Laaltain

میرا واہ کی راتیں: ایک تاثراتی جائزہ (نسیم سید)

14 فروری، 2021
Picture of نسیم سید

نسیم سید

میرواہ کی را تیں کی دوقسطیں میں نے آن لائن میگزین “لا ل ٹین ” پر پڑھی تھیں۔ دوقسطوں نے اس ناول کو پورا پڑھنے کی طلب دل میں پیدا کی مگربوجوہ بہت سا وقت یونہی گزر گیا۔ رفاقت حیات کی مہربانی کہ اس کا پی ڈی ایف انہوں نے مجھےبھیج دیا۔ میں نے اس ناول پر چونکہ کوئی تبصرہ نہیں پڑھا اس لئے مجھے نہیں معلوم کہ اس کو تنقید کی کس کس دھارپردھرا گیا یا تعریف کی کون کون سی سند عطا کی لہذا مجھے صرف اپنے احساسات لکھنے ہیں۔ اس ناول کوپڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ دیہی زندگی کورفاقت حیات نےبڑی تفصیل سے جیا ہے، وہ اس ماحول کی خوشبواوربدبو، اس کے حسن اوربدصورتی اوراس ماحول میں پرورش پانے والے ہرفرد کی نفسیات، ان کے مزاج ان کے مذہبی عقیدے، جنسی رویے غرض پورے ماحول کوجانتے اورپہچانتے ہیں، شاید برسوں اس ناول کے کرداران سے مطالبہ کرتے رہے “مجھے لکھو” انہوں نے غربت کی ہربھوک کولوگوں کو بھوگتے دیکھا ہے۔ بھوک خواہ شہرت کی ہویا دولت کی، طاقت کی ہویا اقتدارکی،پیٹ کی ہویا بدن کی، بھوک بہرحال بھوک ہوتی ہے۔ بھوک اگرپیٹ کی ہوتو کوڑے سے روٹی چننے پرمجبورہوجاتی ہےاوراگرجسم کے فطری تقاضے فاقے سے ہوں تو رشتوں کا احترام ان تقاضوں کے سامنے ننگا ہوجاتا ہے۔ ہم آئے دن اخباروں میں محترم رشتوں کی پامالی کے حوالے سے نا قابل ِ یقین سانحات کی خبریںپڑھتے ہیں اوران مجرموں پرلعنتیں بھیجتے ہیں مگراکثر یہ نہیں سو چتے کہ کن روایات اورعقا ئد کی مضبوظ زنجیروں میں جکڑاماحول ہے، اور یہی ان پڑھ رواج ہیں،رٹائے ہوئے عقائد ہیں جورفا قت حیات کی میراواہ کی راتوں کے نذیر، اس کی چچی خیرالنسا اورشمیم جیسے کردارتخلیق کرتے ہیں۔رفا قت حیات گو ماہر نفسیات نہیں ہیں لیکن انہوں نے ان تین کرداروں کے وجود میں اتر کے پورے ماحول کی نفسیاتی الجھنوں اورجنس کی بے لگام خواہشوں کواپنے سا دہ وپرکاربیانیے کے جال میں سمیٹ لیا ہے۔ ناول میں انہوں نے ان تین کرداروں کی جنسی بھوک کی گتھی کی ہر گرہ کھول کر اس کا ایک ایک دھاگہ بڑے سلیقے سے الگ کرکے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے (میں یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتی ہوں کہ بھوک میں اور لت یا ہوکے میں بڑا فرق ہوتا ہے، اگر رفاقت حیات کو شہرت، دولت، عورت، طاقت، شراب یا جنسی لذت کی لت یا ہوکے کا بیان مقصود ہوتا تو بہت سی دیگر کہانیوں کی طرح یہ نا ول بھی اپنا تما شہ آپ ہی لگا لیتا )۔

“میرواہ کی راتیں “ہماری دیہی زندگی کے معمولی پڑھے لکھے نوجوانوں اوران عورتوں کی وہ سچا ئی ہے جس کی پرورش ہمارا ماحول، روایات، اورمذہب سب مل جل کے بڑی محنت سے کرتے ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار نذیرجیسے سیکڑوں کردارہردوسرے تیسرے دن اخبار کی سرخی ہوتے ہیں، جنہیں ہش ہش کرکے چادروں سے ڈھانپ دیاجاتاہے۔ ا ن قصوں کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں،رفاقت حیات نے انتہا ئی ذہانت سے چھوٹی سی کہانی میں چند کرداروں کے ذریعے چیخ چیخ کےکچھ کہے بنا ایک محدودکینوس پران کی جذباتی کشمکش کی ہر سطح کواپنے برش سے شاندار اسٹروک لگا ئےہیں۔ “میرواہ کی راتیں” پڑھتے ہوئے ہمیں ان جزیات پر گہری نظر رکھنی ہوگی جو نذیرکی کہانی کے بین السطورگاوں کے اکثرنوجوانوں کی داستان سنا تی ہیں۔

کہانی کا مرکزی کردار نذیرایک حلوا ئی کا بیٹا ہے جس نے مارے باندھے آٹھویں تک پڑھ لیا ہے اوراب وہ اردو پڑھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ نذیرکا مزاج ایک تو لڑکپن سے عاشقانہ ہے دوسرے اس کے نوجوان بدن میں تماشہ لگاتی دن رات نئی نئی انارومہتابیوں کی تپک کوسندھ کی ایک لوک کہانی ہاتھ آجاتی ہے۔ یہ سندھ کی قدیم لوک کہانی مومل کے کاک محل میں پروش پانے والی محبت کی لازوال داستان ہے اس لوک کہانی کی مومل اس قدر حسین ہے کہ ایک دنیا اس کے حسن کی دیوانی ہے۔ رانا، اس جیسا ہی حسین اوردلیرشہزادہ مومل کی عائد کردہ شرائط کو پوراکرکے اس کا دل جیت لیتا ہے۔اس کہانی میں عشق کی آگ کی لپٹیں ہر اس وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں جواس کوپڑھ لے۔ رفاقت حیات جیسے لکھاری لمبی چوڑی تفصیلات میں جانا پسند نہیں کرتے سو وہ نذیرکے ہاتھ میں یہ کہانی تھما کے الگ تھلگ بیٹھ جاتے ہیں ” مومل و رانا کی کہانی اسے بیحد پسند تھی ” ہم جانتے ہیں کہ نذیرایک نوجوان لڑکا ہے۔ جنت کی حوروں کے حسن کی جزیات اوران کےساتھ شب بسری کی تفصیلات کی شراب ہمارا مولوی لڑکپن سےہی مردوں کو جام بھربھرکے پلا نا شروع کردیتا ہے۔ سوا س کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں سمجھا گیا کہانی میں ہم خود بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ نشہ بچپن سے ہی کس طرح رگوں میں دوڑنے لگتا ہے۔ ایک طرف عورت کا ایسا نشہ آورتصوردوسری طرف عورت کی قربت تو دورکی بات اس کی ایک جھلک بھی میسرنہ ہواوراگرہو بھی تو کسی محترم رشتہ کی صورت میں تو وہ کہانیاں جنم لیتی ہیں جس کی میرواہ کی راتیں چشم دید گواہ ہیں۔ ہربڑا کہانی کارمعاشرے کے کسی ناسور، کسی واقعہ کسی سا نحہ کی نشاندہی کرتے ہوئےمعالج کا کردار نہیں ادا کرتا، منٹوکا ” کھول دو” اس کی لاجواب مثال ہے۔

رفا قت حیات نے یہ ناول جنسی تسکین کے لیے نہیں لکھا بلکہ انہوں نے بڑی ذہانت سے ان حقائق سے پردہ اٹھا یا ہے جونذیر، شمیم اورنذیر کی چچی جیسے سیکڑوں کی داستاں کا حصہ ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو جلتی پرتیل کا کام کرتے ہیں۔ خیرالنسا کاشوہرساٹھ سال کا ہے اوروہ اس اس سے پچیس سال چھوٹی ہے۔ شمیم کا شوہربھی اس سے عمرمیں اتنا ہی بڑا ہے اوریہ کوئی عجیب بات نہیں بلکہ ہمارے
ان پڑھ اوردیہی ماحول میں اکثربہت چھوٹی عمر کی بچیاں اپنے سے تین گنا بڑے مردوں سے بیاہ دی جاتی ہیں۔ ان لڑکیوں کوبچپن سے گناہ اورثواب کے درس گھرکی عورتیں رٹا تی ہیں اور مرد ” غیرت کے نام پرقتل “کے کلہاڑے کندھوں پررکھےبنا کچھ کہے سمجھا دیتے ہیں کہ انہیں شک بھی ہوگیا توبیوی یا بہن جان سے گئی۔ ان تاکیدوں اوربندشوں کے بعد بھی کیسے وہ واقعات ہوجاتے ہیں جن کی خبریں ہم اخباروں میں پڑھتے ہیں اس کا سبب رفا قت حیات نے میرواہ کی راتوں میں دکھا یا ہے۔

نذیرکی پسندیدہ کہانی کی حسین مومل نذیرکے دل میں کسی حسین عورت کودیکھنے، اسے چھونے، اس کے ساتھ رانا کی طرح پرجوش وپرشوق راتیں گزارنے کی بے پناہ خواہش پیدا کرکے اس سے ٹرین اسٹیشن کے چکرلگواتی ہےاوربرقع میں لپٹی ہرعورت کواس کی نگاہیں ٹٹولتی ہیں “اس کا مشا ہدہ تھا کہ عورتیں بھی اس تفریح سے لطف اندوز ہوتی تھیں” لہذا ٹرین اسٹیشن پرموجود بوڑھے شوہرکی نوجوان بیوی شمیم بھی نذیر کی نگاہوں کا جلد ہی مطلب سمجھ جاتی ہے اوراس کی وہ خوبصورت آ نکھیں جنہیں دیکھ کے وہ اس پرعاشق ہوگیا تھا، مسکرا اٹھتی ہیں۔ نذیر اسٹیشن سے لے کر گاوں تک برقع میں لپٹی شمیم کا پیچھا کرتا ہے۔ عورت کی جھلک کو ترسے ہوئے لڑکیوں کا پیچھا کرنے والے کرداروں کوکس نے نہیں دیکھا ہوگا۔ نذیرکا یہ رویہ اس جیسے ہی سیکڑوں کی نما ئند گی کررہا ہے۔۔ یہ ہراس نوجوان کی کہانی ہےجس کے دماغ میں بچپن میں ہی یہ بات کوٹ کوٹ کر بٹھا دی جاتی ہے کہ لڑکی سے ملناجلنا، بات کرنا شرمناک گناہ ہے لیکن جنس مخالف کی کشش ایک فطری تقا ضہ ہے سویہ تقاضے اپنی راہ ڈھونڈ نکالتے ہیں۔۔۔اس کے برعکس جن جوانوں کو اپنی ہم عمرلڑکیوں سے ملنے جلنے بات کرنے کے بچپن سے مواقع ملیں وہ کسی عورت کی آنکھیں دیکھ کے اس پرعاشق ہوتے ہیں نہ ہی ان رشتوں پر جھپٹتے ہیں جن کا احترام ہر معاشرے میں متعین ہے۔

نذیرکے لا شعورمیں بسی مومل جیسی اب دوخوبصورت عورتیں ہیں جودین دارہیں، روزے نماز کی پابند ہیں شوہر کی اطاعت گزارہیں اس کے باوجود ان کے اندرکوئی خلا ہے، بدن کے وہ فطری تقاضے ہیں جن کا شوہرسے اظہار بھی ہمارے معاشرے میں عورت کے لیےبے شرمی سمجھا جاتا ہے۔ان تقاضوں کو جب اپنی طرف ملتفت ایک جوان ملتا ہے تو تربیت اورتاکید وں کے باندھے سارے بند ٹوٹ جاتےہیں۔ شمیم تک پیغام رسانی کی نذیر صورت نکال لیتا ہے چھوٹی سے ملاقات کے بعد شمیم خود نذیرکو اپنے گھر بلا بھیجتی ہے۔نذیراور شمیم کی مرادوں والی بے سدھ رات کے دوران ایک بلی اچانک چھت سے کود کے دونوں کو یوں بے مراد کر دیتی ہےجیسے کسی بھوکے کے ہاتھ سے اس کا نوالہ چھن جائے۔ اس اچانک رونماہونے والے سانحہ کا اثرنذیرپروہی ہوتا ہے جس کے تحت مرد شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔رفاقت حیات نے کہانی میں بہت ذہانت سے اس واقعے اوراس کے اثرات پر اشارتاً بہت کچھ کہہ دیا ہے۔ گو نذیرکا دل شمیم سے اچاٹ ہوجاتا ہے لیکن ابھی اس کی چچی موجود ہے وہ خوبصورت عورت جواس کے کھوئے ہوئے اعتماد کو لوٹا سکتی ہے۔ خیرالنسا گناہ اوربدن کی فطری تقاضوں کے بیچ پستی روایتی جبرکی شکارلاتعداد عورتوں کی نما ئندہ ایک ایسی عورت ہے جوباپ کی عمرکے مرد کی جاگیر ہے۔ نذیرکی وارفتگی ایک مختلف ذائقہ اورنشہ ہے جودھیرے دھیرے اس کے احساس گناہ پرغالب آجاتا ہے۔ عورت کے لمس کوترستے ہوئے مردوں کی بھوک تسکین کے کیسے کیسے ذرائع ڈھونڈ لیتی ہے رفاقت حیات ایک چھوٹے سے منظرمیں پینٹ کرتے ہیں۔” دھیرے دھیرے وہ بلاؤز کو اپنی ناک کے قریب لے گیا اوراسے سونگھنے لگا۔ اسے سونگھتے ہوئے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ خود کو کسی عورت کے قرب میں محسوس کرنے لگا۔ وصل کی سرشاری جیسی سرشاری اس پرطاری ہونے لگی” نذیر ہمارے کنفیوزڈ معاشرے کا وہ کردار ہے جوایسی عورت کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جوچند لمحوں کے لیے سہی اس کے لیے اپنے جسم کی آغوش وا کردے۔

نذیرگوچچی کے بارے میں سوچتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا ہے لیکن اس کے اردگرد کے توسارے ہی رشتوں پرمقدس رشتوں کا لیبل لگا ہے۔ عورت کی قربت کا فطری تقاضہ جب فاقوں سے تنگ آجائے توکوڑے پرسے بھی روٹی چن کے کھالیتا ہے۔ یہی حال ادھرخیرالنسا کا بھی ہے ” میں جانتی ہوں یہ گناہ ہے، بے حیائی ہے مگرتو خود سوچ اس کے اورمیرے درمیان کتنا فرق ہے ” رفاقت حیات کو مومل اوررانا جیسی کوئی عشقیہ داستان تحریر نہیں کرنی تھی۔ انہیں توان تین اہم کرداروں کے ذریعہ زمین کی تین تہوں تک اتری سماجی،معاشرتی اور مذہبی جکڑبندیوں کی ان جڑوں کی نشاندہی کرنی تھی جودن بدن گھنی سے گھنی ہوتی جارہی ہیں ان وحشتوں کو اجاگر کرنا ہے جو اندر ہی اندرگھن کی طرح پوری تہذیب کو کھا رہی ہیں یا کھا چکی ہیں۔ زندگی کے ہرشعبہ میں ہرطورطریقے میں دوہرا معیار رکھنے والے ہمارے معاشرے میں پچیس سال کا مرد سا ٹھ سال کی عورت سے شا دی کرلےتوعورت سمیت پورا معاشرہ حیرت سے انگلیاں چبا ڈالے۔ مگر ساٹھ سال کے مرد کی پچیس تو کیا تیرہ چودہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے شا دی کی لا تعداد مثالیں موجود ہیں اور سب چپ ہیں۔ یہ گائے بکری جیسی عورتیں جس کھونٹے سے دل چا ہے باندھ دی جا ئیں۔ سات سال کی لڑکی تا وان میں سترسال کے بڈھے کو دے دی جا ئے جرگے کے فیصلے اس رواج کوکاری نہیں کرتے۔ ان حبس زدہ رواجوں، جرگوں، مولویوں اور عزت کے رکھوالوں میں ” کا ری ” اور” کارا” کرکے قتل کردینے کی روایت برسہابرس سے جوں کی توں قائم ہے۔ ہمارے حبس زدہ معاشرے کی نما ئندگی کرنے والے ان تین کرداروں کے مطالعہ سے یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مذہب نے ذہنوں کی تربیت کرنے میں کیا اہم کردارادا کیا ہے ؟

رفاقت حیات کا ” میرواہ کی راتیں” اپنے فکری اعماق،فنی وسعت، چست بیا نیے، خوبصورت اسلوب اورموضوع پرگہری گرفت رکھنے والا ایک ایسا ناول ہے جو ہماری دیہی زندگی میں پلنے والے نوجوانوں اورکسی بھی کھونٹے سے باندھ دی جانے والی لڑکیوں کی داستان نہیں بلکہ فلم ہے جوہرمنظرکو تمام ترجزیات کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ یہ وہ سچا ئیاں ہیں جن سے ہم نظریں توچرا سکتے ہیں لیکن انہیں جھٹلا نہیں سکتے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *