رسالہ فنون کے تاثرات کے گوشے میں محترمہ منصورہ احمد کی نظم بعنوان مجھے رستہ نہیں ملتا پر اپنا تاثر رقم کرتے ہوئے معروف شاعر اور نقاد جناب غافر شہزاد فرماتے ہیں:
“منصورہ احمد اپنی نظم اس سطر سے آغاز کرتی ہیں مجھے رستہ نہیں ملتا منصورہ احمد کے قریب کھڑا دوسرا شخص بھی یہی کہتا کہ مجھے رستہ نہیں ملتا یہی سطر جب ان کے قریب کھڑے تیسرے شخص اختر حسین جعفری تک پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے:
سرشکِ خوں رخِ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ نکلتا ہے
ندی دریا پہ تھم جائے
لہو نقطے پہ جم جائے
تو عنوان سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے
اسی نقطے کی سولی پر پیمبر بات کرتے ہیں”
یہی وہ نقطہ ہے جس کی سولی پر پیمبر بات کرتے اور یہی وہ نقطہ ہے جو جناب اختر حسین جعفری صاحب کی شاعری میں موجود، بنیادی فکر کی کلید تربیت یافتہ قاری اور صاحب بصیرت نقاد کے ہاتھ میں تھماتا ہے۔
جناب اختر حسین جعفری اپنے اولیں مجموعہ کلام آئینہ خانہ کے پیش لفظ زمیں کا اولیں مکتوب میں اسی نقطے کی شرح اس طرح بیان کرتے ہیں:
بادلوں کے نام زمیں کا یہ مکتوب ان دعاؤں، التجاؤں، شکایتوں اور حکایتوں پر مشتمل ہے زمین جسے ہوا ستارے ،پھول، لمحہ لمحہ سوکھتے ہوئے سمندر، پھٹے بادبان، خالی مکان، پیوند لگی چادر، طلوع ہوتے ہوئے آفتاب اور گہنائے ہوئے مہتاب سے لکھواتی ہے اور انہی نامہ بروں سے جواب میں تاخیر پر گلہ مند بھی ہوتی ہے۔ ہوا کی ایک اپنی زبان ہوتی ہے۔ ستارہ اپنا استعارہ خود وضع کرتا ہے۔ پھول کے سات رنگ اپنی علامتیں خود معین کرتے ہیں تاکہ دھنک کی چھایا کو اظہار میں آسانی رہے اور بہار تازہ اپنی مہکار کو نغمگی پہنا سکے۔ لمحہ لمحہ سوکھتا ہوا سمندر اپنے عدد کی لکیر خود کھینچتا ہے کہ قرن قرن سے تنگ ہوتے زمینی دائرے کو کچھ اور جگہ مل سکے، کچھ اور مکان تعمیر ہو سکیں وہ مکان جنہیں بالآخر اپنے مکینوں سے محروم اور اپنی مضبوط بنیادوں کے باوجود منہدم ہونا پڑتا ہے۔ پھٹے ہوئے بادبان کا روزن قضا و قدر کا مفہوم خوب سمجھتا ہے اور پیوند لگی چادر نے ہر عہد میں نو بہ نو لغت تخلیق کی ہے جس کے واضح ابلاغ سے طلوع ہوتے ہوئے آفتاب نے اور گہنائے ہوئے آفتاب نے ہمیشہ پہلو تہی اختیار کی اس لیے کہ آفتاب اور مہتاب کے آئینے صرف وہی تصویریں وہی اشکال اور وہی چہرے دکھاتے ہیں، انہی اعداد کی تفہیم کراتے ہیں، جنہیں کور چشم دیکھنا اور سمجھنا چاہیں۔۔۔ اور زمین پر صلیب کی صورت وہی میزان گڑی ہے جس کے پلڑے ہر راست فکر کی عمودی قوت کے منکر ہیں۔ اسی میزان کے پلڑے میں انسان ایک یرغمالی کی صورت زندہ اپنی رہائی کی قیمت پوچھ رہا ہے۔”
اس عمودی فکر کے استرداد کے نتیجے میں جناب اختر حسین جعفری نہ صرف سولی کو علامت بنا کر نوع انسانی کے ازلی استحصال کی شعری تمثیل بیان کرتے ہیں بلکہ اس شعری تمثیل سے قبل مزاحمت کا علم اس طرح بلند کرتے ہیں
“راہبوں نے کہا : لوگو! یہ شخص جس کے ہنر مند ہاتھ شب الزام خالی آسمان کی طناب سے باندھے گئے اس کے اور زمین کے درمیان کوئی بھید تھا اور اب یہ زلزلے نہ رک سکیں گے اور منقسم آفاق سے تازہ ہجرتوں کے چاند پھر طلوع ہوں گے، لوگو! اس نے اتنا ہی تو کہا تھا کہ مناجات کی رات اگر روشن الاوٗ کے گرد سگ آوارہ منڈلانے لگے تو خشک لکڑی الاؤ پر پھینکنے کی بجائے بے ادب کتے پر پھینکو۔”
جس نقطے کی سولی پر پیمبر بات کرتے ہیں اس نقطے کی شرح و تعبیر جناب اختر حسین جعفری نظم سولی سے عیسیٰ اترے میں اس انداز سے کرتے ہیں:
سولی سے عیسیٰ اترے تو تیز ہوا کا زور تھمے
قاتل ہاتھوں کا زخم بھرے
عہد ہمارا، عہد ملامت، عہد خجالت
ایک اپاہج کی بیساکھی کتنے لنگڑوں کے کام آئے گی
ہم سب لنگڑے اور اپاہج، سب کے جسموں پر ناسور ہیں اور اس کے اعجاز کا مرہم
کم مقدار ہے، صبر طلب ہے اور گراں ہے
مریم جس کے بال کھلے ہیں
کب تک وہ ماں اپنے پسر کے حرف دعا کا پیشِ عدالت ورد کرے گی
سحر ملامت کب ٹوٹے گا
تخت سے عیسیٰ کب اترے گا
سولی سے عیسیٰ اترا تو گردن خم تھی
سولی سے عیسیٰ اترا تو اپنی خبر، اپنے الہام سے شرمندہ تھا”
اور مناجات کی رات الاؤ کے گرد بیٹھے عبادت گزار سولی سے اترے عیسیٰ کی خبر اور الہام کی شرمندگی کا اظہار نوحہ کی صورت یوں کرتے ہیں کہ
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبوں نے
جس قدر حرف عبادت یاد تھے پو پھٹے تک انگلیوں پر گن لیے
اور دیکھا۔۔۔ رحل کے نیچے لہو ہے
شیشہ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطرِ مستحکم کے اندر بست ودر باقی نہیں
یا الٰہی مرگ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
ایلچی کیسے بلاد مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اک جلوس بے تماشہ گلیوں بازاروں میں ہے
تعزیہ بردوش انبوہِ ہوا
روزنوں میں سر برہنہ مائیں جس سے مانگتی ہیں منتوں کا اجر خوابوں کی زکوٰۃ
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبو!
اب کسی ابجد سے زندان ستم کھلتے نہیں
اب سمیٹو مشک و عنبر، ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوکِ پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں
بیسویں صدی کے نصف آخر میں شعری افق پر پوری آب و تاب سے نمودار ہونے والی یہ شاعری نہ صرف اپنے متقدمین کی شاعری سے انتہا درجے کی مختلف اور منفرد تھی بلکہ جناب احمد ندیم قاسمی کے مطابق جناب اختر حسین جعفری کی شاعری غالب کے بعد، غالب جیسی شاعری کی واحد مثال ہے۔” غالب کی شاعری طرح یہ شاعری بھی بظاہر پیچیدہ مگر بباطن اتنی ہی تہ دار ہے۔ یہ ایک ایسی بھرپور شخصیت کی شاعری ہے جو حد درجہ ہنرمند بھی ہے اور اس کا تخلیقی وفور اس کے لفط لفظ سے چھلکا پڑ رہا ہے۔ اس کا وجود فن شاعری کی تجسیم ہے۔ کم سے کم 1947 کے بعد اس پائے کا پیکر ساز اور تمثال ساز اور علامت ساز اور تراکیب ساز شاعر بمشکل ہی دستیاب ہوگا۔ یقیناً اقبال کے بعد راشد اور فیض اور مجید امجد اور ظہور نظر کی شاعری کئی جہات سے مثالی ہے مگر اختر حسین جعفری کا اسلوب اظہار سب سے الگ پہچانا جا سکتا ہے، یہ ایک ایسے بلند معیار کا اسلوب ہے جسے کوئی بھی دوسرا بڑا شاعر اختیار کرنے کی کوشش کرے گا تو ٹھوکر کھائے گا۔”
فلسفے کے استاد اور صاحب بصیرت نقاد جناب محمد ارشاد کے مطابق ابو المعانی مرزا عبدلقادر بیدل کے بعد اردو اور فارسی شعری روایت میں اختر حسین جعفری کا نام سب سے اہم اور معتبر حوالہ ہے۔ جبکہ جابر علی سید کے مطابق جناب اختر حسین جعفری اس عہد کا سب سے اہم نظم گو شاعر ہے۔
رسالہ فنون اور دیگر رسائل میں چھپنے والی تنقیدی آرا کے مطابق جناب اختر حسین جعفری، ناظم حکمت محمود درویش، ٹی ایس ایلیٹ اور پابلو نرودا ایک ہی قبیلے کے افراد ہیں۔
قارئین، یہ تنقیدی آرا جہاں جناب اختر حسین جعفری کی علمی اور شعری عظمت کا اعتراف کرتی ہیں وہاں قارئین شعر و ادب کے اذہان میں کچھ سوالات بھی قائم کرتی ہیں کہ آخر اس شاعری میں ایسا کون سا تخلیقی جوہر ہے جو اسے ناصرف متقدمین و متاخرین کی شاعری سے ممتاز کرتا ہے بلکہ اس شعری اسلوب کو مستقبل گیر اسلوب بھی قرار دیتا ہے۔ اور اس شاعری کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں جن کے باعث اسے عظیم، بے مثال اور لازوال شاعری قرار دیا جاتا ہے۔ جناب اختر حسین جعفری صاحب کی شاعری کے حوالے سے موجود یہ تنقیدی آرا کیا محض فخر و مباہات کا مزاج رکھتی ہیں یا واقعی یہ شاعری ان آرا کی حقدار بھی ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب جناب اختر حسین جعفری کی کتب آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے کی شاعری کو خود فراہم کرنا ہے البتہ جواب کے متلاشی علم جو اور متجسس قاری پر جناب اختر حسین جعفری کی شاعری یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ اس علمی و تحقیقی مہم میں وہ بالعموم اردو فارسی شعری روایت کے سفر سے منزل بہ منزل آگاہ ہو اور بالخصوص اردو نظم کے دستیاب اور دریافت شدہ شعری علاقے اس کی نگاہ میں ہوں اور نئے شعری علاقوں نئی شعری ابعاد و جہات کی شناخت کے لئے درکار اہلیت، تنقیدی استعداد اور بصارت بھی رکھتا ہو۔
اگر ہم ان قائم کردہ سوالات کی بہتر تفہیم کے لئے اردو نظم کی روایت کو ذہن نشین رکھیں تو ہم اس امر سے آگاہ ہوتے ہیں اردو نظم کی روایت مغرب کے تتبع میں شعری اظہار کے لئے نئے شعری پیرہن کی تو آرزو رکھتی ہے مگر اپنی فکری اور تخلیقی عادات کے سبب مغرب کے طرز اظہار و احساس سے کسی حد تک نا آشنا رہتی ہے۔ اردو شعری روایت میں ہمیں قادر الکلامی، مضمون نگاری، معنی آفرینی کے خزائن تو دستیاب ہیں مگر اردو شعری روایت سخن کی پرورش کے لئے اشک غم سادہ پر ہی اصرار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسا نہیں کہ متقدمین معاشی، سماجی طبقاتی سیاسی ناہمواریوں کے کرب سے آشنا نہیں تھے یا زندگی کے دیگر مسائل ان کی نگاہوں سے اوجھل تھے مگر اردو شعری روایت کے محبوب ترین مضامین گل و بلبل عشق و محبت ہجر و وصال، تصوف احساس زیاں رائگانی زمانے کی ناقدری احساس ندامت وغیرہم ہی قرار پائے۔ یہی سبب ہے کہ مغرب کی شعری روایت کی تقلید میں اردو شعری روایت قافیے اور ردیف کی پابندی سے تو کسی حد تک آزاد ہوتی دکھائی دیتی ہے مگر موضوعات اور طرز اظہار کی سطح پر اپنی مخصوص فکری اور تخیلقی عادات کی مقید ہی دکھائی دیتی ہے۔ اور مزید کسی مغربی شعری ڈھانچے کی پیروی یا غیر رسمی شاعری کو بدعت شمار کرتی ہے۔ بھلا ہو نظیر اکبر آبادی، مولانا الظاف حسین حالی اور اور ترقی پسند تحریک کا جس نے ناصرف محبوب کے روایتی تصور کو تبدیل کیا بلکہ زندگی کے دیگر سنجیدہ مسائل سے متقدمین کی بے رخی اور بے اعتنائی کا اظہار بھی کیا اردو شعری اور نثری روایت کو نئے موضوعات، نئے امکانات اور جدید تر طرز اظہار سے آشنا بھی کیا۔ یہ خصوص اور امتیاز صرف ترقی پسند تحریک کو ہی حاصل ہے کہ اس تحریک نے ناصرف سماجی ترقی میں معاون شعر و ادب کی تخلیق کا علم بلند کیا بلکہ تمام تر تعصبات سے بلند ہو کر بہتر معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے لئے رجعت پسند نطریات و عقائد سے انحراف بھی کیا اور زمین پر صلیب کی صورت گڑی میزان کو اپنی تخلیق اور فکر کا عنوان قرار دیا جس کے پلڑے ہر راست فکر کی عمودی قوت کے منکر ہیں اور اسی میزان کے پلڑے میں انسان ایک یرغمالی کی صورت زندہ اپنی رہائی کی قیمت پوچھ رہا ہے۔ جناب اختر حسین جعفری ترقی پسند شاعر تھے۔ یہ اوائل عمری سے شعر وادب سے ان کے فطری رجحان اور منشی میلہ رام کی محنت کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے ساتویں جماعت میں ورڈز ورتھ کی شاعری کا کچھ حصہ فارسی زبان میں ترجمہ کیا اور انٹرمیڈیٹ کے سال اول میں انہوں نے جناب ایم ڈی تاثیر اور جناب فیض احمد فیض جیسے شعرا کی اعزازی ادارت میں ایک ادبی مجلے کی اشاعت کا بطور مدیر اہتمام کیا۔ اور اسی زمانے میں بطور کنوینیر ترقی پسند مصنفین انہوں نے تانگہ بانوں اور خاکروبوں کی ہڑتال کے ذریعے ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ اسی نوع کی سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد پر وہ اکثر مرکزی اور مقامی حکومتوں کے زیر عتاب رہتے۔ سید سجاد ظہیر کو پناہ دینے کے جرم کی پاداش میں ضلعی حکومت نے انہیں نہ صرف پابند سلاسل کیا بلکہ طلبا کی سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنے کے لئے انہیں کالج سے ایکسپیل بھی کر دیا گیا۔ ترقی پسند تحریک اور دیگر سیاسی سرگرمیوں کے باعث گریجوایشن تک وہ مختلف کالجز میں زیر تعلیم رہے۔ قربان طاہر اور بابائے سوشلزم فاضل رشیدی اور منو بھائی اسی زمانے میں ان حلقہ احباب میں داخل ہوئے۔ یہ وہی زمانہ ہے جب جناب شہزاد احمد جناب احمد فراز اور جناب اختر حسین جعفری انٹرکالجییٹ مشاعروں میں شریک ہوتے اوریہ تینوں شعرا پہلے، دوسرے یا تیسرے انعام کے حقدار قرار پاتے۔
1951 کا سال جناب اختر حسین جعفری کے شعری سفر میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے 1951 کے ادب لطیف کے شمارے میں جناب اختر حسین جعفری کی نظم کو اس سال کی بہترین نظم کے اعزاز کا حقدار قرار دیا گیا اور شاعرات میں محترمہ زہرا نگاہ صاحبہ کی نظم بہترین قرار پائی ۔ سال 1951 میں شہرت کے نقطہ عروج اور فن شاعری میں منفرد اور معتبر شناخت کے حصول کے بعد انہوں نے شعر گوئی ترک کی اور کم و بیش 24 برس کے بعد 1973 میں شہرۂ آفاق نظم
تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں
تو جدا ایسے موسموں میں ہوا
جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں
کے ساتھ شعری افق پر نمودار ہوئے۔ چوبیس برس پر محیط یہ خود ساختہ خاموشی جناب اختر حسین جعفری کے مطابق یہ دور ان کی unlearning کا دور تھا گویا بطور شاعر یہ اختیاری خاموشی اپنی مسماری کے بعد ایک نئے طرز احساس اور طرز اظہار کے ساتھ فن شاعری کی طرف مراجعت کا عمل تھا ۔ وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ نظیر اکبر آبادی، اقبال، فیض، ن م راشد، مجید امجد جیسے متقدمین کی روایت کی علمبرادری ایک مشکل عمل ہے اور اس علمبرداری کا خود کو اہل اور حقدار ثابت کرنےکے لئے ناصرف ایک نئے poetic idiom کو ایجاد کرنے کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اردو شعری روایت کو اپنی معتبر شناخت کے لئے ایک منفرد حوالے کی بھی ضرورت ہے ایک ایسا حوالہ جو اقوام عالم کی شعری روایت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی استعداد و صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ اس منزل کے حصول کے لئے انہوں نے ترقی پسندی کو اپنی فکر کی بنیادی اکائی تو قرار دیا مگر ترقی پسند نطریات کے زیر اثر وجود میں آنے والی شاعری پر ناقدین کے تحفظات اور فن شاعری سے قاری کے مطالبات اور توقعات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے انہوں نے اک نئی طرز سخن کی ایجاد کا رستہ اختیار کیا۔ جناب اختر حسین جعفری اس امر سے آگاہ تھے کہ نظم آزاد نے قوافی کی بندش کی روش سے انحراف تو کیا ہے مگر فکری سطح پر آج بھی وہ رواجی شعری ڈھانچوں کے حصار میں ہے روایتی نظم آزاد کہلانے کے باوجود کہانی افسانے یا عشقیہ داستان کا بیانیہ سا مزاج رکھتی ہے اور موضوعات کی سطح پر بھی اردو شعری روایت کے محوب ترین مضامین کی روداد ہی سناتی ہے۔ یقیناً ترقی پسند تحریک کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس فکر نے greater love جیسے نظریات سے شعر و ادب کے ذریعے سماجی ترقی میں معاونت کا کردار ادا کیا بلکہ اردو شعری و نثری روایت کا دامن بھی مالامال کر دیا مگر ترقی پسند فکر کے ناقدین اور غیر جانبدار شائقین شعر و ادب نے اس نظریاتی فکری تحریک کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادب کو نہ صرف بائیں بازو کی فکر کا ضمیمہ قرار دیا بلکہ اس نوع کی شاعری کو استثنا کے ساتھ سیاسی نعرہ قرار دے دیا، فیض صاحب اور اور ان کی قبیل کے دیگر شعرا اور افسانہ نگاروں نے یقیناً اس نئی فکری روایت کی آبیاری مگر ہر بنیادی فکری ڈھانچہ اپنی بقا کے لیے سپر سٹرکچر کا مطالبہ کرتا ہے یہی وہ موڑ ہے جہاں سے جناب اختر حسین جعفری نے موجود اور دستیاب شعری روایت کو نہ صرف جدید تر اظہار اور جدید تر طرز احساس سے روشناس کروایا بلکہ ترقی پسند فکر کے زیر اثر تخلیق ہونے والے ادب کی نظریاتی شناخت کا دفاع بھی کیا اس طرز سخن کوفنی، شعری اور جمالیاتی سطح پر ایک معیار اور اعتبار بھی عطا کیا یہی وہ معیار ہے جس کے سبب جناب اختر حسین جعفری کی شاعری کلاسیک کے درجے پر فائز اور متمکن ہوئی اختر حسین جعفری کی شاعری نعرہ نہیں ہے اور نہ ہی اپنا مافی الضمیر بیان کرنے جزئیات نگاری پر انحصار کرتی ہے یہ شاعری ایک ایسے آگاہ شاعر کی تخلیق ہے جو بیک وقت اردو شعری روایت اور مغربی شاعری کےرجحانات و اثرات سے آگاہ بھی تھی اور نئے امکانات کی دریافت کی آرزو مند بھی تھی یہ شاعری ماڈرن ازم ، سریئلزم، امیجازم جیسے mode of expressions کی تاثیر بھی رکھتی ہے اور اردو شعری روایت کا مخصوص گداز بھی رکھتی ہے یقیناً جناب اختر حسین جعفری کے تخلیقی وفور کا نقطہ معراج vortex ہے اور vorticism میں وقت کا تصور ماضی حال اور مستقبل کی شناختوں سے ماورا ہے اور ہم عصریت کے رواجی تصور پر خط تنسیخ کھینچتا بھی دکھائی دیتا ہے جناب اختر حسین جعفری اپنے متقدمین کے تتبع میں بیانیہ انداز میں کرہ ارض پر موجود انسان کو درپیش مسائل نشاندہی کے لئے جزئیات نگاری نہیں کرتے بلکہ مغرب اور مشرقی کی روایت کے نچوڑ سے ان دونوں روایات کو ایک نیا طرز احساس تجویز کرتے ہیں دس بیس پچاس یا سو الفاظ سے نظم کی صورت ایک تصویر بناتے ہیں اور اپنے قاری کو نوع انسانی کو درپیش مسائل کا چشم دید گواہ بنا دیتے ہیں اختر حسین جعفری کی شاعری کسی مخصوص زمانے کے انسان کے سماجی سیاسی طبقاتی اور معاشی مسائل کی نشاندہی تک خود کو محدود نہیں رکھتی بلکہ ہم عصریت کے جدید تر تصور کے ذریعے قاری کی تعلیم و تدریس کا فریضہ بھی انجام دیتی ہے اور اس اس کی جمالیاتی حسیات کی تشفی کا سامان بھی مہیا کرتی ہے ۔ جناب اختر حسین جعفری کی نظم ایک ایسا طرز اظہار و طرزاحساس ہے جس کی نظیر اردو فارسی شاعری میں ناپید ہے یوں تو جناب اختر حسین جعفری کی شاعری خود اپنی عظمت انفرادیت اور جدید تر حسیت پر گواہ ہے مگر میری رائے میں ان کی نظم عکس اور فاصلے ان کے کرافٹ، فکر اور طرز اظہار کا در قاری پر وا کرتی ہے اور یہ در اس ڈائمنشن، اس شعری علاقے میں کھلتا ہے جو صرف اور صرف جناب اختر حسین جعفری کی فکری شعری اور فنی ملکیت ہے۔ نظم عکس اور فاصلے انتہائی منفرد شعری واردات سے یوں آغاز ہوتی ہے:
دیا سلائی جلی تو شعلہ
دیا سلائی جلی تو تند اور تیز شعلہ
کثیف شیشے کی سرحدوں میں ہزار ہا صورتیں دکھا کر
بکھر گیا ہے
کثیف شیشے میں تیرے چہرے پہ کرب و ہیجان کا دھواں ہے
وہی دھواں سا
جو میرے تازہ سلگتے سکریٹ سے اٹھ رہا ہے
زبان شعلہ
کہاں سے چل کے کہاں تک آئی
کہاں تھی موجود اور پہنچی کہاں پہ تصویر نارسائی
دھوئیں کے سائے میں تیز رفتار ریل گاڑی
رواں ہے اندھے سفر پہ گویا
سیاہ انجن کے خشک حلقوم سے نکل کر مہیب چیخیں
تیرے لبوں پر بکھر گئی ہیں
رواں دواں ساعتوں کے پہیئے دلوں کے کچے بدن سے گزرے
تو کتنے نیلے نشان ابھرے ہیں
تیرے رخسار پر جبین پر
شکستہ بازو لٹک رہا ہے
ہر ایک سگنل گرا ہوا ہے
کہاں پہ اتریں کہ تیز آندھی ہے اور بادل گھرا ہوا ہے
143 الفاظ پر مشتمل یہ تصویر اپنی معنویت یوں بیان کرتی ہے سکریٹ کے سلگانے کے عمل سے یہ شعری منظر آغاز ہوتا ہے اور دیا سلائی کے جلنے سے روشن ہوتا یہ شعلہ کثیف شیشے سطح پر تصویریں دکھا کر بکھر جاتا ہے اور بکھرتے ہوئے نظم کے بنیادی کردار کے چہرے پر کرب و ہیجان کی کیفیت کو بیان کرتا ہے اور ریل گاڑی جو اندھے سفر پر رواں ہے اس کے حلقوم سے نکلنے والی چیخیں اس کے چہرے پر overlap ہوتی ہیں اور یہ مہیب چیخیں نوع انسانی پر گزرنے والے ساعتوں کا ازلی کرب کا احوال بیان کرتے ہوئے بے جہتی بے سمتی کو اس کرب کا باعث قرار دیتی ہے۔
ایک ساعت یعنی سگریٹ سلگانے کے عمل سے آغاز ہونے ہوالی یہ نظم ایک منظر دکھا کر اپنے اختتام کو پہنچتی ہے اور تمثیل کے انداز میں نوع انسانی کی حالت زار کو بیان کرتے ہوئے قاری پر ایک کیفیت طاری کرتی ہے اور یہی کیفیت اس منفرد اور مختلف شاعری کے ابلاغ کا کسی سطح پر فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ اس شاعری کے عدم ابلاغ کا شکوہ وہ قارئین کرتے ہیں جو روایتی شعری ذوق رکھتے ہیں اور شاعری سے ان کی رغبت محض pleasure pursuit کے لیے ہےجدید تر شاعری اور بالخصوص جناب اختر حسین جعفری کی شاعری کی تفہیم کے لئے قارئین کو اس امر کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ شاعری فن شاعری کے باب میں ایک نئی جہت کی حیثیت کی حامل ہے اس شاعری کی تفہیم لے لئے قاری کو فن شاعری سے توقعات اور مطالبات بھی تبدیل کرنے ہوں گے ۔ جناب اختر حسین جعفری کی شاعری کی تفہیم کے حوالے سے جناب محمد ارشاد کہتے ہیں:
“جدید شاعری، آزاد تلازمے کی شاعری، اختر حسین جعفری سے پہلے بھی شاعری ہی تھی لیکن یہ شاعری اس شاعری میں میکانیاتی کل تھی میکانیاتی کل ہونے کی وجہ سے یہ حرکت کناں بھی تھی رواں دواں بھی، لیکن قالب بے جان تھی۔ اختر حسین جعفری نے اس قالب بے جان میں اپنا دم اپنے انفاس پھونک کر اسے میکانیاتی کل سے نامیاتی کل organaic whole بنایا ہے۔ اس کی ہر نظم ایک نامیاتی کل ہے یہی وجہ ہے ہم اسے حصوں بخروں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ اس کی اناٹومی اسے مار ڈالتی ہے اس کی نظموں کی روح، جان نہ نظم کےشروع میں ہے نہ وسط میں ہے اور نہ آخر میں بلکہ کسی بھی جاندار شے کی طرح، نامیاتی کل کی طرح، ہر انگ میں ہر عضو میں ہر مصرعے بلکہ ہر لفظ میں ہے ہم اس کی نظموں کی روح، مرکزی خیال کو کسی ایک جگہ locate کرنا چاہتے ہیں اور نہیں کرپاتے، ہمیں ناکامی اس لئے ہوتی ہے کہ اس کی نظم اس خیال سے جسے مرکزی کہا جاتا ہے، نہ تو اس سے متصف ہے اور نہ اس سے عاری، یہ خیال اس کی نظم کے مرکز میں ہوتا ہے نہ کسی دوسرے ایک انگ میں مرتکز یا مرکوز، بلکہ ساری نظم میں ساری ہوتا ہے۔”
اردو نظم کے قاری کو اس امر کو ذہن نشین رکھنا ہو گا کہ جناب اختر حسین جعفری نے ناصرف ترقی پسند شاعری بلکہ فن شاعری کا نصاب اپنی شاعری کی صورت میں فن شاعری کے باب میں درج کیا ہے اور اس شاعری کی بنیاد انہوں نے انسانی کرب اور درد پہ رکھی ہے ایسا درد جو بظاہر ذاتی ہے مگر اپنی تاثیر اور دانائی کی بنیاد پر کائناتی ہے اور اسی درد کو وہ نظم کی بقا کی ضمانت قرار دیتے ہیں۔ جناب اختر حسین جعفری فرماتے ہیں کہ
نظم پرائے درد پہ زندہ کیسے رہتی
تم سے
آتی جاتی سانس کا ناتا تھا
سانس کی ویراں راہگزر پر جب لفظوں کی شمعیں
روشن ہو جاتی تھیں
تم آتے تھے
تم آتے تھے اور ادھوری نظم مکمل ہو جاتی تھی
اب پلکوں پر رات ڈھلے تک جاگنے والا باقی کوئی کوئی لفظ نہیں ہے
جھوٹی بارش کے پانی سے بہتی ندی
کب تک بہتی
نظم پرائے درد پہ زندہ کیسے رہتی
جناب اختر حسین جعفری کی شاعری کی کما حقہ تفہیم اور اس شاعری کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لئے ایک نئی فکر روش اور ایسے رستے کی فکری مسافرت کی ضرورت ہے جو جناب اختر حسین جعفری کے شعری علاقے تک رسائی کو ممکن بنا سکے یہی سبب ہے کہ محفوظ اور شناسا راستوں کے شائقین کو نئی شاعری کی تفہیم کے لئے رستہ نہیں ملتا اور وہ حیرتی نگاہ سے ہمراہیوں سے سوال پوچھتے ہیں کہ مجھے رستہ نہیں ملتا اور یہی سوال جب اختر حسین جعفری تک پہنچتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ
سرشک خون رخ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ نکلتا ہے۔
______________________________________________
یہ مضمون اس سے قبل ‘مکالمہ‘ پر بھی شائع ہو چکا ہے۔ ہم امیر حسین جعفری کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے یہ مضمون ‘لالٹین’ کے قارئین کے لیے شائع کرنے کو عنایت کیا۔