اور پھر ہم چلتے رہے
ٹیڑھے میڑھے مگر ہموار ٹریک پر
ہاتھوں میں موبائل پکڑے
ہیڈ فون کانوں پہ چڑھائے ہوئے
باتیں کیے بغیر
ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے
آرائشی پودوں کو دیکھتے
فائبر کے جانوروں کو چھیڑتے
پرانے دنوں کو یاد کرتے
آنے والے زمانوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے
کبھی بادلوں پر پاؤں رکھتے
اور سمندروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے
سیلفیاں بناتے
کبھی پانیوں پر چلتے
دریاؤں کے پار اترتے ہوئے
مصنوعی قوس قزح کے پُل پر
کچھ دیر تک رکتے
بچوں کی طرح
رک رک کر
ہم چلتے رہے چلتے رہے
ابدیت کے پارک میں ۔۔۔۔۔