Laaltain

زنہار (رضی حیدر)

28 دسمبر, 2018
Picture of رضی حیدر

رضی حیدر

چھپکلی چیختی ہے رفت کی بے خوابی سے
ٹڈیاں کاٹتی ہیں رات کے گونگے پن کو
سرد صرصر کی زباں رونگٹوں کو چاٹتی ہے
لاکھوں زندوں کی تمناؤں کے ڈھانچوں کا ثمر
لاکھوں مردوں کی نفس بستہ بقا تکنے کے بعد
میں کہ ہوں، ہوں بھی نہیں پھر بھی جیے جاتا ہوں
وہ کہ ہے، ہے تو سہی، پھر بھی کہاں ہے آخر
غم کے رخنوں کو بھرے جاتا ہے تھکتا ہی نہیں
مرگ کا سنکھ بجے جاتا ہے رکتا ہی نہیں

سر پہ یہ نیل کا دریا ہے یا کانا دجال
چاند کی آنکھ سے، تکتا ہے مےٌ ازرق کو
رنگ تاروں کے غٹکتا ہے یہ کانا دجال
برہنہ کر بھی چکا جبہ رہِ ابرق کو
تارکول اُس ہی جہاں تاب پہ گرتا ہے جسے
زعم ہو زرق غلافوں کی ضیا باری کا
سرخ الفت کی سحر تاب سحر کاری کا
چاٹتے چاٹتے قرنوں کے مقید بونے
پھر سے سو جائیں گے، پلکوں کی گراں باری سے
سرد لمحوں کی زمہریری زہرکاری سے
دل کی بے جان زمینوں سے نکالے جائیں
احمریں ہاتھ،
مرمریں جسم، ابابیلوں کا خون
مردہ چڑیوں کے زنخداں،
تانبے کی چیخیں،
گرتے ہاتھی کی فغاں،
(کتنےآزردہ ہیں قریوں کی تباہی کے نشاں)
اشک دریاؤں کو فرمان سنا دو اب کے
سب کے سب بار دفینوں سے بہا لے جایئں
جن کو غاروں کے حزیں کشف نے تصویر کیا
وقت کی سوئی کی تکرار نے تعمیر کیا
Iamge: Corinna Wagner

ہمارے لیے لکھیں۔