ان کی توہین کی اور انہیں ذلیل کیا ہے تو مَیں ان کی عزت و احترام نہيں کرونگا ، اورجب اللہ تعالی نے انہیں دور کیا ہے تو مَیں انہیں قریب نہیں کروں گا۔”

(مجموع الفتاویٰ: 326/25، السنن الکبریٰ للبیہقی: 204/9، أحكام أهل الذمة لابن القيم: 1/ 454، إرواء الغليل: 256/8، محدث و امام ابن تیمیہ نے اس روایت کو صحیح اور محدث علامہ البانی نے “اسنادہ حسن” قرار دیا ہے۔)

باقی مزید کیا کیا عرض کیا جائے؟ جب ایک غیرمسلم کی جان تک کو اسلامی ریاست میں کسی مسلمان کی جان کی برابری حاصل نہیں۔ ہمارے فاضل دوست یہ فرماتے ہیں کہ “غیر مسلم شہریوں کی جان اور ان کا مال ایک مسلمان کی طرح مکمل قانوناً محفوظ ہوتا ہے۔”

یہ بالکل واضح احادیث کے خلاف مئوقف ہے کیونکہ اسلامی احکامات میں ایک مسلمان اور غیر مسلم کی جان بھی ہرگز ایک برابر نہیں اور مسلمان اور غیر مسلم افراد کی جانوں کا فیصلہ بھی برابری کی سطح پر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایک مسلمان اگر کسی غیر مسلم کو قتل بھی کر دے تو اس کے بدلے اس مسلمان کو ہرگز قتل کی سزا نہیں دی جا سکی۔ حدیث میں واضح حکم موجود ہے کہ “کسی مومن کو کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔” (سنن ابو داؤد، حدیث 4530)

اسی طرح خلیفہ سوم حضرت عثمان کے بارے صحیح روایت موجود ہے کہ “ایک مسلمان نے ایک ذمی کو جان بوجھ کر قتل کر دیا تو حضرت عثمان کے پاس فیصلہ آیا تو آپ نے اسے قتل نہ کیا بلکہ اس پر (صرف) مسلمان جیسی دیت رکھی۔”
(سنن بیہقی، رقم 15931)

امام بیہقی نے تو اس موضوع پر کئی صحابہ سے روایات جمع کر رکھی ہیں، جن سے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمان کو کسی ذمی کافر کے بدلے ہرگز قتل نہ کیا جائے گا اور خود جمہور فقہاء کا بھی یہی موقف ہے۔

آخر میں صرف حضرت عمر بن عبدالعزیز جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں کا ایک خط ان کے عامل کے نام پیشِ خدمت ہے جس سے ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی مجموعی صورتحال پر خوب روشنی پڑتی ہے:

“اما بعد، جو صلیبیں اعلانیہ نصب ہیں ان کو توڑ دیا جائے۔ اور یہودیوں اور عیسائیوں کو اجازت نہیں کہ وہ سواری کے لیے زین کا استعمال کر سکیں بلکہ انہیں سامان ڈھونے والی کاٹھی رکھ کر ہی سواری کرنا ہو گی اور ان کی خواتین بھی زین پر بیٹھ کر سواری نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں بھی سامان ڈھونے والی کاٹھی ہی استعمال کرنی ہے۔ اس کا باقاعدہ فرمان جاری کرو اور عوام کو اس کی نافرمانی نہ کرنے دو اور فرمان جاری کرو کہ کوئی عیسائی قبا نہیں پہن سکتا اور نہ ہی نفیس کپڑا پہن سکتا ہے اور نہ ہی عمامہ پہن سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہاری عملداری میں بہت سے عیسائی عمامہ پہننے کی رسم میں دوبارہ مبتلا ہو گئے ہیں اور وہ کمر کے گرد پیٹی (زنار) بھی نہیں باندھ رہے ہیں اور اپنے آگے کے سر کو گنجا بھی نہیں کر رہے ہیں۔ اگر تمہاری موجودگی میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو اس کی وجہ تمہاری کمزوری ہے، تمہاری نااہلی ہے اور تہمارا خوشامدیں سننا ہے، اور یہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیسے اپنے پرانے رسوم کو جاری کریں۔ تم کس قسم کے انسان ہو؟ ان تمام چیزوں کا خیال رکھو جن کی میں نے ممانعت کی ہے اور ان لوگوں کو ایسا کرنے سے بالکل روک دو۔ والسلام”
(کتاب الخراج لأبي يوسف، صفحہ 145، المكتبة الأزهرية للتراث)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *