یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت ابی بن کعب کے درمیان قرآن کے کچھ حصوں اور آیات کو لے کر کافی اختلاف تھا۔ حضرت عمر کے نزدیک حضرت ابی بن کعب کچھ ایسی آیات کو قرآن سمجھتے تھے جو کے منسوخ ہو چکی تھیں جبکہ حضرت ابی بن کعب کے نزدیک حضرت عمر کچھ ایسی آیات کو منسوخ سمجھ کر چھوڑ چکے تھے جو ان کے نزدیک قرآن کا ہی حصہ تھیں۔
اس بات کی تفصیل تو آگے آ رہی ہے لیکن یہ بیان کرنے سے پہلے یہ بات یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مشہور صحابی رسول حضرت ابی بن کعب ان چار جلیل القدر بزرگ صحابہ کرام میں سے ایک ہیں، جن سے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن سیکھنے و حاصل کرنے کا حکم دیا تھا۔ دیکھئے صحیح بخاری (رقم 4999)۔ نیز ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ خود اللہ نے حضرت ابی بن کعب کا نام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے سامنے قرآن پڑھیں۔ دیکھئے صحیح مسلم (رقم 6342 دارالسلام)
1) اس تمہید کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت دیکھئے کہ کہتے ہیں: “حضرت عمر نے فرمایا: ابی بن کعب ہم میں سب سے بڑے قاری (قرآن) ہیں لیکن حضرت ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مَیں نے تو قرآن مجید کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سُنا ہے، اس لئے مَیں تو اسے کسی کے کہنے پر چھوڑنے والا نہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: “ہم جو بھی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلاتے ہیں، اس سے بہتر یا اس جیسی اور لے آتے ہیں۔” (صحیح بخاری: رقم 5005)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر خود بھی حضرت ابی بن کعب کو قرآن کا سب سے بڑا قاری مانتے تھے لیکن ان کے نظریہ کے مطابق حضرت ابی بن کعب قرآن کے کچھ حصوں اور آیات کو مانتے میں غلطی پر تھے جو منسوخ تھیں اور اسی طرح اگر حضرت ابی بن کعب کے نظریہ کے مطابق دیکھا جائے تو حضرت عمر قرآن کے کچھ ایسے حصوں اور آیات کو تسلیم نہیں کرتے تھے جو حضرت ابی بن کعب کے مطابق قرآن میں شامل تھیں۔ قرآن کے ان تمام حصوں کے بارے میں مکمل تفصیل تو نہیں ملتی جن پر ان دونوں جلیل القدر اصحاب کا اختلاف تھا لیکن دیگر روایات سے اس اختلاف کے کچھ دیگر حقائق ضرور سامنے آتے ہیں۔
2) چنانچہ تابعی ذر سے روایت ہے کہ حضرت ابی بن کعب نے ان سے پوچھا: تم سورۃ احزاب کی کتنی آیات پڑھتے ہو؟ (مَیں نے) کہا: ستر سے کچھ زائد آیات۔ انہوں نے کہا: مَیں نے اسے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا تو یہ سورۃ بقرۃ کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھی اور اس میں آیت رجم بھی تھی۔
(مسند احمد: رقم 21525، 21526 / صحیح ابن حبان: رقم 4428 / مستدرک حاکم: رقم 3554)
3) سورۃ بقرۃ کے برابر سورۃ احزاب کی آیات کا تو آج کسی کو علم نہیں لیکن رجم کی آیت کے بارے تو خود حضرت عمر کو بھی تسلیم تھا کہ “بلاشبہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور اپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اللہ نے آپ پر جو نازل کیا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے اسے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا۔۔۔۔” (صحیح مسلم: رقم 4418 دارالسلام)
4) اس کے باوجود یہ آیت یا ایسی دیگر کچھ آیات مصحف میں کیوں نہ شامل کی گئیں؟ کثیر بن صلت روایت کرتے ہیں: “حضرت ابن عاص اور حضرت زید بن ثابت مصحف لکھتے تھے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے تو سیدنا زید نے کہا: مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ یہ آیت بھی پڑھتے تھے (حضرت زید نے آیت رجم پڑھی)۔ حضرت عمر کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یہ آیت مجھے لکھوا دیجئے، لیکن یوں محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند کیا۔۔۔۔”
(مسند احمد: رقم 21932 / مستدرک حاکم: رقم 8071)
اس روایت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آیت رجم یا ایسی ہی کچھ دیگر آیات جن پر صحابہ کرام میں اختلاف تھا، محض اسی لئے بھی مصحف میں شامل نہ ہو سکیں کہ حضرت عمر یا کسی اور صحابی نے یہ تاثر لیا یا محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ آیت لکھوانا پسند نہ کیا تھا۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت جیسے جلیل القدر صحابہ کی گواہیوں کے باوجود وہ آیات منسوخ قرار دے کر مصحف قرآن میں شامل نہ کی گئیں۔
5) حضرت ابن عباس سے روایت ہے: “اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا: “لو کان لابن آدم وادیان من ذھب لا بتغی الثالث، ولا یملا جوف ابن ادم الا التراب و یتوب اللہ علی من تاب” حضرت عمر نے کہا: یہ کیا ہے؟ مَیں نے کہا: جی حضرت ابی بن کعب نے مجھے اسی طرح پڑھایا ہے۔ پھر حضرت عمر ہمارے پاس سے گزرے اور حضرت ابی کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کہا: یہ ابن عباس کیا کہتا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسے ہی یہ آیات پڑھائی تھیں۔ حضرت عمر نے کہا: تو پھر کیا مَیں ان کو برقرار رکھوں؟ پس پھر انہوں ان کو برقرار رکھا۔”
(الفتح الربانی فی ترتیب مسند احمد، رقم 8459 / مسند احمد: رقم 21428)
نوٹ: صحابی رسول حضرت زید بن ارقم نے بھی ایسی ہی آیات کے بارے گواہی دے رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پڑھی جاتی تھی۔ دیکھئے الفتح الربانی فی ترتیب مسند احمد: رقم 8458، مسند احمد: رقم 19495)
حضرت ابن عباس کی درج بالا روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر جیسے جید و بزرگ صحابی تک کو کچھ آیات کا بالکل ہی علم نہ تھا کہ یہ کیا ہیں؟ جبکہ دیگر صحابہ انہیں قرآنی آیات مانتے تھے۔ ایسے میں حضرت ابن عباس اور حضرت ابی بن کعب کی ہی گواہی پر حضرت عمر نے ان آیات کو تسلیم بھی کیا اور اسے قرآن کا حصہ خود بھی مان کر برقرار و ثابت رکھا لیکن حیران کُن طور پر یہ آیات بھی آج قرآن میں موجود نہیں.
6) حضرت عمر بن خطاب ایک بچے کے پاس سے گزرے، وہ مصحف (قرآن) میں پڑھ رہا تھا: ({النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم} وهو أب لهم)
بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں اور وہ (نبی) تمھارے باپ ہیں۔ (اس پر حضرت عمر نے) کہا: اے بچے! اس کو مٹا دو۔ اس نے کہا: یہ مصحف ابی (بن کعب) ہے تو وہ حضرت ابی کی طرف گئے اور ان سے اس (آیت کے) بارے پوچھا تو انہوں نے کہا: قرآن مجھے مشغول رکھتا ہے اور تمھیں بازار کا شور و غل (یعنی خرید و فروخت)۔
(سنن کبریٰ للبیہقی: ج7 ص110، رقم 13419 / تاریخ المدینہ المنورۃ لابن شبۃ: رقم 1171)
اس روایت سے تو پتا چلتا ہے کہ حضرت ابی بن کعب کے مصحب میں قرآن کی موجودہ آیات سے بھی کچھ زائد الفاظ موجود تھے، جنہیں حضرت عمر درست نہ جانتے تھے یا علم نہ رکھتے تھے اور مٹانا چاہتے تھے۔ حضرت عمر کے استفسار پر حضرت ابی بن کعب نے صاف جواب یہی دیا کہ آپ نہیں جانتے ہوں گے کہ آپ کو تجارت و بازار مشغول رکھتا تھا جب کہ ان کی مشغولیت صرف قرآن سے تھی۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مواقع پر ملتا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت ابی بن کعب کے درمیان قرآن کی آیات کو لے کر اختلاف و تلخی کا معاملہ رہا۔
6) چنانچہ ایک ایسے ہی موقع پر قرآنی آیات پر حضرت ابی بن کعب کے گواہی دینے پر حضرت عمر نے فرمایا: “اے ابی! تم کس بنا پر لوگوں کو مایوس کئے جا رہے ہو؟ حضرت ابی نے کہا: اے امیرالمومنین! مَیں نے جوانی اور صحت کے دنوں میں حضرت جبرائیل امین کی جانب سے (اترا) قرآن سیکھا ہے (یعنی میرا قرآن پڑھنا غلط نہیں ہو سکتا)۔ حضرت عمر بولے: تُو احسان ماننے والا نہیں اور مَیں صبر کرنے والا نہیں۔ یہ بات تین دفعہ بولی اور وہاں سے چلے آئے۔”
(مستدرک حاکم: رقم 2890)
7) سورۃ فتح کی آیت (26) کے بارے بھی خود حضرت ابی بن کعب سے روایت موجود ہے کہ وہ اس کے درمیان الفاظ (وَلَوْ حَمَيْتُمْ، كَمَا حَمُوا، لَفَسَدَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ) تلاوت کیا کرتے تھے جو ہمارے پاس موجود مصاحف میں بھی آج موجود نہیں۔ یہ بات حضرت عمر کو پہنچی تو وہ اس بات پر شدید برہم ہوئے۔۔۔۔
پھر حضرت عمر خود ان کے پاس چلے آئے اور ان کے کچھ ساتھیوں کو بھی بلوایا، ان میں حضرت زید بن ثابت بھی تھے۔ حضرت عمر بولے تم میں سے کون سورۃ فتح پڑھے گا؟ تو حضرت زید ہمارے (یعنی حضرت ابی بن کعب کے) طریقے کے مطابق ہی قرات کی، اس پر حضرت عمر ان پر بھی ناراض ہوئے۔ حضرت ابی بن کعب نے حضرت عمر سے کہا: مَیں کچھ بولوں؟ آپ نے کہا کہ بولو۔ حضرت ابی بن کعب نے کہا: یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب بیٹھا کرتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قرآن سنایا کرتے تھے جبکہ آپ لوگ اس وقت دروازے پر ہوتے تھے۔ اب (بھی) اگر آپ کہتے ہیں کہ مَیں نے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سنا ہے، اسی طرح لوگوں کو سناتا رہوں تو مَیں سناتا رہوں گا اور اگر آپ نہیں چاہتے تو مَیں ساری زندگی ایک حرف زبان سے نہ نکالوں گا۔ حضرت عمر نے کہا: آپ لوگوں کو قرآن سناتے رہیں۔
(مستدرک حاکم: رقم 2891)
حضرت ابی بن کعب کی زندگی کے آخری ایام کے بارے حضرت جندب کی روایت ہے جس میں ان جلیل القدر بزرگ صحابی کی خستہ حالت پر روشنی پڑتی ہے۔ حضرت جندب حضرت ابی بن کعب کے بارے فرماتے ہیں:
“دو کپڑوں میں ملبوس ایک لاغر سا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ مَیں نے ان سے متعلق لوگوں سے دریافت کیا تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ یہ لوگوں کے سردار حضرت ابی بن کعب ہیں۔۔۔۔۔ ان کے پیچھے ان کے گھر تک پہنچا تو بہت خستہ حالت تھی، لباس بھی کوئی خاص نہ تھا اور ان کی اپنی حالت بھی پراگندہ تھی۔۔۔۔ (کچھ گفتگو کے بعد) حضرت ابی بن کعب بولے: میرا تیرے ساتھ وعدہ ہے کہ اگر اس جمعہ تک میری زندگی رہی تو مَیں تمھین ایسی بات بتاؤں گا جو مَیں نے خود رسول اللہ سے سُنی ہے اور اس سلسلے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کروں گا۔ (حضرت جندب) کہتے ہیں: مَیں واپس آ گیا اور جمعہ کا انتظار کرنے لگا۔ جب جمعرات آئی تو مَیں اپنے ایک ضروری کام سے باہر نکلا تو تمام گلیوں بازاروں میں بہت رش تھا۔ مَیں جس گلی میں بھی گیا وہ لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ملی۔ مَیں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ ۔۔۔۔۔ لوگوں نے بتایا: سید المسلمین حضرت ابی بن کعب وفات پا گئے ہیں۔”
(مستدرک حاکم: رقم 2892)