کاش تم بارشوں کی طرح مر جاؤ
اور کسی سبز آنکھ میں
تمہارے چہرے نہ کھل سکیں
تم وہی ہو
جس نے ہمارا نام سیڑھی رکھا
اور دیوار پر اپنے جسم شائع کئے
ہم تمہاری بندوقوں سے نکلے ہوئے
منفی اعداد ہیں
تم ہمیں جنگلوں سے ضرب دے کر
اینٹوں کے پیالے بنا رہے ہو
اور ہم اپنے پیٹ پتھروں سے باندھ کر
خوش ہیں
ہمارے بعد مٹی کبھی سونا نہیں ہوسکے گی
اور تمہارے پیتل جیسے پیر
بدعاؤں کی طرح
آسمان پر ڈولتے پھریں گے
مگر خدا ساتویں کھڑکی نہیں کھولے گا
تم اپنی قبریں لے کر کہاں جاؤ گے؟
Image: Alexander Petrovich Botvinov