۔۔۔ ہم محبت کے خرابوں کے مکیں
ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے
سایہ نا پید تھا، سائے کی تمنا کے تلے سوتے رہے۔۔۔
ن۔ م راشد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھادوں کے پُر حبس مہینے کی ایک دوپہر تھی لیکن ہاڑ کی سی جھُلسا دینے والی دھُوپ اور گرم لُو کی وجہ سے بالکل بھی گمان نہیں گزر رہا تھا کہ یہ بھادوں کی دوپہر ہے، اور اسی وجہ سے مجھے تو بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ایسے میں گھوڑے کی پیٹھ پر لمبی سواری کا خیال معمول سے ذیادہ لُطف دے رہا تھا۔ چچا کبیر علی خان سیال ڈیرے پر نیم اور کیکر کے پیڑوں تلے بندھی گھوڑی کی۔۔۔ جس کا نام اُس کی نقرئی رنگت کی وجہ سے نُکری رکھ دیا گیا تھا۔۔۔ باگیں ایک ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے تھے جبکہ دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ تھامے ہوئے سوار ہونے میں میری مدد کر رہے تھے۔ ہمارا ٹھگنا مزارع دتہ فقیر دونوں ہاتھوں سے، جن کی چھے چھے اُنگلیاں تھیں، لکڑی کا مونڈھا تھامے کھڑا تھا جس پر چڑھ کر مجھے گھوڑی پہ سوار ہونا تھا۔ میں گھوڑی پہ سوار ہو گیا۔ چچا کبیر علی خاں نے باگیں میرے ہاتھ میں تھمائیں، دتے فقیر نے مونڈھا ایک طرف کھینچ لیا۔ چونکہ میں نوآموز سوار تھا لہٰذا لمبے سفر کے لئے چچا کبیر علی خاں نے جاتے ہوئے ایک نصیحت کرنا چاہی تو ایک بار باگ میں ہاتھ ڈال کر مجھے متوجہ کیا؛
“سُنو بیٹے باگ اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور نہ ہی گھوڑی کے آگے کسی لمحے خود کو بے بس سمجھنا، یاد رکھو، عورت اور گھوڑی، جس کے تصرف میں ہوں، اُسی کے وفادار ہوتے ہیں۔۔۔ اس سے ڈرنا مت!”
اُنہوں نے اٹل لہجے میں کہا تو میرے اندر کے ‘تعلیم یافتے’ کو یہ بات ناگوار گزری۔
“چچا ایسے تو ناں کہیں۔۔۔ ہاں میں گھوڑی پہ قابو رکھوں گا!”
چچا مُسکرا دیئے۔ وہ میرے ابا اور چچا کے دوست اور، یوں کہوں کہ جاں نثار ساتھی تھے، تو بھی مبالغہ نہ ہو گا۔
‘نُکری’ ایک متانت کے ساتھ اُس پگڈنڈی کی طرف چل پڑی جس جانب چچا کبیر علی خاں سیال کا ڈیرہ تھا، میں نے سختی سے اُس کی باگیں مغرب کی طرف جانے والے صحرائی راستے کو کھینچیں تو وہ بغیر مزاحمت کے اُس جانب مُڑ گئی۔ میری منزل اسی صحرا میں کوس بھر کے فاصلے پر واقع وہ گاؤں تھا جسے میں اپنا آبائی گاؤں کہتا ہوں۔ میں نے گھوڑی کو جنوب کی طرف تھل کے گرم ٹیلوں کے درمیان لیٹی سیاہ پکی سڑک کے کنارے کنارے کچے راستے پر ڈال دیا۔ نُکری کے سُموں میں نعلیں نہ تھیں جس وجہ سے اُسے پختہ سڑک پہ دوڑانا مناسب نہ تھا۔ علاقے کے با حیثیت دہقان گھرانے کے طور پر ہمارے آفتاب کو غروب ہوئے عرصہ گزر چکا تھا اور اب گھوڑے پالنا ہماری معاشی حیثیت سے باہر کا کام تھا لہٰذا نُکری جتنی توجہ کی مستحق تھی، اتنی توجہ اُسے مل نہ سکی تھی۔ اب بھی اسے جو راسیں ڈالی گئی تھیں، یہ شہسواری والی قیمتی راسیں نہ تھیں بلکہ یکے والے گھوڑوں کی سی سستی راسیں تھیں اور روانگی سے پہلے کھانے میں بھی نُکری کو گُڑ اور گیہوں کے بجائے ‘کَھل’ اور بھوسہ کھلایا گیا تھا۔ انہی عسرتوں نے شدید ضرورت کے با وجود نُکری کو نعلوں سے محروم رکھا تھا۔ نُکری ہماری اور چچا کبیر علی خاں سیال کی سانجھی تھی۔ جو سفید پوش زمیندار اپنی غربت کے باعث گھوڑے نہ پال سکیں لیکن شوق کے ہاتھ مجبور ہوں، وہ اپنے جیسے کسی زمیندار کے ساتھ گھوڑا یا گھوڑی سانجھے پہ پال لیتے ہیں۔ پنجاب کی صدیوں پُرانی روایت ہے کہ جہاں بہت قرابت داری ہو لیکن رشتے داری نہ ہو سکے تو وہاں گھوڑیاں سانجھی کرلی جاتی ہیں۔ یہ گھوڑی ایک سید اور ایک سیال کے درمیان دوستی کی ایک غریبانہ سی علامت تھی۔ وہ چچا کبیرعلی خاں کے ڈیرے پہ بندھی رہتی تھی جہان بہتر سبز چارہ ملتا لیکن جب کبھی مجھے چاہیے ہوتی، اُن کا بیٹا ہمارے یہاں چھوڑ جاتا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ اسے سرپٹ نہ دوڑاوں کیونکہ میں ننگی پیٹھ سواری کررہا تھا۔ عربوں میں ننگی پیٹھ گھڑ سواری شجاعت کی علامت سمجھی لیکن یہاں سب پر عیاں تھا کہ نُکری کی پیٹھ پر زین نہ ہونا سوار کی عسرت اور تنگی کی علامت تھی۔ ابھی مہینہ بھر پہلے تک اس پر مضبوط ‘رسالے آلی سپاٹ’ ہوتی تھی جس کی گہری سُرخ رنگت گھوڑی کے نقرئی رنگ پر بہت اچھی لگتی تھی لیکن ایک شام، سیالوں کی آپس کی کسی دشمنی کے شاخسانے میں پولیس آ دھمکی چچا کبیر کے بڑے بیٹے کو گرفتار کرنے۔ وہ اپنے دو کم سن بھائیوں کو ساتھ لے کر گھوڑی پہ سوار ہوا اور ٹیلے سے اُتر کر میدانوں کی طرف اسے سرپٹ دوڑانے لگا۔ پولیس کی ویگن دریا کنارے تک تو اس کا تعاقب کر سکی لیکن پھر وہ پایاب پانیوں کو عبور کرکے ‘بیلے’میں روپوش ہو گیا۔ وہ گرفتاری سے تو بچ گیا لیکن اس جھمیلے میں وہ رسالے والی زین ٹوٹ گئی۔ اب سپاٹ خریدنے کی باری میری تھی، جو مَیں نہ خرید سکا تھا، سو اب اپنے تئیں تسلی دے رہا تھا کہ ‘کوئی بات نہیں، پرانے عرب اور تُرک شہسوار بھی ننگے پیٹھ سواری کرتے تھے!’
میری منزل۔۔۔ جسے میں اپنا آبائی گاوں بتا رہا ہوں۔۔۔ قریب آرہا تھا۔ گاوں کا نام بھی وہیں کے ایک بلوچ سردار کے نام پر تھا۔ تو ہم اسے کوٹ نیازی خان بلوچ کہیں گے۔ مرحوم نیازی خاں بلوچ کے زمانے میں یہاں معاشی اور زرعی طور پر دو ہی بڑے اور معزز قبیلے تھے، بلوچ اور سیال، جبکہ روحانی طور پر موقر گھرانا سید جلال شاہ بخاری کا تھا۔ وہ ایک سید بزرگ تھے، خدا جانے کیا پیشہ تھا ان کا۔ میرا خیال ہے کہ پیری فقیری ان کا مشغلہ اور کھیتی باڑی ان کا پیشہ تھا۔ بلوچ بھی زراعت پیشہ تھے لیکن ماہر شُتر بان اور اُونٹوں کے پالنے والے تھے۔ بلوچوں کے اونٹ ایک زمانے میں پوری روہی اور ساندل بار میں سب سے ذیادہ مانگ والے اُونٹ تھے۔ بار کے علاقوں میں “باری” اونٹ کی مانگ تھی جو کہ باربرداری کے لئے موزوں تھے۔ بلوچوں کے اونٹ “تھلوچڑ” کہلاتے تھے اور لمبے سفروں کےلئے مشہور تھے۔ انگریز حکومت اپنے سرکاری ملازموں مثلاً تھانے داروں، فوجیوں، ہرکاروں اور دیگر متعلقہ کاموں کے لئے بلوچوں سے اونٹ لیا کرتی تھی جس کی وجہ سے روہی اور ساندل، دونوں علاقوں میں بلوچ بہت با اثر لوگ تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے زمانے میں ان کے اونٹوں کو “کیمل کور” میں شامل کر کے میسو پوٹیمیا تک بھیجا گیا۔ ان میں پٹے پر لئے گئے اونٹ جب فوجی یا پولیس کی خدمات کے دوران مر جاتے تو ان کی دُم کاٹ کر مالک کو دے دی جاتی جسے ایک متعلقہ دفتر میں جمع کروانے پر اس مالک کو اونٹ کی قیمت مل جاتی تھی۔ بابا کھیڑے خاں بلوچ نے ایک دلچسپ حکایت اس بابت سُنائی تھی۔ اُن کا ایک نوسرباز اور چوری ٹھگی پیشہ چچا ایک دفعہ آس پاس کے چند دیہاتوں سے رات کے اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر کوئی درجن بھر اُونٹوں کی دُمیں کاٹ کر فرار ہو گیا لیکن ازالے کے دفتر میں کسی گورے افسر کی حاضر دماغی سے پکڑا گیا، بیچارے کی خوب درگت بنی۔
اس گاؤں کے بلوچوں میں بڑے ماہر شُتربان سپاہی پیدا ہوئے۔ بابا چراغ علی خاں رائل انڈین آرمی سروس کور میں شُتربان سپاہی تھے اور اُن کے اعزاء و اقارب میں بابا فیض احمد خاں اور مرید حُسین خاں بھی برٹش انڈین آرمی کے پُرانے شُتر بان تھے اور مصر، میسوپوٹیمیا اور فرنٹئیر کے محاذوں پر ساربانی کی مہارت کی داد انگریزوں سے بھی پا چُکے تھے۔ ان کی صحبت بلکہ ان سے قریبی تعلق نے سید جلال شاہ کی اولاد میں سید زادوں کو بھی شُتربانی کے شوق میں مبتلا کیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں چراغ علی خاں، سید امیر حیدر شاہ کو اپنے ہمراہ رائل انڈین آرمی سروس کور لے گئے اور انہیں شُتر بان سپاہی کے طور پر بھرتی کروا دیا۔ دادا امیر حیدر شاہ کی تقلید میں ہمارے خاندان میں بڑے چچا جان کے بعد شُتر بان تو کوئی نہ بنا البتہ سپاہی درجن بھر پیدا ہوئے۔
میرا خیال ہے کہ مجھے بلوچوں کی شُتر بانی پہ اجارہ داری کی آخری مثال بیان کر کےآگے بڑھنا چاہیئے۔ یہ بھی اسی لئے ضروری ہے کہ تھل، روہی اور بار کی ثقافت میں سرائیکی بولنے والے بلوچوں کے اونٹوں کا ایک خطیر حصہ ہے۔ یہ لوک گیت اس کا ایک اظہار ہے جو پنجابیوں میں مشہور ہے:
‘نی اُٹھاں والے ٹُر جان گے، پچھے لبھدی پھریں گی نمانی،
نی سسیئے جاگدی رئیں!!’
آبادکاری کے دنوں میں جب سیالوں، کھرلوں اور دیگر جاٹ ذاتوں کو زمینیں دی جانے لگیں اور وہ ساندل بار کے وسیع رقبوں کے مالک ہونے لگے تو ایک بلوچ سردار بابا بہادر خاں ایک روز بڑے غُصے میں انگریز کمشنر (غالباََ کیپٹن پوپہیم ینگ) کے پاس پہنچ گیا؛
“صاب بہادر! اب دیکھنا تمہارے ہرکارے اور سپاہی بھینسوں پر سوار ڈاک لایا کریں گے”
گورا صاحب چونکا تو بابا بہادر خاں نے کہا کہ اگر بلوچ شُتر بان ساندل کا علاقہ چھوڑ کر تھل کو لوٹ گئے تو تمہارے لئے اونٹ فراہم کرنے والا کوئی نہ ہو گا!! انگریز افسر نے بابا بہادر سے وعدہ کیا کہ سمندری کے علاقے میں بلوچوں کو زمینیں الاٹ کردی جائیں گی لیکن اس کے فوراََ بعد سرکاری شُتر پال اسکیم بھی شروع کر دی گئی تاہم اس اسکیم پر بھی بلوچ شتر بانوں کی اجارہ داری رہی۔
کوٹ نیازی خاں بلوچ جونہی قریب آرہا تھا، گھوڑی کے قدم تیز ہو رہے تھے۔ شاید میری طرح اُس کے بھی بچپنے کی یادیں اس بستی سے جُڑی تھیں۔ میرا تو یوں کہوں کہ پورا بچپن کا زمانہ اس بستی کی آغوش میں گزرا تھا۔ لگ بھگ آٹھ دس سال نوکری چاکری اور دو چار سال تعلیم کے جھمیلوں میں بڑے شہروں کی خاک پھانکنے کے بعد میں واپس گاؤں لوٹا تھا لہٰذا یادوں کی مہربان خوشبو مجھے دوبارہ مدہوش کر کے اس بستی کی طرف کھینچ رہی تھی۔ کون جانے وہ عرصہ اس گاوں میں مَیں نے کن مزوں میں گزارا، دُنیا کتنی حسین اور رہنے کے لئے کتنی سادہ جگہ تھی اس گاوں میں!!
یہاں ہمارے دو طرح کے اقارب رہتے تھے۔ ایک تو وہ جو دادا ابا کے دیگر بھائیوں کی اولادیں تھیں دوسرا یہاں کے ایک دو بلوچ گھرانے جن سے ہمارے بڑے بوڑھوں کے بہت قریبی تعلقات اور بھائی چارہ تھا جبکہ یہاں ایک نو مسلم گھرانا میرے نزدیک ہمارا سب سے قریبی رشتےداروں کا گھرانا تھا۔ دادا کے چچا شاہ چراغ نے بنگال میں نوکری کے دوران ایک ہندو بنگالن سے شادی کی اور اُس کے یتیم بھانجے کو گود لے لیا۔ اُس یتیم بھانجے کا نام تو جگدیش سے بدل کر دینوُ رکھ دیا گیا تھا لیکن مَیں اُن کا تذکرہ اُس نام سے بھی کرتا ہوں۔ جگدیش کے نام سے مجھے اپنے پردادا کے زمانوں کی خوشبو آتی ہے۔ بابا جگدیش کی لڑکیاں جنہیں میں پھوپھیاں کہا کرتا تھا- مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ وہ میری پھوپھیاں ہیں-اُن کے بیٹے اور اُن کی بیوی، سب مجھے بے تحاشہ پیار کرتے تھے۔ میری سگی پھوپھیاں، جن کے ہاتھوں میں مَیں پلا بڑھا تھا، اکثر یہاں آئی رہتی تھیں۔ حتیٰ کہ جب وہ ہمسائے میں چچا گُلن شاہ کے گھر چلی جاتیں، میں تب بھی یہیں رہتا۔ میں چار یا پانچ برس کا تھا لیکن ان ساری پھوپھیوں کو میری شادی کی بہت جلدی تھی۔ وہ اکثر مجھے گھیر لیتیں اور تھالی بجا کر شادی کے گانے شروع کر دیتیں۔ چچا گُلن شاہ کی جواں سال بیٹی نموں اس ناٹک میں میری دُلہن بنتی۔ پھوپھی پٹھانی اور میری سب سے بڑی پھوپھی جسے سب پیار سے ‘بنتو’ کہتے تھے، تھالی بجا کر گانا شروع کردیتیں:
“اج پہلی واری مَیں قربان زاری
ذکی نکڑا جیہا، نموں جوان ساری!!”
اور میں شرمانے لگ جاتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شادی بیاہ پہ لڑکیوں کے ناچنے اور گانے کی ممانعت شریف سے شریف گھرانوں میں بھی نہ تھی۔ پھوپھیوں نے میری شادی کے اتنے گیت گائے کہ اب میرا شرمانا ایک چڑ سے بدل گیا تھا۔ جب بھی اُن کی محفل میں مجھے کاجل لگا کے بٹھا دیا جاتا، مَیں سمجھ جاتا کہ میری شادی کا سوانگ ہونے والا ہے اور بڑی پھوپھیوں کے گانے اور نموں کے بوسے میرے گال سُرخ کردیں گے۔ ایک دن جب ان لڑکیوں نے میرے گرد روائتی لوک ناچ شروع کردیا تھا مَیں بھاگا، “بتاتا ہوں چچا ضمیر کو، کُتیائیں ہر وقت ناچتی رہتی ہیں!!” میں نے اپنے بچگانہ غضب میں کہا تو سب بھاگیں مجھے بہلانے پھسلانے کو۔ اُن کی زندگی میں تفریح کا یہی واحد ذریعہ تھا۔ ٹیلی ویژن کا وجود یہاں نہ تھا، اور ریڈیو بھی مردوں کے تصرف میں ہوتے تھے۔ یہ مواقع بھی تب ملتے جب دادا، سارے چچا اور بابا جگدیش وغیرہ گھرپر نہ ہوتے۔ خیر، نموں نے مجھے چار آنے سکہ اپنے دوپٹے کے پلوُ سے کھول کے دیا “جاؤ بکھے خاں کی دُکان سے مرونڈا کھالینا، میرے اچھے منگیتر!” وہ خوشامد سے کہتی اور میں چونی کی سکہ لے کر اُسے ایک پار پھر کُتیا کا لقب دے کر فرار ہو جاتا۔ اگرچہ یہ گھرانا ہم سب میں سب سے غریب اور مفلس تھا مگر بابا جگدیش، یعنی بابا دینُو کے گھر میری دلچسپی کی چیزیں چچا گُلن شاہ کے گھر یا بکھے خاں (بختیار خاں) کی دُکان کی نسبت زیادہ تھیں۔ مثلاََ جب بابا دینُو کی بیوی، دادی خاتوُں بی بی چکی پہ نمک پیسنے بیٹھتیں تو میں پاس بیٹھ کر معدنی نمک کے سُرخ ڈھیلوں کو پس کر سفید نمک میں بدلتے دیکھتا اور بہت لطف اندوز ہوتا تھا۔ کئی دفعہ ضد کرتا کہ میں چکی پیسوں گا یا پاٹ کے درمیانی سوراخ سے نمک کے ڈھیلوں کی دھانک دوں گا لیکن ہر دفعہ ڈانٹ پڑتی۔ دادی خاتوں بی بی مجھے ایک گالی دیتیں جو آج مجھے بہت پسند ہے؛ وہ جب مجھے “کُتا ولَیت دا” کہتیں تو مجھے اس کا مفہوم قطعی سمجھ میں نہ آتا، اب آ کے اندازہ ہوا ہے کہ اُن انگریز ی نسل کا (ولائتی) کُتا اُن انگریز بیزار بوڑھوں کے نزدیک زیادہ رزیل ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہ گالی عام مستعمل تھی۔ اس کے علاوہ دادی کے چرخہ کا تنے کا وقت ہوتا تو وہ چرخہ نکال کر صحن میں رکھتیں اور میں پر وقت اس تاڑ میں رہتا کہ کسی لمحے چرخہ مجھے اکیلا پڑا مل جائے جبکہ دادی قریب نہ ہوں۔ مجھے اُس کے کاتنے کے عمل میں تو کوئی دلچسپی نہ تھی البتہ میرے دل میں یہ خواہش تھی کہ میں اس کو اُلٹا کر اس پر چڑھ بیٹھوں جو کہ اس عمل سے میری بائیسکل بن جائے گی۔ ایک پہیہ تو چرخے کے ہوتا ہی تھا، مکمل بائیسکل بنانے کے لئے دوسرے پہیئے کا لگانا ایک بچے کی قوتِ تخیل کے آگے کچھ مشکل نہیں! ایک دن یہ موقع مل ہی گیا لیکن تھوڑی ہی سواری کے بعد دادی آ دھمکیں اور مجھے ‘سائیکل’ چھوڑ کے بھاگنا پڑا۔
اس کے علاوہ وہاں بھی ہمارے اپنے گھر کی طرح گارے کے لیپ والے کچے مکان تھے تو ان کی لپائی کا کام جہاں خواتین کے لئے ایک مصروف دن ہوتا تھا وہاں میرے لئے مزے کی سرگرمی تھا۔ پہلے تو وہ دریا کی جانب، تھال، پراتیں اُٹھائے روانہ ہوتیں جہاں سیلابی گزرگاہ میں بننے والے تالابوں کی تہہ سے چکنی، سیاہی مائل مٹی نکالنی ہوتی تھی۔ صحرا سے اُتر کر، زرخیز میدانوں، کھجور کے ننھے ننھے نخلستانوں اور کھلیانوں میں سے گزر کر ان جھیل نما تالابوں میں ڈبکیاں لگانا ہمارے لئے کسی ضیافت سے کم نہ ہوتا۔ بابا جگدیش کے لڑکوں میں سے کوئی نہ کوئی، عموماََ چھوٹا چچا ساتھ ہوتا جو خواتین کی مدد کے علاوہ گہرے پانی میں میری نگہبانی بھی کرتا۔ جب چکنی مٹی گھر پہنچا لی جاتی تو لپائی کے عمل سے پہلے گارا بنتا۔ گارے میں کھیلنے کا لُطف ہر موسم میں یکساں تھا اور یہی موقع ہوتا تھا جب کافی سارے مٹی کے کھلونے بنانے کا موقع بھی میسر آتا تھا۔
پھرجب چھوٹا چچا اپنے گدھے پہ بوریا کستا اور درانتی تھامے گدھے پہ سوار ہوتا تو میں بھی ساتھ جانے کے لئے بضد ہو جاتا کیونکہ یہ اعلان تھا چارہ کاٹنے کے لئے دریا کنارے جانے کا۔ ایک دن جیٹھ ہاڑھ کی چلچلاتی دوپہر تھی، میں چچا کے گدھے پر سوار اُن کی گود میں بیٹھا سواری سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بابا دینو کا یہ منجھلا بیٹا چچا اختر مجھ سے زیادہ لاڈپیار رکھتا تھا۔ اُونچے پیڑوں کی ایک لمبی قطار کے نیچے ہم جنوب کی طرف گامزن تھے۔ گدھے کے پالان یعنی ‘واہنگی’ کے ڈھیلا ہونے کی وجہ سے چچا اپنا توازن درست کرنے کے لئے دائیں بائیں کروٹیں بدل رہے تھے۔ ہمارے دائیں جانب، مغرب کی طرف صحرائے تھل کے سفید چمکتے ہوئے ٹیلے اور نیلاآسمان واضح تھا جبکہ بائیں طرف گھنا جنگل تھا جس کی وجہ سے دریا کی جانب کا علاقہ واضح نہ دِکھتا تھا۔
“چچا!” میں نے اچانک کسی خیال کے زیرِاثر اُنہیں مخاطب کیا
“جی بیٹا!” اُنہوں نے گدھے کے چھڑی رسید کرتے ہوئے کہا۔
”
چچا کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ہوا میں اُڑیں؟”
خُدا جانے یہ خیال میرے ذہن میں اُسی لمحے آیا یا پھر بنی نوعِ انسان کی ہزاروں سالہ دیرینہ خواہش کی بازگشت تھل کے اس بچے کی صورت میں بھی اپنے اظہار کے لئے فطرت کے ہاتھوں بے چین تھی۔
”
ہاں بیٹا! اب تھوڑی دیر میں ہمارا گدھا بھی طیارے کے مانند ہوا میں اُڑے گا!” چچا نے سنجیدگی سے گہا۔
میں دیر تک انتطار کرتا رہا کہ کس لمحے ہم دونوں چچا بھتیجا گدھے پہ سوار ہوا میں اُڑ جائیں گے۔ جب بے کلی ہوئی تو اسی معصومیت سے پوچھا،
”
چچا! ہم کب اُڑیں گے؟”
”
اُس پگڈنڈی سے۔۔۔ ”
چچا نے چھڑی سے سامنے کے ایک موڑ کی طرف اشارہ کیا۔ میں بے چینی سے اُس پگڈنڈی تک پہنچنے کا انتطار کرنے لگا۔ ہوا میں پرواز کرنے اور پرندوں کے پاس سے گزر کر نیلے آسمان کی بلندیوں کو چھو لینے کا خیال مجھے مست کئے جا رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ بابا دینو ُ کے گھر کے اوپر سے گُزروں گا تو پھوپھی پٹھانی، پھوپھی بنتو اور چھوٹی پھوپھیاں مجھے دیکھ کر حیران رہ جائیں گی۔ اسی اثناء میں وہ پگڈنڈی آن پہنچی۔ میں نے ‘واہنگی’ کے بوریئے کو مضبوطی سے جکڑ لیا اور میرا ننھا سا دل تیز دھڑکنے لگا۔ یہ پگڈنڈی عام رستے سے ذرا اونچی تھی اور اس کے ایک طرف آب پاشی کا چھوٹا سا کھال بھی گزرتا تھا۔ گدھا ذرا سا تیز ہو کر رُکا، چچا نے اُس کی دُم کے نیچے نازک مقام پر چھڑی چبھوئی تو گدھے نے ایک زوردار چھلانگ لگائی۔ چچا، مَیں اور گدھے کی ‘واہنگی’ پلک جھپکنے میں کھال میں گرے پڑے تھے اور گدھاپاس ہی بھولا بن کے سر نیہوڑائے کھڑا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ آدھا بوریا اُس کے جسم سے بندھا تھا، آدھا ہماری ٹانگوں سے اُلجھا تھا۔ میں نے رونا شروع کردیا۔ چچا نے بمشکل مجھے دلاسہ دیا۔ میرے رونے کی وجہ وہ کبھی نہ سمجھ پائے۔
بابا جگدیش کے گھر میں ایک اور یادگار موقع وہ ہوتا تھا جب سال ششماہے میں، عموماََ چیت کی آخری جمعرات کو کبھی کسی کی کوئی منت مراد برآتی اور پیر ولائیت شاہ ؒکے دربار پر مُرغا چڑھاوا کرنے کا اہتمام ہوتا۔ خواتین و حضرات کا ایک قافلہ گھر سے روانہ ہوتا جس میں کسی ایک مرد یا خاتون کے سر پر نر مُرغ کے سالن کی بڑی ہانڈی دھری ہوتی، کسی دوسرے کے سر پر چنگیر بھر روٹیوں کا ‘بارِامانت’ ہوتا۔ سب ہنستے، گاتے، چہچہاتے پیدل پیدل دربار پیر ولائیت شاہ ؒ کی طرف روانہ ہوتے۔ مرد آگے آگے، خواتین جن میں برقع پوش اور نیم پردہ نشین بھی تھیں، پیچھے پیچھے ہوتیں۔ بابا جگدیش کی لڑکیاں پردہ نہ کرتی تھیں۔ آدھے گھنٹے کی پیدل مسافت کا یہ عرصہ میرے لئے نئی دلچسپیاں لئے ہوتا۔ مثلاََ راستے میں “جال” کا کہنہ سال پیڑ جس پہ اتنی بڑی آکاس بیل تھی کہ میں دیدے پھاڑ پھاڑ کر اسے حیرت اور خوف کے عالم میں دیکھتا رہتا۔ یا پھر ایک پُرانا اسکول جس کی بڑی بڑی کھڑکیوں میں کوئی شیشہ نہ تھا اور اس کی عمارت کیکر کے دیو ہیکل سیاہ پیڑوں سے گھری تھی۔ البتہ میں یہ سوچتا بھی نہ تھا کہ میں کبھی اس اسکول میں پڑھوں گا۔ دربار ایک اونچے ٹیلے کی چوٹی پہ تھا۔ چڑھائی چڑھتے ہوئے میں بھاگ کرمردوں سے بھی آگے نکل جاتا لیکن دادی اماں پھر دھتکار پھٹکار کر واپس بُلا لیتیں۔ دربار پیر ولائیت شاہ ؒ پر تو میلے کا سا سماں ہوتا۔ کھنکھناتی مٹی اور لکڑی کے رنگارنگ کھلونے، بھانت بھانت کی مٹھائیاں اور پکوڑے بنانے والے حلوائی اور ان کی بساطیں، اُونٹ گھوڑے اور دُلہوں کی طرح سجائے ہوئے دُنبے، بندر تماشے والے مداری جن کے ساتھ کبھی کبھار ریچھ کا ناچ دکھانےوالے ‘قلندر’ بھی ہوتے۔ چوڑیوں کے بھرے چھابے سر پر اُٹھائے چوڑیاں بیچنے والی سفید دانتوں والی کالی عورتیں جن کے جسم بہت توانا ہوتے تھے، اکثر قافلے کی مستورات میں گھِر جاتیں۔ کئی دفعہ میں ضد کر کے ایک گجرا اپنی کلائی میں بھی چڑھوا لیتا۔ اگرچہ مجھے چار پانچ سال کی اس عمر سے ہی شوق تھا کہ مجھے مرد کہا اور سمجھا جائے، پھوپھیاں اکثر میرے ساتھ لڑکیوں جیسا سلوک کرتی تھیں۔ مجھے گجرے پہنانا اور میرے ماتھے پہ بندیا لگانا اُنہیں بالخصوص مرغوب تھا۔ بد قسمتی- یا خوش قسمتی سے چچاؤں میں سے کسی کا کوئی بچہ میرے جیسا لال گلابی گالوں والا نہ تھا لہٰذا جو سُرخی غازہ اور سنگھار میرا ہوتا تھا، وہ کسی بچے کو نصیب نہ ہوا۔ بنتو پھوپھی کبھی کبھار میرا دل رکھنے کو فونٹین پین سے میرے لمبی لمبی مونچھ بھی بنا دیتیں۔ وہ لڑکیوں والے ہائی اسکول میں جاتی تھیں جو ہمارے گاؤں سے کافی دور تھا۔
اگرچہ زندگی اپنے گاؤں میں بھی دلچسپ تھی لیکن میرا جو وقت یہاں گزرتا، میں اُس کے ایک ایک لمحے سے لُطف اندوز ہوتا۔ منجھلے چچا، چچا اختر نے مجھے چولستان کی لوک داستان “ادھڑوُ مدھڑُو کی کہانی ” یہیں ایک ٹھنڈی میٹھی رُت کی رات میں کھُلے آسمان تلے چارپائی پر لیٹے ہوئے سُنائی تھی۔ صحرا میں تارے معمول سے حجم میں بڑے، زیادہ روشن اور تعداد میں بھی زیادہ نظر آتے تھے۔ یہاں راتوں کو گیدڑوں کے غولوں کی آوازیں ہمارے گاؤں کی نسبت زیادہ واضح اور بلند سُنائی دیتی تھیں اور رات کا سناٹا بھی یہاں زیادہ گھمبیر تھا۔ بابا زوار شاہ کے گھر کا آنگن تو اتنی بلندی پر تھا کہ گویا یہاں سے آسمان چھُو لو! مجھے یہ گھر بہت پسند تھا۔
بلوچوں کے ڈیرے پہ اگرچہ زیادہ تر بڑے بوڑھے ہی مل بیٹھتے تھے اور ہم بچوں کی دلچسپی کی کوئی چیز وہاں بظاہر نہ تھی لیکن بابا جگدیش کے گھر کے مقابلے میں یہاں گالم گلوچ اور کیچڑ میں کھیلنے کی زیادہ آزادی تھی جو کہ بلوچوں کے لڑکوں اور اُن کے چوڑے حوض والے نلکے کی بدولت میسر تھی۔ یہاں بلوچوں کے مویشی دن بھر پانی پیتے رہتے تھے اور حوض کے ساتھ ہی کیچڑ اور گندے پانی کا ایک بڑا ذخیرہ تھا جس سے پانی رِس رِس کر کچے راستے اور کھیتوں کو سیراب کرتا تھا۔ اس ذخیرے کے گرد بانس کی نَے کی گھنی باڑ خود رو بوٹیوں کی طرح اُگ آئی تھی۔ پانی میں سرکنڈے تیرانے، بانس کے پتوں سے سبز مکڑا –یا عابد ٹڈا- پکڑ کر اُس سے ایک زندہ کھلونے کا کام لینے اور نلکے پہ جی بھر کے نہانے کی تفریحات بلوچوں کے ڈیرے پر بلا روک ٹوک میسر تھیں جن میں چچا گلن شاہ کا بیٹا پھیمی میری مدد اور سرپرستی کرتا تھا۔ اُس نے مجھے ماں بہن کی چند ننگی گالیاں بھی سکھائیں جو میں نے ایک دفعہ بڑے چچا پر آزما کر یادگار چھترول بھی وصول کی۔
بکھے خاں یعنی بختیار خان بلوچ اُن دنوں فوج سے تازہ تازہ پنشن پا کر آئے تھے اور اُنہوں نے اپنے ڈیرے پر ہی ایک چھوٹی سی دُکان بھی بنا لی تھی۔ یہاں سے گُڑ اور چاولوں کا مرونڈا، ریوڑیاں، گُڑ کی “ٹانگری”، بُھنے ہوئے چنے، مکئی کے پھُلے اور “گاں آلی مچھی” جیسی کئی میٹھی اور مزیدار چیزیں ملتی تھیں۔ بابا جگدیش اکثر تہمد کے پلُو سے چَوَنی یا اَٹَھنی نکال کر مجھے انعام کرتے تو میرا عیش ہو جاتا۔ پھر یہاں اکثر کوئی راہ چلتا جوگی مسافر بیٹھا کسی نہ کسی تماشے، مداری یا سوانگ سے گاؤں والوں کو تفریح بہم پہنچا رہا ہوتا تھا۔ ریچھ کے تماشے والا تو بلوچوں کے مویشیوں کی قطاریں دیکھ کر قطب ہوجاتا اور دو چار روپے انعام، معہ کچھ گیہوں، مُوٹھ یا چنے کے، لئے بغیر ہرگز نہ ٹلتا۔ مجھے ریچھ سے بہت ڈر لگتا تھا لیکن میں یہ منظر دیکھتا ضرور تھا۔
یہی وہ مزے تھے کہ میرا دل اپنے گاؤں کی نسبت یہاں زیادہ خوش رہتا اور پرندوں کے مانند خود کو آزاد محسوس کرتا۔ یہاں تک کہ میں بیمار بھی پڑتا تو ضد کرتا کہ کوٹ نیازی خان بلوچ والے حکیم اللہ دتہ کے پاس لے جائیں تو بھلا ہوں گا ورنہ ہرگز نہیں! دادی اماں پھر دوپہر دیکھتیں نہ رات، لاری نہ ملتی تو مجھے اُٹھائے پیدل چل پڑتیں۔ حکیم مرحوم مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور میں اُن کے علاج سے بھلا چنگا بھی ہو جاتا تھا۔ ابا جان فوج سے ریٹائر ہو کر گھر آئے، مجھے میرے والدین اور بھائیوں سے متعارف کروایا اور اسکول بٹھایا گیا تو یہ مزے ختم ہو کر رہ گئے اور کوٹ نیازی خان بلوچ آنا جانا موقوف ہو گیا۔ حتیٰ کہ ایک مُدت بعد جب ایک مزارعہ کوٹ نیازی خاں سے پیغام لے کرپہنچا کہ دادا امیر حیدر شاہ فوت ہو گئے ہیں تو میرا پہلا ردِعمل خوشی کا تھا اور میں مُنہ سے ڈھول بجا کر ناچنے لگا تا آنکہ پھوپھی بنتو کے ایک زناٹے دار تھپڑ نے مجھے سنجیدہ و رنجیدہ کر دیا۔
آج جب گھوڑی کی باگ کوٹ نیازی خان بلوچ پہنچ کر بابا جگدیش کے گھرکی طرف موڑی تو اندیشوں اور خیالوں کا تانتا بندھا تھا، کون کہاں ہو گا، کون کس تپاک سے ملے گا۔ دادی خاتوُں بی بی، بابا زوار شاہ، بابا امیر حیدر شاہ، بابا علی محمد خاں بلوچ اور بہت سے بزرگ جو فوت ہو چکے تھے، اُن کے بغیر گاؤں کا ماحول یقیناََ بدل سا تو گیا تھا لیکن یہاں زندگی اب بھی سادہ تھی، خلوص اور والہانہ پن کے ساتھ جہالت اور توہم پرستی کے بھی وہی انداز ہوں گے۔ انہی سوچوں میں گُم تھا کہ ٹیلے کی ڈھلوان سے اُترتے ہی ایک جانی پہچانی آواز نے مُجھے چونکا کر متوجہ کیا،
”
ابے او بِجُو کی اولاد!!”
یہ آواز چچا گُلن شاہ کی تھی ! لہجہ خالص اُردو بانوں سے ملتا جُلتا جو اُنہوں نے اپنے فیض آباد (لکھنؤ) سے مہاجرت کر کے آنے والے سُسرالیوں سے سیکھا ہوگا اور یوں بھی میں جانتا تھا کہ مجھے اس لقب سے پُکارنا خاص اُنہی کا انداز تھا۔ میں بائیں ہاتھ میں باگ تھامی اور دائیں ہاتھ سے اُنہیں چُست سا سلیوٹ کیا،
“سلام چچا جان!” وہ ٹیلے سے اُتر رہے تھے۔ باریک کپڑے کا لمبا سفید چولا پہن رکھا تھا، ہاتھ میں قد آدم عصا تھا اور اُن کی لمبی سفید ڈاڑھی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ میرے سلیوٹ کے جواب میں وہ بھی اپنا دایاں ہاتھ اپنی سفید ابرُو کے بیرونی کونے تک لے آئے۔ اُن کے ہاتھ کی دو اُنگلیاں غائب تھیں جو کہ اکہتر کی لڑائی میں کسی ہندوستانی فوجی کے سینے کا تمغہ بن گئی تھیں۔ اُنہوں نے مجھ سے اماں ابا کی خیریت دریافت کی، اتنے لمبے عرصے تک ددھیالی گاؤں کا چکر تک نہ لگانے پر مجھے اُلو کا پٹھا قرار دیا اور بہت سی دعائیں دے کر چلتے بنے۔ وہ فوج چھوڑنے کے بعد پیری فقیری کے مشاغل اپنا چکے تھے اور اب بھی نجانے کس لہر میں تھے۔
ڈھلوان سے راستہ بستی کی طرف اُترتا تھا، راہ پڑتے ہی پہلا گھر بابا چراغ علی خاں کا آتا تھا، میں نے گھوڑی پر بیٹھے ہی آسانی سے دیکھ لیا کہ بابا جی صحن کے درمیان میں کیکر کی ٹھنڈی چھاؤں تلے بیٹھے ایک سگریٹ کو حُقے کی نے کی مانند دبوچے اپنی پَون صدی پُرانی سپاہیانہ شان سے پئے جا رہے تھے۔ سامنے بابا جگدیش کے گھر کے پستہ قد چوبی دروازے سے چچا اختر نکلتے نظر آئے۔ میں سلام کرنے کے لئے گھوڑی سے اُتر آیا۔ وہ آگے بڑھ کے گلے ملے،
“اتنا لمبا ہو گیا ہے سُرخے!!”
مجھے سرتاپا دیکھ کر ہنسے اور میرا ہاتھ تھام لیا۔ منجھلے چچا ویسے ہی دھان پان تھے لیکن سر میں سفیدی آگئی تھی، چہرے پہ وہی بشاشت۔
“کہاں جا رہے ہیں چچا؟ میں تو آپ کے ہاں۔۔۔ ”
میں نے پوچھا تو انہوں نے میری بات کاٹ کر ہاتھ کے جھٹکے سے مجھے ہدایات دینا شروع کردیں،
”
گھوڑی کو وہاں باندھو، بکھے خاں کے ڈیرے پہ، اسے پانی پلاؤ اور پھر بابا چراغ علی خاں کے گھر آجاؤ جلدی سے، میں اُن کی عیادت کرنے جا رہا ہوں، جلدی آؤ، وہیں بیٹھ کر گپ ہانکتے ہیں!”
میں آگے بڑھ کر بختیار خاں کے ڈیرے پر پہنچا جہاں اُس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا، کمزور اور دُبلے مویشی وعلان کررہے تھے کہ خاں صاحب موصوف پر بھی تنگدستی آگئی ہے۔ میں نے گھوڑی کو ایک درخت سے باندھا، راسیں کھول دیں اور پانی کی چھاگل ایک گائے کے سامنے سے اُٹھا کر گھوڑی کے سامنے رکھ دی۔ وہ پانی پینے لگی تو میں نے شفقت سے تھوڑی دیراس کی ایال میں ہاتھ پھیرا اور پھر تیز قدموں سے بابا چراغ علی خاں کے گھر آ گیا۔
“آؤ بھئی، آؤ بھئی!”
بابا چراغ علی خاں نےاپنی چارپائی پہ بیٹھے بیٹھے ہی بانہیں پھیلائیں اور مجھے بڑے تپاک سے ملے۔
“تمہارا باپ تو اس گاؤں کا رستہ ہی بھول گیا ہے، چلو یہ بھی غنیمت ہے کہ آج تمہاری صورت میں اُسے دیکھ لیا”
وہ بڑی اپنائیت سے کہنے لگے۔
“تمہیں تو پتہ نہیں اس کا علم بھی ہے یا نہیں، کہ تمہارے بزرگوں سے ہمارا کیا رشتہ تھا!! تمہارے پڑدادا کو میں ماموں کہا کرتا تھا اور تمہارے دادا کی پہلی بیوی سردار خانم سے اُنہوں نے میرے ابا کے حُکم پر نکاح کیا تھا۔۔۔ ”
وہ سادگی سے کہنے لگے۔
”
بابا جی سب جانتا ہوں، تبھی تو ددھیالی گاؤں میں سب سے پہلے آپ سے مل رہا ہوں!”
میں نے مونڈھا کھسکا کر اُن کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ مسوڑھے نکال کر ہنس دیئے۔
“گھوڑی کو پانی پلالیا تُم نے؟”
چچا نے پوچھا میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“صفیہ! دیور کے لئے پانی لے آؤ، آج مُدت بعد آیا ہے، کھانا بھی دھرو چولہے پہ۔۔۔ ”
بابا چراغ علی خاں نے صحن کے کونے میں بیٹھی ایک جوان عورت سے کہا، پھر میری طرف رُخ موڑا،
“اچھا شہسوار منزل پہ پہنچتے ہی پہلے اپنے گھوڑے کو پانی پلاتا ہے، پھر خود پانی پیتا ہے”
اُنہوں نے ناصحانہ انداز میں اپنا ضعیف ہاتھ کھڑا کرکے کہا تو چچا اختر نے میری طرف یوں دیکھا گویا کہہ رہے ہوں کہ یہ غائت تھی میرے حُکم چلانے کی!
“بیٹا پگڑی بھی باندھا کرو! گھوڑے پہ ننگے سر بیٹھنا خلافِ ادب ہے!”
اُنہوں نے لگے ہاتھوں ایک اور نصیحت بھی کر دی۔
پھر بابا چراغ علی خاں نے اپنے دوسری جنگِ عظیم کے زمانے کے قصے چھیڑ دیئے، مزے کی گپ سُنائی۔ اس عمر میں بھی بلا کی حسِ مزاح تھی، خُدا جانے کتنی دیر گزر گئی ہنستے ہنساتے۔ اس گاؤں کی فضا میں پھر وہی جانی پہچانی آوازیں اور لب و لہجے جو میری بچپن کی سماعتوں سے مخصوص تھے، دوبارہ احساس میں زندہ ہوئے تو یوں لگا کہ میری زندگی میں بچپن اور اِ س عمر کے درمیان اتنے لمبے عرصے کا فاصلہ کبھی تھا ہی نہیں- بلکہ بابا چراغ علی خاں کی باتوں سے تو یہ احساس ہو رہا تھا کہ ہماری تاریخ میں کبھی تقسیم کا واقعہ بھی نہیں ہوا۔ وہی انگریز افسروں کی بد دماغیوں کی باتیں، رسالے کے گھوڑے، کیمل کور کے اُونٹ، توپخانے کے خچر، بانکےسکھ نوجوان، ہندو سیٹھوں کی مغرور لڑکیاں اور نجانے کیا کیا کردار اُن کی باتوں میں تھے۔۔۔ بابا جی کی صحت ساتھ دیتی تو میں سب قصوں کی جزئیات میں بھی جاتا لیکن میں نے اُن کے آرام کے پیش نظر اجازت مانگی اور چائے پی کر ہی چچا کے ہمراہ گلی میں نکل آیا۔ چچا اختر جس لاری پہ کنڈیکٹر تھے، اُس کے آنے کا وقت تھا، وہ تو سلام کہہ کر سڑک کی جانب اُترنے والے ٹیلے پر چڑھ گئے، میں یہاں سے بابا جگدیش کے گھر کی طرف آگیا۔
چھوٹی پھوپھی اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ بیٹھی اُبلے ہوئے آلو کھا رہی تھی۔ سب بڑے والہانہ ملے، پھوپھی نے میرا سر چوما، اُن کے میاں سن رسیدہ ہونے کے باوجود بڑے احترام سے ملے اور بچے تو مجھ سے لپٹ گئے۔ کھجور کے پتوں سے چھتے گئے چھپر کے نیچے جن جھلنگا چارپائیوں پر وہ بیٹھے تھے، یہ اُسی معیارِ زندگی کی غماز تھیں جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یہاں شاید وقت کی رفتار بہت کم تھی۔ میں بھی چارپائی پہ جگہ پا کر بے تکلفی سے بیٹھ گیا اور بے تکلفی سے اُبلے الو کی قاشیں اُٹھا کر کھانے لگا۔ چارپائی پہ سامنے بیٹھے ایک میزبان کو میں نہ پہچان سکاتھا۔ کناری گوٹے والے سیاہ جوڑے میں ملبوس گورے گندمی رنگ کی اس لڑکی کی دلآویز آنکھوں کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ نووارد مہمان کے بظاہر اجنبی ہونے اور پھر یوں ان سب میں گُھل مل جانے سے لُطف اندوز ہو رہی تھی۔ گھنی بھنویں اور ابروئیں واضح طور پر چغلی کھا رہی تھیں کہ ‘اجنبی میزبان’ بلوچ قبیلے سے ہے۔ میں اُن آنکھوں میں جھانکنے کے مختصر لمحے میں اپنی مسکراہٹ ضبط نہ کر سکا البتہ اسے اُن ہنسی قہقہوں میں چھپا گیا جو کہ پھوپھی کے میاں اور بچے میری فوجی قمیص پر پھبتیاں کستے ہوئے گاؤں کی فضا میں بکھیر رہے تھے۔ ہمارے گاؤں کے اکثر مفلوک الحال دیہاتیوں کی مفلسی کو بھی ہمیشہ سے فوجی سپلائی کے کپڑے لتے ڈھانپتے چلے آئے ہیں۔ عالمی جنگوں سے اب تک کتنے سپاہی ہو گزرے تھے لہٰذا فوجی کپڑا، جوتے، کمبل، مچھردانیاں،کوٹ اور جرسیاں ہم دیہاتیوں کی دسترس میں آنے والا سستا ترین متاعِ فقیر ہیں جس کے لئے کسی سپاہی بھائی بیٹے کو حُکم کرنے یا کسی فوجی ہمسائے کو دُعا دینے سے زیادہ کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ پھوپھی کی بکری بھی جس کا نام مجھے نازش بتایا گیا تھا، اس وقت چارپائی کے پائے سے جس رسی کے ساتھ بندھی تھی، وہ لڑاکا طیارے کے ڈریگ شوٹ کی سسپنشن لائن تھی اور اس کے عوض وارنٹ افسر منظور خان بلوچ کو چاند سا بیٹا عطا ہونے کی دعائیں ملی ہوں گی- بے چارے کے ہاں تمام لڑکیاں ہی پیدا ہو ئی ہیں۔ مجھ سے اماں ابا کے احوال پوچھے گئے تو میں نے ہر دو کے درمیان ہونے والی ایک فرضی لڑائی کا تازہ ترین قصہ سُنا کر سب کو خوب ہنسایا۔ وہ لڑکی بھی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش میں سُرخ ہوئے جا رہی تھی اور میں ہر بار نظریں چُرا کر اُسے دیکھتا تو وہ لجا کر اس سُرخی میں اور اضافہ کر دیتی۔
اس سے بات کرنے کی مبہم سی خواہش دل میں اُٹھی لیکن کیا کہتا- وہ برابر مسکرائے جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں پھوپھا نے درانتی اُٹھائی اور چارہ کاٹنے نکل گئے، اُن کا چھوٹا بیٹا اُن کے کندھے پہ سوار ہو گیا۔ پھوپھی تندور کی مرمت کرنے لگ گئیں۔ بڑا لڑکا مٹھُو میرے پاس بیٹھا مجھ سے باتیں کرتا رہا۔ اسی اثناء میں ہمسائے سے، یعنی بختیار خاں کے گھر سے کسی خاتون کے بولنے کی آواز آئی، مخصوص قسم کے نسوانی لہجے کی فریکوئینسی بتا رہی تھی کہ کسی کو کوسا جا رہا ہے۔
“اوہو! لو پھوپھی! میری ساس کا ہارن بج گیا، میں تو چلی!”
اُس لڑکی نے پھوپھی کی طرف دیکھ کر کہا اور دوپٹہ سنبھالتی ہوئی چل دی۔ اس کے چہرے پہ وہ مسکراہٹ اب بھی تھی۔
“پھوپھو!”
میں اُٹھ کر تندور کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور بڑے خوشامدی لہجے میں چھوٹی پھوپھی سے مخاطب ہوا۔
“یہ لڑکی کون ہے؟”
پھوپھی میرے لہجے کا تجسس بھانپ گئیں۔
“تیری ماں ہے!! میں سمجھ گئی تُو کیوں پوچھ رہا ہے- سوہنی ہے ناں، اس لئے!”
پھوپھی نے مصنوعی ناگواری سے کہا۔
“وہ تو ہے- بکھے خاں کی کچھ لگتی ہے؟”
میں نے اسی تجسس سے پوچھا لیکن پھوپھی سے ماں کی گالی سُن کے بھی باز نہ آیا۔ مٹُھو جو سات آٹھ برس کا ہوگا، اور انتہائی شریر لڑکا تھا، پاس بیٹھا سُن رہا تھا۔
“اوئے سناز نام ہے اس کا، بکھے خان کی بہو ہے!”
مٹُھو اونچی آواز میں بولا۔
“شہناز- نام کتنا پیارا ہے، جیسی خود، ویسا نام۔۔۔ ”
میں نے فلمی عاشقوں کے انداز میں سینےپہ ہاتھ رکھ کے کہا تو پھوپھی نے جُوتا اُتار کر مٹھو کی طرف پھینکا، وہ بھاگ نکلا۔
“مادر۔۔۔ سارے چھوٹے بڑے عاشق مزاج ہیں۔۔۔ ”
پھوپھی نے ہنستے ہوئے کہا تو میں نے مزید خوشامد کے انداز میں پھوپھی کے پاؤں چھو لئے اور دیر تک انہیں ادھر اُدھر کی باتوں میں ہنساتا رہا۔
پھر میں چچا گُلن شاہ کے گھر گیا۔ باجی نموں میکے آئی ہوئی تھی۔ اُس کے سر میں بھی چاندی آگئی تھی اور رنگت سنولا گئی تھی۔ مجھے بڑی اپنائیت سے ملی۔ اُس کا بیٹا تیرہ چودہ برس کا نوجوان تھا اور خوبصورت لڑکا تھا، مجھے ماموں کے طور پہ اُس سے متعارف کرایا گیا۔
“تمہارا یہ ماموں پانچ سال کی عُمر تک میرا منگیتر تھا!”
باجی نموں نے کہا تو ہم سب ہنس دیئے۔ چچا ضمیر کے گھر گیا تو ایک ایک پیڑ کے تنے سے بغلگیر ہونے کو جی چاہا۔ یہ میرا ددھیالی گھر تھا۔ میرے بچپن میں بابا امیر حیدر شاہ ایک طرف کونے میں چارپائی پر بیٹھا کرتے تھے۔ دُبلے اور بہت لمبے۔ مُجھ سے پوچھتے تھے، کس کے بیٹے ہو؟ کیا نام ہے؟ آج اُسی کونے میں اُن کی قبر تھی اور وہ کونا ہمسائے والے امام باڑے کا حصہ بن چکا تھا۔ اُن کی بیوہ اماں بانو زندہ تھیں اور مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔ “چڑھدے پنجاب” کی سی بولی بولتی تھیں اور میری بلائیں لیتی نہ تھکتی تھیں۔ میں نے خیر خیریت دریافت کی۔ بتانے لگیں کہ بابا مرحوم کی برٹش انڈین فوج والی پنشن اُنہیں مل رہی تھی اور غربت میں سہی، صبر و شکر میں گزر رہی تھی۔ چچا ضمیر فوج چھوڑ نے کے بعد نجانے کتنے پیشے بدل چکے تھے، آج کل گاؤں میں تھے۔ مجھے ساتھ لے کر وہ بابا علی محمد خان بلوچ کے ڈیرے پر چلے آئے۔ بکھے خاں کے ڈیرے کے برعکس بابا علی محمد خاں کا ڈیرہ گاؤں کے سنجیدہ اور بڑی عمر کے لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی – بکھے خاں کے ہاں تو دیہہ بھر کے لقندرے اکٹھے ہوتے تھے۔ بابا علی خاں کے ڈیرے پر کافی سارے جوان اور بزرگ بیٹھے تھے، بڑے تپاک سے ملے، کچھ نے پہچانا، کچھ نے نہ پہچانا، اُن سے چچا نے میرا تعارف کروایا؛
“محمد ذکی، بھتیجا ہے میرا۔۔۔ ماشااللہ سے بی اے پاس ہے”
سب نے تعریفی اور رشک بھری نظروں سے دیکھا۔ ایک دو نے ابا جان کی خیریت دریافت کی۔
“اللہ اپنی امان میں رکھے بیٹا، تمہارے باپ کو بھی،جس نے محنت کرکے، غریب سے دیہہ کے پس منظر سے تمہیں اتنا بڑا آدمی بنایا۔۔۔ ”
پائند خان نے حُقے کا کش لیتے ہوئے مجھے مخاطب کر کے کہا تو مجھے خوشگوار سی حیرت ہوئی کہ یہاں اب بھی بی۔ اے پاس کا مطلب “اتنا بڑا آدمی” ہوتا ہے۔ خیر گزری کہ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ آج کل نوکری کہاں ہے؟؟؟
بابا جگدیش سے نہ مل پایا، وہ گاؤں میں نہ تھے۔
میں اپنے گاؤں واپس توآ گیا لیکن یہاں کی مصروفیات میں بھی شہناز خانم میرے خیالوں پہ حاوی رہی۔ کوٹ نیازی خان بلوچ کے ساتھ کم سنی کی اپنائیت اب ایک نیا رُخ پکڑ رہی تھی- یا واضح طور پر کہہ دوں ایک فردِ واحد کی اُلفت کا رُوپ دھار رہی تھی۔ گھر کے کام کاج- بڑے چچا کے ساتھ مویشیوں کے چارے پانی کے کام، ابا جان کا حُقہ بھرنا، جلانے کی لکڑیاں کاٹنا، نیز دن بھر کی مصروفیات کے دوران میرے خیالوں کا محور یہی تھا کہ اب کسی بہانے سے دوبارہ وہاں جاؤں اور شہناز کو دیکھوں۔ نُکری کو ڈیرے پہ بندھا دیکھ کر سفر کی خواہش اور بھی بھڑک اُٹھتی۔ ایک دن ایک جھوٹا سچا بہانہ مل ہی گیا۔ بابا جگدیش بیمار تھے، اُنہوں نے کہلا بھیجا کہ اُن سے ڈاک لے کے تقسیم کردوں جو آج کل اُن کی ذمہ داری تھی جس کے عوض یونین کونسل سے چند روپے پا لیتے تھے۔
“ابا جی، بابا دینُو بُلاتے ہیں- بیمار ہیں۔۔۔ اُن کی ڈاک تقسیم کرنے والا کوئی نہیں۔ یونین کونسل کا ہرکارہ آیا تھا”
میں نے پریشانی کی اداکاری کرتے ہوئے منمنا کر اباجان سے کہا، اجازت مل گئی۔ بھاگم بھاگ نُکری کو پانی پلایا، راسیں باندھیں ایڑھ لگائی اور چل نکلا۔ نُکری کو سرپٹ دوڑنے کی کم ہی عادت تھی لیکن میرا بس چلتا تو آج اُسے اُڑا کر منزل پہ پہنچ جاتا۔ خیر، کوٹ نیازی خان بلوچ کون سا دور تھا، پہنچ ہی گئے۔ بابا جگدیش اُسی چھپر تلے چارپائی پر دراز تھے۔ چھوٹی پھوپھی اور باجی نموں پاس بیٹھی تھیں۔ مَیں بابا سے مَلا۔ میں اُن کو بچپن سے ہی بُوڑھا دیکھتا آیا تھا۔
”
کیا محبت ہے پوتے کو بابا دینُو سے! پیغام ملتے ہی چلا آیا!”
پھوپھی نے شرارت بھرے لہجے میں مسکرا کر کہا تو بابا نے شفقت سے میرے گال پہ تھپتھپایا۔
“بس پھوپھی، محبت ہے ہی ایسا جذبہ۔۔۔ ”
میں نے مسکرا کر پھوپھی سے کہا تو اُنہوں نے ہاتھ کے پنجے سے مُجھے پھٹکارنے کا اشارہ دیا۔ مٹھو پاس بیٹھا بغیر کچھ سمجھے ہی دانت نکالے جا رہا تھا۔ اُس کے کالے کٹ لیکن معصوم سے چہرے پر اُس کے ننھے ننھے سفید دانت اور آنکھیں زیادہ چمک رہی تھیں۔ میں دیر تک بابا کے پاس بیٹھا رہا، کچھ خواتین آس پاس سے اُن کی عیادت کے لئے آئیں لیکن شہناز نہ آئی۔ میں تلملا کر رہ گیا۔ اسی اثناء میں مٹھو نے ضد کرنا شروع کردی کہ اُسے گھڑ سواری کرائی جائے۔ ناچار ڈاک لی اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر نکل آیا۔ بکھے خاں کے ڈیرے پر گھوڑی بندھی تھی، خان موصوف تہمد باندھے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ، چھپر کے نیچے گہری نیند سوئے تھے۔ نُکری نلکے سے بندھی حوض میں مُنہ رکھے کھڑی تھی جبکہ نلکا چلانے والے ہاتھ شہناز کے تھے۔ دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لئے رُک سی گئی۔ شہناز کی نظر مجھ پہ پڑی تو وہ لجا کر بجلی کی تیزی سے ڈیوڑھی میں چلی گئی۔ مٹھو مجھے بوکھلایا دیکھ کر ہنس دیا۔
“اوئے باجی سناز تجھے اچھی لگتی ہے؟” کم سن مٹھو جو عمر میں مجھ سے اٹھارہ بیس سال چھوٹا تو ہو گا، مجھ سے بے تکلفی سے بولا۔ آخر ماموں زاد، پھوپھی زاد ایک جیسے ہی تو ہوتے ہیں- پھر ہمراز ہوں تو کیا ہی بات ہے!۔ میں نے مٹھو کو دونوں ہاتھوں میں اُٹھا کر گھوڑی پہ بٹھایا۔
“فوجی! تُو اس پہ ‘آسِک’ ہو گیا ہے ناں؟”
چند قدم چلنے کے بعد مٹھو نے مجھ سے سوال کیا تو میں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ میں مزے میں تھا۔ شہناز کا یوں شرما کر اندر چلے جانا ایک معنی رکھتا تھا- دن بھر تو دیہہ بھر کے مردوں کی موجودگی میں اسی نلکے پہ برتن مانجھتی تھی، میر ی ہی باری ایسا کیوں۔۔۔
“اوئے بھوتنی کے!!! تُو نے یہ باتیں کہاں سے سیکھیں؟؟”
میں نے مصنوعی ناگواری سے کہا۔
“کسی کے سامنے منہ سے پھوٹا تو مار مار کے دُنبہ بنا دوں گا!!”
میں نے اپنا بازو بلندی تک اٹھا کر اُس کے کان کو دبوچا جو اُس کے چہرے کے تناسب سے بہت بڑا تھا۔ مٹھو برابر ہنسے جارہا تھا۔ وہ بھی مزے میں تھا۔ روزانہ گدھے کی سواری کرتا تھا، آج گھوڑی پہ بیٹھا خود کو دُلہا محسوس کر رہا تھا۔ میں نے اس سے شہناز کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ اس بالشت بھر کے کم سن مشٹنڈے کے پاس تو کافی معلومات تھیں “باجی سناز” کے بارے میں۔ شہناز تھی تو اسی گاؤں کی لیکن پلی بڑھی سرگودھے میں تھی۔ اُس کے ابا کو میں جانتا تھا۔ صوبیدار یونس خان بلوچ، چچا گُلن شاہ کی پلٹن کے تھے لیکن اُن سے نوکری میں بہت بعد آئے تھے تاہم خوب دوستانہ ربط تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یونس خاں سرگودھے کے ہی ہو کر رہ گئے۔ شہناز کی شادی کم عمری میں ہی بکھے خاں کے بڑے لڑکے مختار خاں سے ہوگئی تھی۔ وہ ہمارے سن کا تھا اور ہم اسے مَتے خاں کہتے تھے۔ یہاں عُرفی نام عمر بھر جان نہیں چھوڑتے۔ مَتے خاں پڑھ لکھ نہ سکا تھا اور اب راج مستری کا کام کرتا تھا۔ شہناز کا بیٹا رضا علی دو ڈھائی برس کا ہوگا۔ مٹھو نے بتا یا کہ خانم چچی- شہناز کی ساس- اُس سے ہر وقت جھگڑتی رہتی تھی اور اُس کو بیٹے سے پٹواتی بھی تھی۔ علاوہ ازیں مٹھو کا خزانہء معلومات غیر ضروری تھا لیکن اس سے ہماری دوستی بڑی پکی ہو گئی۔ مٹھو نے مجھے اپنا اصل نام بھی بتایا جو بعد ازاں مجھے بھول گیا۔ واپسی پہ میں نے مٹھو کو گھر چھوڑا تو پھوپھی دروازے میں بیٹھے اپنی بکری ‘نازش’ کو روٹی کے ٹکڑے کھلا رہی تھی، سنجیدگی سے مخاطب ہوئی؛
“انسان بن جاؤ ذکی! مَتے خاں تمہارے چچا اختر کا جگری یار ہے- بلکہ بھائی بنا ہوا ہے اور اختر ہمیشہ شہناز کو بھابی کہہ کر پکارتا ہے- باز آ جاؤ، اُلجھنوں میں پڑو گے!”
وہ سنجیدہ تھیں لیکن میں سرشاری میں تھا۔
”
پھوپھی دل جو دیوانہ ہے یہ۔۔۔ ”
میں نے شوخی سے اداکاری کی تو پھوپھی نے قریب پڑا جھاڑو اُچک کر چھپاک سے میرے پہلو میں رسید کیا
“تیرے دل کی تو ماں کی۔۔۔ ”
لیکن میں ہنس دیا، وہ بھی ہنس کر اپنے کام میں لگ گئیں۔
واپسی کے سفر میں مَیں بار بار آگے کو جھک کر نُکری کے گلے میں بازو حمائل کر کے گانے لگتا:
“آ میڈا دلدارا!!! میڈے سینگڑیں دا سردارا!!!”
)آ میرے محبوب! میرے ہم عمروں کے سردار (
نُکری نتھنے پُھلا کر رُک جاتی۔ ایک دفعہ تو میں نے اُس کی گردن زبردستی پیچھے موڑ کر اُس کے نتھنوں کا بوسہ لے لیا۔ نُکری بھی مسکرا رہی تھی۔ بلکہ آس پاس کے ٹیلوں پر چشم براہ کھڑے کیکر کے پیڑ بھی مسکرا رہے تھے، راہ چلتے تھلوچڑ اونٹ بھی جھومتے مسکراتے جا رہے تھے۔
پھر کئی دن گزر گئے۔ گھر کے کام کاج اور ماں باپ کی بلاناغہ پھٹکار نے کبھی گاؤں سے نکلنے ہی نہیں دیا۔ پھر عید کا دن آ گیا۔ بڑے بھائی کو چھٹی ملی نہ اسد گھر آیا، بس میں اور حسُو ہی گھر پر تھے۔ اپنی سی عید تو والدین کے ساتھ مل کر منائی لیکن میری عید نامکمل سی تھی۔ کافی دیر بے چینی میں ادھر اُدھر پھرا، پھر حسُو کو سب قصہ بتا دیا۔ اُس نے ایسی چال چلی کہ ابا نے فوراََ ہم دونوں کو کوٹ نیازی خان بلوچ جانے کا حُکم دے دیا، ساتھ میں اپنے شناختی کارڈ کی نقل دی کہ بابا دینُو کے حوالے کردینا۔ خدا جانے حسُو نے کیا کہا تھا۔ خیر بلیوں اُچھلتے پیدل چل پڑے۔ راستے بھر گاتے گئے اور پیر ولائیت شاہ ؒ سے دیدار کی مرادیں مانگتے گئے،
“پیر کاملا! عید نہ کرکری کر دینا!”
پھر موسم بھی ابر آلود ہوگیا، صحرا کی مسافت کا لُطف سہ بالا ہوگیا۔ منزلِ مقصود پر پہنچے۔ شہناز کے گھر کے سامنے بابا چراغ علی خاں کھڑے تھے، جلانے کی لکڑی کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن کلہاڑی ہی ہاتھ سے چھُوٹ چھُوٹ جاتی تھی۔ میں نے سلام عرض کر کے کلہاڑی ان کے ہاتھ سے لی اور لکڑیاں کاٹنے لگا۔ کچھ تو وہ اونچا سنتے تھے، کچھ میں بھی اُونچا بولنے لگا تاکہ ڈیوڑھی کے اندر تک آواز جائے۔ اُن کا دُوسری جنگِ عظیم کا ایک قصہ ہی مکمل ہوا تھا کہ میں نے ساری لکڑیاں کاٹ پھینکیں۔ شہناز سامنے نہ آئی۔ بابا نے مجھے ڈھیروں دعائیں دیں اور لکڑیاں سمیٹ کر اندر چلے گئے۔ میں پھوپھی کے ہاں چلا آیا۔ وہ گُڑ والی سویاں بنانے بیٹھی تھیں، آتے ہی تام چینی کی پلیٹ میں مٹھی بھر سویاں بھر کر میرے سامنے رکھ دیں۔ وہ چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں، میں بھی زمین پر آلتی پالتی مار کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ میں سویاں کھا کر پھوپھی کے دوپٹے سے ہاتھ پونچھ رہا تھا کہ عقب سے ایک نسوانی آوازآئی:
“سلام علیکم، عید مُبارک!”
یہ آواز شہناز کی تھی۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ پیچھے مُڑا تو وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ ایک ہاتھ کا فاصلہ بھی تو نہ ہو گا۔ آنکھوں اور ہونٹوں کی وہی مسکراہٹ- میں ایک لمحے کو گُنگ سا ہو گیا۔ حسُو فوراََ اُٹھ کر چچا اختر کے آنگن میں چلا گیا۔
“بیٹھیں!”
میں نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گئی۔ میں دوسری چارپائی گھسیٹ کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ برابر مسکرائے جا رہی تھی۔ اُس نے آج بھی وہی سیاہ جوڑا پہن رکھا تھا، سنہری گوٹے کناری والا۔ میں بھی اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر برابر مسکرائے جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ گفتگو کہاں سے آغاز کی جائے۔۔۔
“آپ کی پھوپھی زاد بہن۔۔۔ فرزانہ مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی۔۔۔ ”
اُس نے بات کا آغاز کردیا۔
“کیوں؟”
میں نے تجسس سے پوچھا۔ گفتگو آغاز تو ہو گئی تھی لیکن اس میں پھوپھی رضیہ کی بیٹی کہان سے ٹپک پڑی؟
“وہ جو ہے ناں فرزانہ۔۔۔ وہ سُنی ہو گئی ہے اور کہتی ہے کہ عاشور کے دن سوگ نہیں منانا چاہیئے۔ مجھے سخت بُرا لگتا ہے، کسی دن وہ خبر لُوں گی اُس کی کہ۔۔۔ بس آپ سمجھا لیں اُسے!”
شہناز کی اس بات پہ میں تھوڑا سا چونکا اور پھر مجھے ہنسی اور پیار مل کر آئے، میں ہنس دیا۔
“خاں صاحب!”
میں نے اُسے ہنستے ہوئے ہی جواب دیا۔
“اگر آپ عید کے دن سیاہ جوڑا پہن سکتے ہیں تو میری پھوپھی زاد عاشور کے دن جشن بھی منا سکتی ہے!”
میں نے چہل کرتے ہوئے کہا تو وہ شرما سی گئی۔
“اب ایسے تو نہ کہیں آپ۔ سیدوں کو ایسی باتیں نہیں کہنی چاہئیں۔ ہاں میں تو ہر وقت سوگ میں رہتی ہوں۔ جب زندگی میں دُکھ ہی دُکھ ہوں تو۔۔۔ ”
وہ اُداس ہو گئی۔
“اے ہے! یہ کیا محفل جم گئی بھئی؟ مجھ غریب کو گاؤں سے نکلواؤ گے؟ یہ نیا سسی پُنوں کا قصہ اُگ رہا ہے یہاں!!”
پھوپھی نے مصنوعی سی ناگواری سے مجھے اور شہناز کو ڈانٹا۔
“ہم کسی سے ڈرتے ہیں کیا؟؟”
شہناز نے بھاؤ بتانے کے انداز میں کہا تو میرا دل خوشی سے اچھل پڑا۔
“یہ دکھائی ناں بلوچوں والی دلیری!!”
میں نے تعریفی انداز میں کہا، شہناز شرما گئی۔ پھوپھی چولہے پہ جا بیٹھیں۔
“کیا غم ہے آپ کو یہاں رہتے ہوئے خانم شہناز جہاں بیگم؟؟؟ اتنی سادہ اور پر سکون زندگی ہے یہاں۔ اور پھر آپ کی عمر ہی کیا ہے غموں کی؟ ایسا نہ کہا کریں”
میں نے اپنائیت سے مسکرا کر کہا تو وہ اُداسی میں مسکرا دی۔
“جب شادی ہوئی تھی تو وہ کون سا بیاہے جانے کی عمر تھی! آٹھویں پڑھتی تھی میں۔۔۔ آرمی پبلک اسکول میں۔۔۔ ”
شہناز نے کہا تو میں چونک گیا۔
“خاں صاحب نے پھر تو بڑا ظلم کیا ! پڑھے لکھے فوجی آدمی تھے، اُنہیں تو یہ زیب نہیں دیتا تھا!”
میں نے احتجاج کے انداز میں کہا۔
“لیکن تھے تو بلوچ قبیلہ!! برادری، رسم و رواج، روایات، رشتے۔۔۔ بس بھائی کے وٹے سٹے میں آ کر اس کھونٹے سے بندھنا پڑا”
شہناز سر جھکائے ہوئے اُداسی سے بول رہی تھی۔ میرا دل اُس کے لئے کٹا جارہا تھا لیکن اس امر کی خوشی بھی ناقابلِ بیان تھی کہ شہناز اپنا غم مجھ سے بانٹ رہی تھی۔ شاید اُس پہلے دن ہماری آنکھیں چار ہوئی تھیں تو اُس نے اِس اجنبی میں اپنائیت کا رشتہ دیکھ لیا تھا۔ پھر وہ مجھے بتانے لگی کہ اُس کی ساس کس طرح ہاتھ دھوئے اُس کے پیچھے پڑی رہتی تھی۔ خانم چچی یعنی شہناز کی ساس بڑی چالاک اور بدمزاج عورت تھیں اور یہ بات کسی سے چھپی نہ تھی۔ میں نے تشفی کے چند الفاظ کہے اور بات کا رُخ موڑا تو وہ مسکرا کر باتیں کرنے لگی۔ اپنے اسکول کے دنوں کے بارے میں بتانے لگی، اپنے بیٹے رضا علی کے بارے میں بھی۔۔۔ پھر وہ اچانک چونکی۔
“وہ جی ایک منٹ، میں آئی۔۔۔ ”
وہ تیزی سے اُٹھی۔
“بیٹھیں ناں، کیا ضرورت ہے اتنی جلدی جانے کی”
میرا دل ڈوب سا گیا۔
“بس مَیں گئی اور آئی!”
شہناز نے تیزی سے کہا اور دروازے سے باہر نکل گئی۔ میں چارپائی پہ لیٹ کر رفاقتوں کے نئے خواب ترتیب دینے لگا اور من میں محسوس ہوتی گدگدی کے زیرِ اثر مسکرانے لگا۔ میں سرشاری کے عالم میں چارپائی کے پائے سے بندھی بکری ‘نازش’ کے بالوں پہ ہاتھ پھیررہا تھا کہ دروازے میں آہٹ ہوئی۔ شہناز سامنے کھڑی تھی۔ اب اُس نے سبز کناری والا زرد جوڑا پہن رکھا تھا۔ ایسے لگا جیسے موسمِ بہار کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ہو۔
“مجھے یاد بھی نہیں تھا عید کا جوڑا پہننا- کیسا ہے یہ؟”
شہناز ہنستے ہوئے بولی۔
“بہت خوبصورت۔۔۔ بس اس کا رنگ مجھے فکر مند کر رہا ہے۔۔۔ ”
میں نے کہا۔
“جی اپ کہیں گے کہ زرد رنگ نفرت کی علامت ہے؟ میرے دل میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بس اچھا لگ رہا تھا، لے لیا!”
شہناز نے مسکرا کر میری بات کا جواب دیا اور اپنے قمیص کے دامن کو پھیلا کر اُس کی کناری کو دیکھنے لگی۔
“شہناز!”
میں نے اُسے متوجہ کیا۔
“جی”
اُس کے جواب میں بہت اپنائیت تھی۔
“اب تمہیں خوش رہنا ہو گا!”
میں نے کہا۔
“ہاں رہوں گی۔۔۔ ”
وہ بولی اور اسی لمحے ساتھ کے صحن سے خانم چچی کے بآوازِ بلند کوسنے کی آوازیں آنے لگیں۔
“لیں! میرا تو سائرن بج گیا!”
شہناز نے زہرخند کے ساتھ کہا اور ہنستی ہوئی چلی گئی۔
مجھے بارش سخت نا پسند ہے لیکن اس روز گاؤں جاتے ہوئے راستے میں بارش ہونے لگی تو میں حسُو کے گلے میں بانہیں ڈال کر خوشی سے گانے لگا۔ پیر ولائیت شاہ ؒ کے دربار پہ گیا تو دیر تک چہچہاتا اور وہاں کے ملنگ کے ساتھ گپیں ہانکتا رہا۔ صحرائے تھل مجھے اسکاٹ لینڈ نظر آرہا تھا۔ دیر سے گھر پہنچنے پر جو لعنت پھٹکار ہوئی، وہ بھی لالہ و گل کی بارش محسوس ہوئی کیونکہ میری زندگی میں شہناز کا کردار شامل ہو چکا تھا گویا یہی ایک کمی تھی— اگرچہ شہناز میری پہلی محبت بھی تو نہ تھی۔۔۔
چند روز اپنے گاؤں کی زندگی میں معمول کے گزرے۔ نُکری بیمار پڑ گئی تو اُسے چچا کبیر علی خان سیال کے ہاں بھجوا دیا۔ ابا جان کے حُکم پر مجھے موٹر سائیکل سیکھنا پڑی۔ ایک تین دہائیاں پرانی موٹر سائیکل ابا کے پاس تھی، بھاری بھرکم اور چلنے میں تیز، بڑے چمکیلے بال و پروالی۔ جب سیکھ لی تو پہلا سفر کوٹ نیازی خان بلوچ کا کیا۔ مٹھُو کو جھولا دلوانے کے بہانے گلی میں کچھ کم درجن بھر چکر لگائے لیکن شہناز نظر نہ آئی۔ پھر تھک ہار کر بکھے خاں کے ڈیرے پر جا بیٹھا۔ چچا گُلن شاہ، بکھے خاں، متے خاں اور پھیمی یہاں بیٹھے تھے، سب سے ملنا پڑا، گپ شپ کی، حتیٰ کہ خانم چچی آئیں تو اُن سے بھی با ادب ملا لیکن دال نہ گلی۔ مَتے خاں تھا تو میری عمر کا ہی لیکن مجھ سے نو خیز جوان لگتا تھا، مردانہ وجاہت میں بھی کم نہ تھا۔ بس پڑھا لکھا ہوتا تو شہناز تھی بھی اُسی کے شایاں۔ میں اُس سے شدید حسد محسوس کرنے لگا۔ خیر، شام ہو گئی اور ا س طرح کئی شامیں اَور بھی گُزریں- شہناز کی ایک جھلک ہی دیکھ پایا۔ اب اُسے دیکھے بغیر سارا کاروبارِ حیات برہم لگتا تھا۔ اُس کی شکل کبھی بھولنے لگتی تو بوکھلا اُٹھتا، پھر یاد آتی تو شدت سے یاد آنے لگتی۔
پھر ایک دن بابا جگدیش ہمارے گھر آئے، مٹھُو بھی اُن کے ہمراہ تھا۔ موقع پا کر مٹُھو نے مجھے ایک اطلاع دی؛
“اوئے باجی سناز نے آج پیر عبدالرحمان شاہؒ کے دربار پہ سلام کے لئے آنا ہے تمہارے گاؤں!”
میں نے مٹھو کے کالے کالے گالوں کو چوم لیا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دربار پہ جانے کا کیا بہانہ تراشا جائے کہ بخت نے پھر یاوری کی، چچا اونٹ لے کر آ پہنچے۔ پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے دربار کے پاس فقیروں سے دو جُھنڈ سوکھے کیکروں کے خریدے تھے، لڑکوں نے کاٹ دیئے ہیں، وہی لادنے جارہا ہوں۔ میں نے نعرہ لگایا؛
“چچا! میں بھی ساتھ چلوں گا!!”
موٹے تلوے کے فوجی بوٹ شلوار قمیص کے ساتھ پہنے اور چچا کے ہمراہ ہو لیا۔ سارا دن کیکر کا کانٹے دار تنے اُونٹ پر لدواتا رہا، بار بار نظر دربار شریف کی طرف جاتی، کوئی مسافر نہ آتا ہوا دیکھ کر دل ڈوب سا جاتا۔ نجانے کتنے کانٹے اس بے دھیانی میں ہاتھوں میں چبھ گئے۔ سہ پہر کو سیاہ بُرقعے میں ملبوس، شہناز کے سے قد وقامت کی ایک خاتون کو دربار کی جانب آتا دیکھا۔ قریب سے گزریں تو بھانپ لیا۔ ہمراہ خانم چچی تھیں اور اُنہوں نے ننھے رضا علی کو اُٹھا رکھا تھا۔ یعنی برقعہ پوش خاتون شہناز کے سوا کوئی اور نہ تھی۔ وہ دربار کا سلام کرکے لوٹیں تو ہمارے قریب کی پگڈنڈی سے گزریں۔ خانم چچی نے چچا سے احوال پُرسی کی، چچا نے جواباَ “سلام بھابی” کہا تو شہناز کو بھی موقع مل گیا ہاتھ کے خفیف سے اشارے سے مجھے سلام کہنے کا۔ ہم دیہاتیوں کو محبت میں اتنے خفیف سے حسیِن اتفاقات کے مقابل قلوپطرہ اور انطونی کی محبت کا پورا قصہ بھی کچھ نہ ہو گا۔
اس شام کی سرشاری بھی کمال تھی۔ اُونٹ کے گلے کی گھنٹیوں میں بربط و رباب سُنائی دے رہے تھے، کیکر کی کانٹے دار لکڑی لاد کر جاتے ہوئے لگ رہا تھا کہ جیسے مہر و محبت کے اسباب لُوٹ کر جا رہے ہیں۔ اور تو اور، اُونٹ گول مٹول لِید گراتا جا رہا تھا اور میرے من میں لڈُو پھوٹ رہے تھے۔
کوٹ نیازی خان بلوچ میں میرا ایک دوست ہائی اسکول کی پڑھائی کے دنوں میں بنا تھا، شیر محمد۔ بستی کے جس کونے میں رہتا تھا، اُدھر بچپن میں میرا کبھی گذر نہ ہوا تھا۔ فراغت کے وقتوں میں شیرے کی رفاقت میں آوارہ گردی میرا مشغلہ تھا۔ ان دنوں تو میں نے کمال آوارہ گردی کی۔ حیلے بہانے سے کوٹ نیازی خاں پہنچ جاتا، شیرا اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال اور چارے پانی سے فارغ ہو چکتا تو ہم نکل پڑتے۔ بکھے خاں کے ڈیرے پر جا بیٹھتے، وہاں سے اُٹھ کر بابا علی محمد خاں کے ڈیرے پہ، وجہ بے وجہ چچا گُلن شاہ کو سلام عرض کرنے جا نکلتے یا پھر پیر ولائیت شاہؒ کے دربار پہ۔۔۔ اس دوران یہ کوشش ہوتی کہ ہر بار شہناز کے گھر کے سامنے سے گزرا جائے۔ اس گلی کے ذرے ذرے کو خوب روندا، یومیہ درجن بھر چکر لگتے۔ کبھی بخت یاوری کرتا تو کاسہء دید میں ایک آدھ جھلک کا سکہ بھرلاتے ورنہ نامراد لوٹتے تو شعلہء عشق پہلے سے ذیادہ بھڑکا لاتے۔ ایک دفعہ تو ننھا رضا علی گلی میں ننگ دھڑنگ کھیلتا مل گیا، اُسے اُٹھایا، گلے لگایا، پیار کیا، کچھ ہنسایا کھلایا، پھر گھر کے دروازے میں چھوڑ دیا۔ اکثر شیرا مجھے سمجھاتا کہ یا ر کیوں گاؤں میں اپنی عزت کم کرتا ہے! لوگ تجھے اچھا خاصہ قابل آدمی سمجھتے ہیں، ایسے لُور لُور پھرے گا تو اپنی وقعت کھو دے گا، لیکن میں سُن کے اُڑا دیتا۔ اُس نے یہاں تک بتایا کہ اُس کا چچا اللہ وسایا، خانم چچی کے عشق میں اپنی ڈھلتی عمر عذاب بنا کر نشانِ عبرت بن چکا تھا۔ بے چارے نے فوج کی نوکری سے بچائی ایک ایک پائی لُٹا دی لیکن انجام کار کچھ نہ ملا۔ اگرچہ خانم چچی نے تابمقدورنباہی لیکن اُس کی وفا سے کیا تلافی ہوتی کہ اللہ وسائے کو اُس کی بیوی تک چھوڑ کر میکے چلی گئی، بچے بھی ہمراہ لے گئی۔ مجھے اس کہانی سے مزید تشویق ملی، شیرا سر پیٹ کر رہ گیا۔
خدا جانے کون سا مہینہ تھا، گرمی پڑ رہی تھی لیکن سہ پہر کا وقت بڑا خوشگوار لگتا تھا، میں شہر کسی کام سے گیا تھا، واپسی پہ لاری جو یہاں سے گُزری تو کوٹ نیازی خان بلوچ اُتر گیا۔ پھوپھی کے گھر پہنچا تو کوئی بھی نہ تھا وہاں، بس مٹھوُ دیوار پہ چڑھا بیٹھا ‘گھڑ سواری’ کے مزے لے رہا تھا۔
“نیچے اُتر او بھوتنی کے! ماں کہاں ہے تیری؟”
میں نے اُسے کہا۔ اُس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا، بس اپنے خیالی گھوڑے کی راہ میں آنے والے راہگیروں کو ہٹنے بچنے کی ہدایات دیتا رہا۔
“اوئے جا، ناں! ماں اپنی کو بتا کہ بھائی ذکی آیا ہے!”
میں نے ذرا سختی سے کہا تو مٹھوُ نے جواباً فحش سا اشارہ کیا اور دوسری جانب سے دیوار سے کود گیا۔
“حرامزادہ ناں ہو تو۔۔۔ ”
میں نے ہنس کر کہا اور چارپائی پر دراز ہو گیا۔ ‘نازش’ اپنے نومولود میمنوں کو گھیرے تندور کے پا س بیٹھی تھی، میں ہاتھ بڑھا کر ان میمنوں کو چمکارنے لگا۔ اسی اثناء میں مٹُھو دروازے سے اندر آیا تو اُس کے چہرے پر ایک فاتحانہ سی شان اور آنکھوں میں چمک تھی۔ اُس نے دروازے کی طرف آنکھ کا اشارہ کیا تو میں اچھل کر کھڑا ہو گیا؛ شہناز دروازے میں کھڑی تھی۔ گلابی رنگ کا بہت اُجلا جوڑا پہنے، جس پہ اُسی رنگ کے سلمیٰ ستارے ٹانکے گئے تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا رہی تھی۔ میں نے اندر آنے کا اشارہ کیا تو وہ اندر آگئی۔
“مٹُھو کے ہاتھ بُلوا بھیجنے کی کیا ضرورت تھی؟”
شہناز نے مصنوعی ناگواری سے کہا تو مجھے قصہ سمجھ میں آیا، میں ہنس دیا۔
“کیا کرتا شہناز، کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے تمہیں ایک جھلک دیکھنے کے لئے۔۔۔ بیٹھو!”
میں نے سنجیدہ ہو کر کہا۔ وہ میرے سامنے کی چارپائی پر بیٹھ گئی۔
“شہناز دیکھو ایسے لاپروائی نہیں کرتے۔ سارا دن کُتوں کی طرح رُلتا ہوں تمہاری گلی میں، سامنے ہی آ جایا کرو۔۔۔ مجھ سے رہا نہیں جاتا۔۔۔ ایک جھلک ہی دکھا دیا کرو۔۔ ”
میں نرم دھیمے لہجے میں سماجتیں کرنے لگا۔ اس دوران مَیں اُس کے چہرے اور آنکھوں سے نظر ہٹانے پر آمادہ ہی نہ تھا گویا زندگی میں آخری بار اُسے دیکھ رہا ہوں۔ اُس کی آنکھیں گہری سیاہ تھیں – کاجل بھی لگا رکھا تھا۔ وہ اپنی مجبوریاں اور مسائل بتانے لگی، اپنی ساس کے اوصاف سُنانے لگی۔
“شہناز کچھ بھی۔۔۔ میرا حال بھی تُم سے مختلف نہیں، ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں یہاں آنے کے لئے”
میں اپنی ضد پر قائم رہا۔ بس مقصد تھا کہ وہ ملتے رہنے کی ہامی بھر لے۔ مجھے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسے اُس کا نام لے لے کر پکارے جانا اچھا لگ رہا تھا، وہ محظوظ ہو رہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ چاہے جانے کا بھی ایک عجیب لُطف اور نشہ ہے اور یہ بیاہی سُہاگن بھی شاید اب تک اس نشے سے نابلد تھی۔ اُس کے چہرے پر اب شرم کا رنگ گہرا ہو رہا تھا کہ دروازے میں آہٹ ہوئی،
“فوجی اوئے! اماں آگئی اوئے!”
مٹُھو تیزی سے بولا۔ شہناز اُٹھ کھڑی ہوئی، میں بیٹھا رہا۔ اسی لمحے چھوٹی پھوپھی بھی اندر آدھمکی۔ میں اُٹھ کے آگے بڑھا، پھوپھی نے میرے شانے پہ ہاتھ رکھا، شہناز سے احوال پُرسی کی۔ مٹھو اسی اثناء میں بھاگ نکلا۔
“شہنازو! یہ جو میرا بھتیجا ہے ناں، یہ حرامی تجھے طلاق دلوا کر ٹلے گا! اس مرتد کے ہوتے ہوئے یہاں نہ آیا کر- یوں تو تیرا اپنا گھر ہے!”
پھوپھی نے ہنستے ہوئے شہناز سے کہا اور چارہائی پہ بیٹھ گئی۔ ساتھ ہی اُسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ شہناز بھی بیٹھ گئی۔ پھوپھی کو ابھی تک اندازہ نہ تھا کہ دونوں طرف آگ برابر کی نہیں بھی ہے تو کچھ نہ کچھ شعلہ اُدھر بھی ہے۔ شہناز کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی، پھر اجازت کے کر چلی گئی۔
“ارے کتنے پیارے میمنے دئیے ہیں نازش نے!!”
میں نے چونکنے کی اداکاری کی اور لپک کر بکری کے پاس جا کر تندور پر چڑھ بیٹھا۔ یہاں سے گلی اور شہناز کے گھر کا دروازہ واضح نطر آتا تھا۔ شہناز اپنے گھر کے دروازے پر جا کر رُک گئی- اُسے گلی میں کسی نے بُلایا تھا۔
“شہناز! اپنا دوپٹہ دینا، ذرا امام باڑے تک جا رہی ہوں، ابھی آئی!”
اُس کی دیورانی شمو قریب آتے ہوئے بولی تو شہناز نے اپنا دوپٹہ اُتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ اسی لمحے اُس کی نظر مُجھ پر پڑ ی کہ میں تندور پر چڑھا اُسے دیکھ رہا تھا، وہ ہنس دی۔
“یہیں رُکو!”
میں نے شمو کے جانے کے بعد اُسے اشارہ کیا۔
“کیوں؟”
اُس نے ہنستے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا۔
“مَیں- تُمہیں – دیکھنا – چاہتا- ہوُں!!”
میں نے اشاروں سے ایک ایک لفظ سمجھایا تو وہ ہنس دی۔ اُس نے دانتوں پر تازہ ‘مُساگ’ رگڑ رکھا تھا جو اُس کی ہنسی کا حُسن دوبالا کر گیا۔ ساتھ ہی بڑی شرارت کے ساتھ اُس نے اپنے گہرے سیاہ بالوں کو پُشت سے اُٹھا کر دائیں شانے سے سامنے سینے پر ڈال لیا۔ یہ صریح اور سنجیدہ شرارت تھی جس نے بلا مبالغہ میرے دل کو امتحان میں ڈال دیا۔ دلبری کے جو چند سادہ و پُرکار انداز اُسے آتے تھے، اُن میں یہ شرارت مجھے کبھی نہ بھولے گی۔ میں نے دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑ لیا۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی- میں بھی ہنس دیا۔
پھر اس کے بعد نجانے کتنے ہفتے گزر گئے۔ کبھی سرراہ آمنا سامنا ہو تو ہو، ورنہ دو باتیں تک کہہ لینے کی بھی مہلت نہ مل سکی۔ شیرے نے مجھے ایک دو دفعہ پھر مشورہ دینے کی کوشش کی کہ گاؤں میں میری آوارہ گردیوں کی بابت کھسر پھسر ہونے لگی ہے۔ میں نے سختی سے کہہ دیا کہ دوست ہو تو ناصح مت بنو! شیرا خفا تو ہوا لیکن پھر میرے ساتھ ہو لیا۔ دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد اُس نے شہناز کی گلی کا ایک چکر لگانے کی منظوری دی تو ہم وہاں جا پہنچے۔ گلی کے نکڑ پہ ایک نیا مکان تعمیر ہو رہا تھا، یونس خاں صاحب کا- یعنی شہناز کے ابا کا۔ شاید خان موصوف عمرِ آخر اپنے آبائی گاؤں میں گزارنا چاہتے تھے۔ ہم قریب پہنچے تو دیکھا کہ راج مستری کا کام مَتے خاں کررہا تھا۔ شہناز اُسے اینٹیں تھما رہی تھی۔ میں زیرِ لب مَتے خاں کو بہن کی گالی دی، اُدھر سے مَتے خاں نے مجھے دیکھتے ہی بآوازِ بلند سلام کیا،
“شاہ صاحب قبلہ! سلام ہے!”
میں نے ہنس کر سلام کا جواب دیا۔ شہناز نے ہاتھ سے اینٹ رکھ کر اپنا دوپٹہ درست کیا۔ بس اتنی سی دید ہوئی، شام بڑی بے چینی میں گزری۔
“یار شیر محمد! یہ ظُلم ہے!!!”
ٹیلے پر بیٹھ کر گپ شپ کے دوران میرا خیال پھر شہناز کی آج کی مصروفیت کی طرف گیا تو میں نے بڑے جارحانہ انداز میں سخت غُصے کے ساتھ کہا۔
“یار کمال کرتے ہو، سب عورتیں کرتی ہیں کام کاج۔ تمہارے گھر یا تمہارے گاؤں میں نہیں ہوتا؟”
شیرے نے مجھے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
“دیکھ شیرے! وہ مویشیوں کو پانی پلاتی تھی، کلہاڑی سے لکڑی کاٹتی تھی، گھر میں گارے کا لیپ وغیرہ بھی خود کرتی تھی، میں نے کبھی اعتراض کیا؟ میری ماں بھی کرتی ہے لیکن اینٹیں ڈھونے کا کام؟؟؟ یہ سراسر کمینگی ہے مَتے خاں کی۔۔۔ ”
میں مزید جارحانہ ہوا جا رہا تھا۔
“محبوب تو پھولوں سے بھی نازک ہوتے ہیں، اُنہیں ان ہاتھوں سے صرف دلبری کرنی چاہیئے۔۔۔ وہ ان نازک ہاتھوں سے ہم عاشقوں کے دل کا کھلونا بنا کر کھیلیں، لیکن اینٹیں؟؟؟”
اب میں واقعی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا، شیرا ہنس دیا۔
“اچھا جلدی سے اس مسئلے کا حل بتاؤ!”
شیر محمد بولا تو میری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ لیکن اندر سے پھر بھی بے چین تھا۔
اگلے ہی دن میں نے موٹر سائیکل اُڑائی اور آدھمکا کوٹ نیازی خاں۔ مِٹھو کو بھتے کے طور پر پکی پُلی تک موٹر سائیکل کے جھولے دئیے اور پھر اُسے شہناز کے گھر بھیجا، پیغام تھا کہ خُدارا ایک بار پھوپھی کے گھر کے دروازے تک آؤ، میں تندور پہ بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد شہناز آ کر دروازے میں کھڑی ہو گئی۔ میں نے اند ر بُلایا لیکن وہ وہیں کھڑی رہنے پہ بضد تھی۔
“جلدی بتائیے، کیوں بُلایا تھا آپ نے مُجھے جانا ہے!”
وہ تیزی سے بولی۔
“شہناز مجھے کل تمہارا اینٹیں ڈھونا بالکل اچھا نہیں لگا”
میں نے کہا۔
“پھر کیا ہوا؟ مختار خاں کا ہاتھ بٹا رہی تھی- یہ دیکھیں میرے ہاتھ پہ تو چھالے بھی پڑ گئے ہیں”
اُس نے اپنی ہتھیلی دکھائی تو مجھے یوں لگا کہ مجھے میرے ہی دل کے پھپھولے دکھائے جا رہے ہیں۔
“شہناز مجھے تم سے شدید محبت ہے۔۔۔ بہت زیادہ!!!”
میں بے قراری میں کہہ گیا۔
“اچھا؟”
وہ بے یقینی سے بولی۔
“ہاں”
میں نے اسی بے چینی میں تصدیق کی۔
” اچھا اب میں چلتی ہوں ”
شہناز نے تیزی سے کہا اور چلی گئی۔ کاش مجھے اس لمحے پتہ ہوتا کہ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ ٹیلے کی چوٹی پہ خانم چچی کے بھائی کا گھر تھا جہاں سے پھوپھی کا تندور واضح نظر آتا تھا۔ ہماری یہ ملاقات دیکھ لی گئی تھی۔ میں تو گھر آگیا لیکن وہاں خانم چچی نے جو تماشے کھڑے کئے۔ اُس نے مَتے خاں کے خُوب لتے لیے۔
“بیوی نہیں سنبھالی جاتی مختار خاں تم سے، تو طلاق دے دو چھنال کو! جو لونڈا ذرا لمبے قد کا دیکھتی ہے، دوستی گانٹھ لیتی ہے” وغیرہ
اور نجانے کیا کیا واہیات۔۔۔
خانم چچی نے چھوٹی پھوپھی کی موجودگی میں مَتے خاں کو سُنائیں۔ کچھ دیر تو پھوپھی نے دیکھا کہ اُس کی موجودگی میں شرم کرے گی لیکن خانم چچی تو اسے اضافی فائدے کے طور پہ لینے لگی تو پھوپھی نے بھی کہہ دیا کہ خبردار میرے بھتیجے کے بارے میں یوں بھونکیں تو سبق سکھا دوں گی!! ماحول تو اور گرم ہو گیا۔ ادھر سے چچا اختر آپہنچے تو اُنہوں نے جنگ بندی کروائی لیکن صورت حال بگڑ چکی تھی۔ گاؤں میں بھی ڈونڈی پٹ گئی۔
شہناز کا گھر سے نکلنا سختی سے بند ہو گیا، مجھے بھی پھوپھی کا پیغام ملا کہ اگر عزت عزیز ہے تو کوٹ نیازی خان بلوچ کی طرف آنا جانا موقوف کردوں۔ ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ شہناز کی خاطر ہی سہی، اُس کا خیال دل سے نکال دوں۔ یہ مشکل تقاضہ تھا۔ خیر، کئی مہینے ضبط کیا، موسمِ سرما آکر گزر گیا۔ کوٹ نیازی خاں ایک دو دفعہ گیا بھی تو جُھٹ پٹے کے وقت اور شیر محمد کے گھر سے ہی واپس لوٹ آیا۔
ایک رات دل کے ہاتھ مجبور ہو کر شہناز کی گلی میں جا پہنچا۔ پُورے چاند کی رات تھی، اُس کے گھر کے سامنے اُس کا پستہ قد پالتو کُتا بیٹھا تھا جو مجھ سے مانوس تھا، میں نے چمکارا تو میرے پاس آگیا۔ میں نے اُسے اُٹھا لیا۔ سرما کی رات تھی، گلی میں کوئی نہ تھا۔ یہ سوچ کر کہ شہناز کا لاڈلا ہے، میں نے فرطِ جذبات سے اُسے سینے سے لگا لیا۔ کتوں سے مجھے یوں بھی لگاؤ ہے جو احباب سے چھپانہیں۔ اسی لمحے گلی میں کسی کی پرچھائیں پڑیں۔ میں نے کُتے کو زمین پر چھوڑا اور چل دیا۔ دیکھنے والے نے مجھے میرے فوجی کوٹ سے پہچان لیا۔ گاؤں کے چند لڑکے شہر پڑھنے جاتے تھے، میرے پاس اکثر انگریزی کے سبق سمجھنے آتے تھے تو میرے سامنے تو مجھے اُستاد جی کہتے تھے، پیٹھ پیچھے میرا نام اُنہو ں نے “گورا” رکھ چھوڑا تھا۔ یہ لڑکا اُنہی میں سے ایک تھا۔ اگلے روز اُس نے اسکول میں پھیلا دی؛
“گورا تو اُس خانم کے پیچھے ایسا دیوانہ ہوا پھر رہا ہے کہ باقاعدہ قیس مجنوں والی حرکات پہ اُتر آیا ہے۔۔۔ ”
ایک لڑکے نے تو شیر محمد سے بھی یہ قصہ کہہ دیا۔ شیرا مجھ سے بہت خفا ہوا لیکن وقتی طور پر۔ پھر کئی مہینے گُزر گئے، میں نے شہناز کو نہ دیکھا۔ شیر محمد مجھے کبھی کبھار کوئی خبر دے دیتا۔ انہی دنوں پتہ چلا کہ یونس خاں صاحب زیارات کے سفر پر کربلا روانہ ہو گئے ہیں لیکن شہناز بیمار ہونے کی وجہ سے اُنہیں رُخصت نہیں کر سکی۔ شیر محمد نے بتایا کہ بیماری نے اسے ادھ موا کر دیا ہے اور اُس کا حُسن گہنا گیا ہے۔ میری بے چینی دیدنی تھی۔ ایک رات سونے سے پہلے میں نے لالٹین جلائی اور کاغذ قلم لے کر لکھنے بیٹھ گیا۔ بجلی ہمارے گاؤں میں آ تو چکی تھی لیکن اکثر اوقات شہر والوں کی خدمت پہ ہی مامور رہتی تھی لہٰذا لالٹین اور دیا ہماری زندگی سے رُخصت نہیں ہوئے تھے۔ شہناز کے نام خط لکھا؛
“پیاری شہناز!
اتنے لمبے عرصے سے تمہیں نہ دیکھ سکنے کی تکلیف اور کرب اپنی جگہ لیکن مجھے خود سے زیادہ تمہاری فکر ہے۔ اس عدم روابط کے عرصے نے تمہارے دل و ذہن میں میرے لئے غلط فہمیاں نہ ڈال دی ہوں۔ تم بیمار بھی رہتی ہو، تمہاری سسرال والے تمہیں میری وجہ سے پہلے سے زیادہ ناحق ستاتے ہوں گے، یہ سب کچھ سوچ کر بہت بے چین ہوں۔ تمہیں بہت سی باتیں کہنا چاہتا ہوں لیکن ایک بات سب سے اہم ہے کہ میرے دل میں تمہارے لئے محبت اور ہمدردی اس قدر ہے کہ اس گاؤں میں جو شخص تمہارے حق میں اچھا ہے، وہ میرا دوست ہے اور جو تمہارے حق میں اچھا نہیں ہے، وہ میرا دشمن ہے خواہ وہ میرا چچا ہی نہ ہو ( میرا اشارہ چچا اختر کی طرف تھا جن کی بیوی نے خانم چچی کی ہمنوائی میں شہناز کو ذلیل و رسوا کیا تھا) اور اب اس گاؤں میں مجھے تم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔
اپنا خیال رکھنا،
ہمیشہ تمہارا- ذکی”
دودن تو اسے اپنے پاس سنبھالے رکھا، پھر ایک صبح فجر کے وقت گھوڑی کے ایڑھ لگائی اور صبح دم کوٹ نیازی خاں جا پہنچا۔ پھوپھی نے اتنی صبح آنے کی وجہ پوچھی تو کہا ؛
” نُکری ذرا صحتمند ہوئی ہے تو لمبے سفر پہ لے کے نکلا تھا، سوچا کہ آپ سے مل لوں۔ چل اوئے مِٹُھو! تجھے مدرسے چھوڑ آؤں!”
مٹھُو بستہ لئے میرے ہمراہ ہولیا۔ میں نے اُسے پکی پُلی کے پاس جا کر چھوڑ دیا اور خط اس کے ہاتھ میں تھما کر کہا کہ شہناز کو دینا۔
“تیری ماں کو ناں دوں؟ ماں کے۔۔۔ ”
مٹھوُ نے گالی بکتے ہوئے صریح انکار کر دیا اور خط واپس میری طرف اچھال دیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ چچا اختر نے اُس کے سابقہ کردار کی وجہ سے اُس کی خوب چھترول کی تھی۔ میں نے شدید افسو س کا اظہار بھی کیا، بڑا غمگین مُنہ بنایا لیکن مٹُھو ٹس سے مس نہ ہوا۔ مَیں نے مایوسی سے گھوڑی کی باگیں اپنے گاؤں کی طرف موڑ دیں تو مِٹُھو کے ننھے سے دل میں رحم پیدا ہو گیا۔
“فوجی اوئے! دے دے خط! پہنچا دوں گا۔۔۔ ماموں اختر کی تو بہن کی۔۔۔ ”
مٹُھو اپنے روائتی اکھڑانداز میں بولا۔ وہ باتیں ہی نہیں، گالیاں بھی اپنے قد سے بڑی بکتا تھا۔ میں نے جلدی سے خط اسے دے دیا، گھوڑی سے اُتر کر اُسے گلے لگایا، ہمیشہ کی طرح اُس کے میلے کچیلے، کالے کالے گالوں کو چوما اور واپس گاؤں آ گیا۔
اگلے روز ارادہ تھا کہ دوبارہ جا کر پتہ کر دیکھوں لیکن مجھ اناڑی سوار کے ہاتھ میں نکری کے پاؤں میں پھرلنگڑاہٹ پیدا ہو گئی، اُسے چچا کبیر علی خان سیال کے ہاں بھیج دینا پڑا۔ مجھے اُسی دن بڑے چچا نے لال کمہار کے ساتھ چارا کاٹنے دریا کے کنارے بھیج دیا۔ مَیں راستے میں چارے والی گدھا گاڑی ہانکتے ہوئے اپنے ہی آپ میں فرض کرتا رہا کہ شہناز میرے خط کا کیا جواب دے گی، کبھی سنگدلانہ جواب کا سوچ کر تاؤ آ جاتا تو دو چار ڈنڈے ناتوں گدھے کی پیٹھ پر رسید کردیتا، پھر اُمید بندھتی تو ہنس کر لال کمہار کو کوئی ماہیا یا بیت سُنا دیتا۔ شام ہونے لگی تو دل ڈُوبنے سا لگا، پریشانی میں چارہ کاٹتے کاٹتے درانتی سے اپنی اُنگلی بھی زخمی کر بیٹھا۔ خیر اندھیرا پھیلے واپس گھر پہنچا، چارہ اتار کر کُترنے کی مشین کے پاس ڈھیر کیا، گدھا گاڑی لال کمہار کے حوالے کی اور آنگن میں چولہے کے پاس چُپ چاپ بیٹھ کر ابا کا حُقہ بھرنے لگ گیا۔
“تمہارے ابا کوٹ نیازی خاں تک گئے ہیں، دیر سے آئیں گے۔۔۔ ”
ماں نے دھونکنی سے چولہے میں انگارے پھونکتے ہوئے کہا تو میرے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔
“خیر سے اماں؟”
میں نے ضبط کر کے پوچھا۔
“ہاں، خیر ہی ہو گی، تمہارے چچا ضمیر آئے تھے، کہتے تھے بھائی گُلن شاہ نے بُلوا بھیجا ہے- کیا معلوم- تُم کیوں اتنے بوجھل بوجھل سے ہو؟”
ماں نے کہا تو میں نے تھکن کا بہانہ بنا کر چلم اور تمباکو ایک طرف رکھا اور نلکے کی طرف مُنہ دھونے چلا گیا۔
ابا جان دیر سے گھر آئے لیکن مُجھ سے اُنہوں نے کچھ نہ کہا۔ میں بے چینی سے آدھی رات تک کروٹ بدلتا رہا۔ اگلا دن یونہی بے کلی میں گزر گیا۔ ابا جان خاموشی سے حُقے کی نَے مُنہ میں دبائے اپنی سبزیوں کی کیاری کی ‘گوڈی’ کرتے رہے یا پھر کوئی کتاب پڑھتے رہے۔ میں نے سرِ شام مجبور ہو کر ابا سے موٹر سائیکل کی چابی مانگی۔
“کیوں؟ کہاں جانا ہے؟”
ابا نے پچھلے چوبیس گھنٹے میں پہلی بار مجھ سے کوئی بات کی۔
“شیر محمد سے کام تھا جی۔۔۔ ”
میں نے منمناتے ہوئے کہا۔
“لیکن نیچے بستی کی طرف نہ اُتر جانا! پھوپھی کے گھر جا کر وہیں کے ہو رہتے ہو!”
ابا جان نے چابی میری طرف اُچھا لتے ہوئے کہا۔
“جی بہتر۔۔۔ ”
میں نے چابی لی اور یہ جا، وہ جا۔
میں پہلے تو شیر محمد کے ہاں پہنچا، اُسے ساتھ لے کر پھوپھی کے گھر کی طرف جانے لگا تو راستے میں اپنا شاگرد حسن خان مل گیا جس نے قیس مجنوں والا قصہ شیر محمد کو بتایا تھا۔ وہ بکھے خاں کا بھانجا تھا اور اب تک کے تمام حالات سے باخبر تھا۔
“اُستاد جی اگر گُستاخی نہ سمجھیں تو ایک عرض ہے۔۔۔ آپ نیچے بستی کی طرف نہ اُتریں۔۔۔ وہاں صورت حال بہت خراب ہے۔۔۔ ہمارے بڑے شدید جارحانہ مُوڈ میں ہیں!”
حسن خان نے اپنے قبیلے کے جارحانہ مُوڈ کی وضاحت کرتے ہوئے جو صورت حال بتائی، میرا دل دھک سے رہ گیا۔ دو دن پہلے جب میں یہاں آیا تھا تو گھوڑی پہ سوار اُن کی گلی سے گُزرا۔ شہناز اپنے گھر کے آنگن میں صفائی کر رہی تھی لیکن میں اُسے دیکھ کر یہ نہ سمجھ پایا تھا کہ وہ شہناز ہے یا شمّو۔ اس دوران خانم چچی نے مجھے دیکھ لیا اور پکی پُلی سے تھوڑا پہلے مَتے خاں نے بھی اُس جانب سے آتے دیکھا تھا۔ اس سے اُن کے گھر میں کافی تناؤ کی صورتحال بن گئی لیکن یہ تناؤ تب بڑھا جب مٹُھو وہ خط شہناز کو دے کر واپس آ رہا تھا تو گھر کے دروازے میں شمّو نے اُسے اُس کے مشکوک انداز سے تاڑ لیا۔ شمو نے اُسے روک لیا اور بہت اصرار کیا کہ بتائے اُس کے پاس کیا ہے۔ مٹُھو نہ مانا، اُس کے بہت ستانے پہ مٹھو رونے لگا۔ لیکن جب شمو نے کہا کہ وہ اُس کی تلاشی لے گی تو مٹھو نے ذرا تھم کر اپنی قمیص کا دامن اُٹھایا اور شلوار نیچے سرکا دی؛
“لے میری تلاشی کُتی کمینی!!”
مٹُھو کا تازہ تازہ ختنہ ہوا تھا، اس کے علاوہ شمّو کو کوئی نئی بات پتہ نہ چل سکی۔ اُس نے سارا قصہ خانم چچی کے گوش گُذار کیا تو ساس بہو میں وہ گھمسان کا رَن پڑا کہ الحذر!!!۔ شہناز ایک طرف اکیلی تھی، دوسری طرف سارا گھرانہ تھا، خوب ایک دوسرے کی مادر پدر خواہی ہوئی۔ مَتے خاں نے اُسی وقت یونس خاں صاحب کو کہلا بھیجا کہ اپنی صاحب زادی کو آکے لے جائیں اور یہ کہ اُس کے وٹے سٹے میں اُس کی جو بہن اُن کے گھر بیاہی گئی تھی، اُسے بھی ہمراہ لیتے آئیں۔ شام تک رو رو کر شہناز کی بُری حالت ہو گئی تھی۔ بابا علی محمد خاں کے لڑکے اُن بلوچون میں پڑھے لکھے بھی تھے اور پنچائتی سمجھ بوجھ والے لوگ بھی تھے، اُن میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ یوں وٹے سٹے توڑ کر دو گھرانے برباد نہ کرو اور مرد حضرات باہم مل بیٹھ کر معاملے کا حل نکالیں، عین ممکن ہے کہ عورتیں محض رائی کا پہاڑ بنا رہی ہوں۔ بکھے خاں کے ڈیرے پر تمام لوگ مل بیٹھے، چچا اختر اور چچا گُلن شاہ بھی آگئے۔ طے پایا کہ میرے ابا جان اور صوبیدار یونس خاں صاحب کو بُلوا کر اُن سےمعاملہ کہہ دیا جائے، جو امر وہ فیصل کردیں۔ سو بکھے خاں کے ڈیرے پر دوبارہ اکٹھ ہوا۔ ابا جان بھی وہیں تھے، صوبیدار یونس خاں صاحب، بابا جگدیش اور چچا گُلن شاہ بھی۔۔۔
“شاہ صاحب، بڑوں کا بڑا اچھا تعلق اور رشتہ چلا آرہا تھا لیکن بچے خراب کررہے ہیں۔۔۔ ہماری مجال کہ آپ کہ لڑکے کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کہیں لیکن۔۔۔ ” بختیار خاں نے جھجکتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
“کُھل کر بات کرو بختیار خاں! مَیں روایتی باپ نہیں ہوں، انصاف کے تقاضے جانتا ہوں!”
اباجان نے کہا تو بکھے خاں در کُجا، چچا گُلن شاہ نے بھی میرے خلاف الزامات کی پٹاری کھول دی، چچا ختر بھی ساتھ ہولئے۔ سوءِ اتفاق، شہناز ان دنوں اُمید سے تھی۔
“دیکھیں بھائی گُلن، ذکی شاہ کی غلطیوں کا مجھے اعتراف ہے لیکن وہ لغزشیں بھی اخلاق اور تہذیب کے اُن دائروں میں رہ کر کرے گا جو میری تربیت اور اُس کی تعلیم نے اُس کے گرد کھینچ دیئے ہیں۔ وہ فقط چند دفعہ شہناز سے سرِ راہ ملا ضرور ہے، جو کہ وہ آئندہ نہیں کرے گا، ا س سے آگے سب افسانے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ آئندہ یہاں نہیں آیا کرے گا”
ابا جان نے اٹل لہجے میں کہا تو سب خاموش ہو گئے۔ گویا ابا جان معاملے سے پوری طرح باخبر تھے۔
یونس خاں صاحب اُسی دیرینہ احترام سے پیش آئے اور اُنہوں نے اس تمام اہتمام کے لئے ابا جان سے افسوس کا اظہار بھی کیا اور ابا جان واپس چلے آئے۔ طلاق کی جو تلوار شہناز کے سر پر لٹک رہی تھی، وہ ٹَل گئی۔
مجھے اس تمام قصے کا پتہ چلا (اگرچہ جزئیات کا بعد میں ادھر اُدھر سے علم ہوا) تو میرا ماتھا ٹھنکا۔
“اچھا حسن خاں! ایک احسان کردو، جاکے میری پھوپھی سے کہنا کہ اگر مٹھو سے کسی نے کچھ سختی کی تو میرا مرا ہوا مُنہ دیکھو گی!!”
مجھے اب سخت شرمندگی ہو رہی تھی۔ حسن خان نے بتایا کہ گاؤں میں یہ قصہ اس وقت زبان زدِ خاص و عام ہے۔
ہم وہاں سے واپس لوٹ آئے اور مغرب کی جانب ٹیلوں پر چڑھ گئے۔ رات ہو رہی تھی، ستارے نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مِیل بھر اُوپر کی جانب فوجی کیمپ کے قمقمے جل اُٹھے تھے لیکن صحرا خاموش تھا۔
“شیر محمد!”
میں نے کیمپ کی بتیوں کو گھورتے ہوئے شیر محمد کو مخاطب کیا۔ وہ بھی گھمبیر خاموشی میں تھا۔
“یار کتنی شرمندگی کی بات ہے ناں۔۔۔ ڈُوب مرنا چاہیئے کہ بکھے خاں جیسے آدمی سے میرے ابا کو معافی مانگنی پڑی ہے۔ یار بتا، مَیں نے بھی کُچھ غلط کیا؟”
شیرا خاموش رہا۔
“یار شیر محمد، مجھے شہناز سے محبت ہے۔۔۔ ہو گئی! کیا نہیں ہونی چاہیئے تھی؟”
میں احمقوں کی طرح سوال کئے جا رہا تھا۔ میری آنکھوں میں نمی تھی۔ شیرا خاموشی سے مجھے دیکھے جا رہا تھا۔ رُسوائی کا دُکھ مجھے تب بھی نہیں تھا، اب بھی نہیں ہے لیکن شہناز جس امتحان میں پڑ گئی تھی، ابا جان کو جس سبکی سے گزرنا پڑا اور کوٹ نیازی خان بلوچ سے بچپن کا جو یہ تعلق ٹوٹتا نظر آرہا تھا، یہ سب میرا گلا گھونٹ رہے تھے۔
شیرے نے میری توجہ بٹانے کے لئے اپنا سفری ریڈیو چلایا تو نجانے کس اسٹیشن سے اقبال بانوؔ کی آواز میں ناصر کاظمی کی ایک غزل آہستگی سے فضا میں ایک اُداس سا تموج پھیلانے لگی۔۔۔ اس کے کچھ اشعار میرے حافظے میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گئے؛
ترے خیال سے لَو دے اُٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تُو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
اُنہیں بھی دیکھ جنہیں راستوں میں نیند آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گزرا
کہ اُس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رُسوائی
اس غزل نے کبھی میرے دامنِ دل کونہ چھوڑا۔۔۔ ہفتہ بھر پہلے ننھیالی گاؤں میں نذر خان بلوچ کے ‘مُشکی’ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے میرے پہلو میں گردے کے مقام پہ درد شروع ہوا تھا، جو اب بڑھ کر ذہنی کرب کو دوگنا چوگنا کررہا تھا۔ میں نے پہلو کو اپنے ہاتھ سے دبایا اور رودیا۔
گھر واپس لوٹا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔ اب مجھے ابا جان کے خراب مُوڈ کی علت غائی سمجھ میں آئی۔ رات کو جب اماں سو گئیں تو اُنہوں نے مجھے ڈیرے پہ بلوا بھیجا۔
“کوٹ نیازی خاں گئے تھے آج۔۔۔ کیا کرنے گئے؟”
ابا جان جب غُصے میں ہوتے تو انہیں دیکھ کر ہی میرے اوسان خطا ہو جاتے۔ خاندان بھر میں ان کا غُصہ مشہور ہے۔
“جی وہ شیر محمد۔۔۔ ”
میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اُنہوں نے سختی سے میری بات کاٹ دی
“تُمہارے وہاں جانے پر مجھے سخت اعتراض ہے!!!”
ابا جان نے کہا تو میں ایک نیم مردہ سی “جی نہیں جاؤں گا آئندہ” ہی کہ سکا۔
“یہ شہناز کون ہے؟”
ابا جان نے پوچھا تو مجھے یوں لگا کہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہے۔
“جی وہ چچا بختیار خاں کی بڑی بہُو ہے لیکن۔۔۔ ”
میں بمشکل ہی کہہ پایا تھا کہ ابا جان کی ایک اٹل سی “شَٹ اَپ” نے میرا مُنہ بند کردیا۔ پھر میں خاموش تھا اور ابا جان مجھ پر برس رہے تھے۔ ہر جملے کے ساتھ میں زمین میں گڑا جارہا تھا۔
“کل میں لاہور جارہا ہوں، واپس آؤں تو تمہارا منحوس وجود میری آنکھوں کے سامنے نہ ہو!!”
اُٹھ کے جاتے ہوئے وہ مُجھے یہ فرمان سُنا گئے۔ میں رات بھر جاگا کیا۔ گزشتہ واقعات کا فلم میرے ذہن میں چلا، مستقبل کے اندیشے قطار بنا کر آ کھڑے ہوئے۔ کبھی یوں لگتا کہ شہناز ایک خیالی کردار تھی، پھر ایسے لگتا خُدا معلوم یہ سب جھوٹ ہو، صرف مجھے شہناز سے دُور کرنے کے لئے ڈھونگ رچایا گیا ہو۔ جوں جوں نیند آتی گئی، یہ خیالات مزید پراگندہ اور بعید از عقل ہوتے گئے اور نجانے کس پہر نیند آگئی۔ دن کو جاگا تو ابا جان لاہور جاچکے تھے۔
میں نے بھی اپنے ضروری اسباب یعنی کپڑے، کتابیں، ڈائری وغیرہ سمیٹ کر رکھ لئے۔ شیر محمد کو پیغام بھیجا تو وہ ملنے آگیا۔ اس سے مشورے کے بعد طے پایا کہ ابا جان کا غُصہ اُترنے تک شورکوٹ چھاؤنی چلا جاؤں، بڑے بھائی صاحب کے پاس۔ اگرچہ میری چھٹی حس یہ کہہ رہی تھی کہ شہروں کی آب و ہوا نہ صرف یہ کہ مجھے راس نہ آئے گی بلکہ اب کے یہاں سے نکلا تو کبھی دوبارہ ٹک کے گاؤں میں رہنا نصیب نہ ہوگا۔
“یار تیرا دانا پانی اُٹھ گیا ہے یہاں سے، دل کڑا کر اور چلا جا یہاں سے!”
شیر محمد نے میرا شانہ دبا کر مجھے کہا۔
“شیرے مجھے گاؤں کی خبریں دیتے رہنا۔ شہناز اُمید سے ہے۔ میرا دل مانتا ہے کہ اُس کے بیٹی ہو گی، میری خواہش تھی کہ ہم بہم ہوئے تو میں اُس لڑکی کا نام شہلا رکھوں گا۔ تُو پڑھا لکھا ہے گاؤں میں، تجھ سے نام کا مشورہ لیں تو یہی نام بتانا۔۔۔ ”
میں نے اُداس ہو کر کہا تو شیرے نے میرے شانے پہ ہاتھ مارا۔
“پھر وہی!! یار کیا بہکی بہکی باتیں کررہا ہے، شہر جا! تیرے لئے وہاں مواقع اور کامیابیاں ہیں!!”
شیرا مجھے ہمت دلانے کی کوشش بھی کر رہا تھا اور کوشش کررہا تھا کہ میں گاؤں اور شہناز کا ذکر نہ کروں۔ ہم دونوں چچا کبیر علی خاں سیال کے ڈیرے پر گئے تو میں نکری سے بھی ملا۔ اُس کے بالوں اور نتھنوں پہ ہاتھ پھیرا۔
“نُکری! میری ناکام محبت کے دنوں کو قدم قدم یادگار بنانے پہ تمہارا بھی شُکریہ!”
شیرے نے مجھے گھوڑی سے ہم کلام ہوتے دیکھا تو ہنس دیا۔ وہ ایک عملی آدمی تھا اور جانتا تھا کہ عشق کا جذبہ عقل سے کتنا دور رہنے پہ مائل رکھتا ہے۔
اماں کو بتایا کہ شہر جا کر بی۔ ایڈ کی پڑھائی کرنی ہے، دُعائیں لیں اور مظفر گڑھ- خوشاب روڈ سے گزرنے والی پہلی لاری پکڑ کر شہر روانہ ہو گیا۔ شورکوٹ چھاؤنی میں چند ماہ بڑے بھائی کے ہاں قیام کیا۔ یہاں برطانوی ہوم گارڈز کی طرز پر بنی نیشنل گارڈز کی ایک پلٹن میں رضاکارانہ افسری کا انٹرویو دیا، کمان افسر نے اپنے صوابدیدی اختیارات پر عبوری طور پر بھرتی کرلیا۔ چند روز جھوٹ سچ کی لفٹینی کے نشے میں رہا لیکن او۔ ٹی۔ ایس جانے سے پہلے کور کمانڈر کے دفتر سے حُکم نامہ آیا کہ میری خدمات درکار نہیں ہیں۔ کور کمانڈر کے لئے دل سے بد دُعا نکلی، خُدا نے کچھ مُدت بعد اُس کو سپہ سالار بنا دیا۔ یہاں سے لاہور کا قصد کیا جہاں ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے ایک حلقے سے تعارف تھا لہٰذا چند ماہ کی بے روزگاری کے بعد وہاں چند پاکستانی اور انگریز کارکنوں نے انسانی حقوق پہ کام کرنے والی جو ایک ٹیم تشکیل دی، اُس میں شامل ہو گیا۔
گاؤں سے شہناز کی بابت جو پہلی خبر آئی، وہ یہ تھی کہ اُس کے بیٹی ہوئی تھی، نام کیا رکھا گیا تھا، یہ پتہ نہ چل سکا۔ پھر خبر ملی کہ بابا چراغ علی خاں- رائل انڈین آرمی، وفات پا گئے ہیں۔ لاہور شہر کی رنگینیوں نے مجھے بہت مسحور کیا، بالخصوص یہاں کے حسینوں نے جن میں دلبری تو بَلا کی تھی، مروت کوڑی برابر بھی نہ تھی۔۔۔ یہ تو ایک جملہء معترضہ تھا۔۔۔ لیکن اس سب کے باوجود شہناز اور کوٹ نیازی خان بلوچ سے دوری کا داغ دل پہ نہ صرف تازہ رہا بلکہ ایک ناسٹلجیا کی صورت میرے مزاج کا حصہ بنتا چلا گیا۔ شہروں کی مصروف، بے مروت اور بے رحم زندگی مجھے راس نہ آئی۔ آدمی شہروں میں امیر ہونے کے لئے آتا ہے یا کامیاب بننے کے لئے، مجھے یہ دونوں شوق نہ تھے لہٰذا یہاں جو وقت گُزرا، بامرِ مجبوری گُزرا۔ پیچھے گاؤں میں تو زمین باقی تھی نہ مویشی، اب تو فقط روٹی کے لالے پڑے تھے جن کا جبر شہر میں باندھے ہوئے تھا، اگرچہ چند دوستوں کی مروتوں اور مہربانیوں نے اس دو سالہ قیام لاہور کو بھی مجموعی طور پر ایک قیمتی تجربہ بنا دیا۔ کچھ حسین چہرے یہاں بھی حافظہء دل پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے لیکن اس حوالے سے بھی ناکامی کی عادت پڑ چکی تھی سو ہر قدم پر پروانہ وار شمعِ حُسن کا فدائی ہوا، ہر بار ناکام ہوا، یاروں میں بَلا کے حُسن پرست کے طور پر بدنام ہوا اور بجا طور پر بدنام ہوا۔ شہناز پھر بھی جہاں تھی، میرے دل و دماغ میں وہیں ہے!!
جُوں جُوں مَیں شہر کا ہوتا گیا، اپنے گاؤں سے زیادہ کوٹ نیازی خان بلوچ کی یاد دل میں جگہ کرتی گئی۔ شہناز اس محبت کی سب سے تابندہ علامت تھی۔ شہر کے بلند میعارِ زندگی سے ملنے والا احساسِ کمتری جب گاؤں کی یاد دلاتا تو بھی شہناز بہت یاد آتی۔
ایک موسمِ گرما میں، جبکہ ابا جان سے صفائی ہوئے ایک عرصہ بیت چکا تھا اور مَیں گھر کی معیشت میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگ چکا تھا تو گاؤں جانا ہوا۔ شیر محمد جو کہ ساتھ والے گاؤں کے ہائی اسکول میں تین سال بیالوجی پڑھانے کے بعد اب گھر پہ دیہہ کے بچوں کو پڑھایا کرتا تھا، مجھے ملا تو اُس نے بتایا کہ شہناز کا بیٹا رضا علی اُس کے پاس پڑھنے آتا تھا۔ میں ایک دفعہ شیر محمد سے ملنے گیا تو ساتھ پہلی جماعت کی رنگین کتابیں کاپیاں لے گیا۔ شیر محمد اپنے مویشیوں والے چھپر کے نیچے بیٹھا بچوں کو پڑھا رہا تھا، رضا علی میری گود میں بیٹھا بآوازِ بلند اپنا سبق دُہرا رہا تھا،
“گھاف گھولا!- گھاف گھولا!”
اور مضبوطی سے قاعدے کے صفحے پر بنی گھوڑے کی تصویر پر انگلی دبائے ہوئے تھا۔ میں اُس کو فرطِ محبت سے چوم لیتا اور مزید اونچی آواز میں سبق پڑھنے کی تلقین کرتا تو وہ مزید اُونچی آواز میں کہتا؛
“گھاف گھولاآآآآآآ”
اور شیرا اور میں ہنس دیتے۔ اسی اثناء میں شہناز سامنے سے آتی ہوئے دکھائی دی۔ وہ نیلے رنگ کے جوڑے میں ملبوس تھی اور سیاد چادر لپیٹے تھی۔ وہ روزانہ رضا علی کو یہاں چھوڑ جاتی اور لینے آتی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی اُس نے چہرے پر نقاب کر لیا۔ پھر مُڑ کر واپس چلی گئی۔ میں نے رضا علی کو وہ رنگین کتابیں دیتے ہوئے ان میں سے ایک پر پنسل سے لکھ دیا:
“For Reza Ali Khan, with love from Zakie!”
رضا علی کتابیں لے کر گھر چلا گیا۔ اگلے روز جب وہ پڑھنے آیا تو وہ تحریر آدھی مٹا کر یوں بدل دی گئی تھی:
“For Reza Ali Khan son of Mukhtar Alikhan”
میں نے رضا علی سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ سطر اُس کی ماں نے لکھی تھی۔
“شاہ صاحب، میرا خیال ہے کہ اس سے زیادہ اور کتنے واضح الفاظ میں شہناز اپنی وفاداریوں کا اظہار کرے گی؟ اُس کے لئے تُم ایک قصہء پارینہ بن چکے ہو!”
شیرے نے مجھے سمجھایا۔ میں نے بھی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر ہی لیا کہ شہناز کے دل میں اگر میرے لئے کوئی جگہ باقی تھی، تو وہ اب نہیں رہی۔ شہر واپسی پہ پھر وہاں کی مصروفیات اور مسائل کے عفرین دہانے پھاڑ کر گلے ملے تو اُس کے بعد دوبارہ بہم ہونے کی اُمید نے کبھی سر نہ اُٹھایا۔ شہر نے یوں بھی جذبوں کی سادگی کو اس بے رحمی سے کچلا تھا اُن کی شکل مسخ ہو کر رہ گئی۔ دولت اور کامیابی نے قدم قدم پر اپنی اہمیت کا قائل کیا لیکن وہ گاؤں کا سادہ اور قانع طرزِ زندگی بھی رہ رہ کر پکارتا رہا اور اسی کشمکش میں کبھی دل و ذہن کا ایک ٹھکانہ نہ بن سکا- آج تک یہی عالم ہے۔
کوٹ نیازی خان بلوچ کی جس مہربان ریت اور ٹھنڈی چھاؤں نے کم سنی میں مجھے کھیلنے کودنے، خواب دیکھنے اور خواہش کرنے کے لئے اپنے دامن میں کھلی جگہ دی، وہ اب بھی مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس گاؤں میں زندگی کا وہ سادہ چلن اب بھی اپنی طرف بُلاتا تھا لیکن اب یہاں کے باسیوں کے لئے میں وہ کم سن معصوم لڑکا نہ تھا۔ اب یہاں میرے نام کے ساتھ طعن و الزام کے سابقے لاحقے وابستہ تھے۔ جو لوگ میرے ساتھ مل بیٹھنے کو باعثِ فخر سمجھا کرتے تھے، وہ اب راہ چلتے سلام کرنے کے قائل بھی نہ رہے۔ گاؤں کے کتنے آنگن تھے جن کے دروازے مجھ پہ کھلے تھے، اب بند ہو گئے تھے۔ رُسوائی کی بھی حد ہوتی ہے، اس بستی نے مجھے اپنا باسی سمجھنا چھوڑ دیا۔
میجر ڈگلس لینگ لینڈز مجھ پر مہربان تھے، پیشہء تدریس میں آنے کے لئے میرا اشتیاق بڑھاتے رہتے تھے، بالآخر یہ فیصلہ بھی کر لیا۔ ایک بڑے کالج میں لکچرار ہو گیا تو گاؤں میں میری خوب پرسش ہونے لگی، کوٹ نیازی خاں کے بزرگوں نے بھی پیٹھ ٹھونک کر شاباش دی لیکن کھوئی ہوئی ساکھ کہاں بحال ہوتی ہے۔
چچا کبیر علی خان سیال کچہری میں ماخوذ ہوئے تو اُنہوں نے دو چار دفعہ مجھ سے رابطہ کیا کہ شاید میرا رُسوخ اور عہدہ اُن کے کام آ سکے جو اُن کے خیال میں اسسٹنٹ کمشنر کے برابر تھا۔ پھر اُنہیں دامے درمے میری ضرورت پڑی تو بھی میں ناکام رہا۔ ایسا خفا ہوئے کہ پھر سال بھر رابطہ تک نہ کیا۔ جاٹ بدگمان ہو جائے تو عمر بھر کے تعلق رگید دیتا ہے۔
نئی ملازمت میں بھی جھمیلے کم نہ تھے بلکہ اس شہر میں تو دُنیا داری کے تقاضے لاہور سے بھی زیادہ بے رحم تھے۔ یہاں ہوتے ہوئے ایک دفعہ صوبیدار خاں صاحب کی وفات پر اور دوسری دفعہ اماں بانو کو قبر میں اُتارنے کے لئے کوٹ نیازی خاں جانا پڑا لیکن اس بستی نے میرے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا، شہناز تو گویا یہاں کبھی تھی ہی نہیں۔
زیادہ دن نہیں ہوئے، میں گاؤں کی ایک پنچایت میں گیا، سرپنچ چا کبیر علی خان سیال تھے۔ اُٹھ کے جانے لگے تو میں آگے بڑھ کے ملا۔ حال احوال پوچھے۔ نُکری کی خیریت پوچھی،
“وہ تو مر گئی!”
چچا نے لاپروائی سے کہا۔ وجہ پوچھی تو “وہی کُھروں کا مسئلہ ” کہہ کر بے اعتنائی سے چل دیئے۔
اس لمحے میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ ایسے لگا جیسے نُکری کا مرنا فطرت کی طرف سے آخری اور حتمی اشارہ ہے کہ کوٹ نیازی خان بلوچ اور شہناز سے وابستہ ہر چیز اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ اب اُن سے میرا حال وابستہ ہے نہ مستقبل لیکن ایک بات کا فیصلہ شاید مجھ سے کبھی نہ ہو سکے کہ یا تو ایسا ہے کہ اگر شہناز مجھے کوٹ نیازی خاں کے علاوہ کہیں اور ملتی تو مجھے اُس سے محبت نہ ہو پاتی- یا پھر ایسا ہے کہ کوٹ نیازی خان بلوچ مجھے شہناز کی وجہ سے ہمیشہ عزیز رہے گا۔۔۔