کِھلے ہوئے گلاب رخ ہرے بھرے جوان تن دزار پیڑ وقت کی زمین پر کھڑے ہوئے پرکاش کی تلاش میں امید سینچتے ہوئے لہک چہک
پلکیں خون سے جم رہتی ہیں، آنکھیں رو رو تھم رہتی ہیں راتیں بستر پر نہیں سوتیں، برف کی سل پر جم رہتی ہیں جو
کبھی کبھی سوچتا ہوں شاعری سیکھی، وقت ضائع کیا۔ ایک ان کہی ان سنی زبان بناتے بناتے بہت دل جلایا، وقت ضائع کیا۔ لوگوں کو
جھاڑتے جھاڑتے تاروں کی وحشت کا غبار اکتایا چاند کھینچ رہا تھا جوں خمیازہ ۔۔۔۔۔ تم آئے غم کا گدلا پانی پارہ پارہ کاغذ کی
أبو العلاء المعري سے ملاقات تب ہوئی جب ایک روز بی بی سی پر خبر پڑھی کہ داعش ایک نابینا عربی شاعر کے مجسمے
پیش لفظ میں کافی عرصے سے چاہ رہا تھا کہ لالٹین پر فکشن کے زمرہ میں افسانہ اور ناولٹ کے علاوہ سکرپٹ بھی چھپیں کیونکہ
سلمان تین سال کی عمر میں سائیں سہیلی سرکار کے میلے پر نقلی سفید داڑھی پہن کر کتنا خوش تھا۔ ست ربٹیا گیند ہوا میں
رینٹ کلچر تیری ۔۔۔ (انسان ایک سوشل اینیمل ہے) بس کرو! (تمہارا جین خود غرض ہے) بس کرو! (تنہائی کے اس ہاویہ سے ڈرو جس