مجھ سے ملئیے مجھے زندگی کی مزدوری پر لگا دیا گیا ہے میرا تعارف یہ ہے کہ اغواہ شدہ خوابوں کے لواحقین میرے کنبے میں
آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے آج تو جیسے ساری دنیا ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے
وہ جب کتاب ہاتھ میں لیے “حسن کوزہ گر” پڑھتا تو اس کے لہجے میں اِک عجیب درد اتر آتا شروع کی سطریں پڑھتے ہوئے
ہمارے دل ایک نہیں ہوتے مگر کمرے ایک ہوتے ہیں الماری میں الگ الگ طرز کے کپڑے ایک دوسرے سے نہ لپٹ جائیں اسی الجھن
جی کرتا تھا اس چنوتی کو قبول کر لوں، ہاں کہہ دوں۔ لیکن ہماری کمپنی کی آج تک کی سبھی فلموں کی ڈائریکشن بابوراؤ پینٹر
میں بارہ بنکی پہنچا تو رات ہو چکی تھی، اپنے کمرے تک جاتے اور بستر پر دراز ہوتے ہوتے قریب ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔میں
کلام: عبیداللہ علیم آواز: رونا لیلیٰ بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص تمام رنگ
کلام: محمد علی جوہر نعت خواں: قاری وحید ظفر قاسمی تنہائی کے سب دن ہیں، تنہائی کی سب راتیں اب ہونے لگیں ان سے خلوت
[blockquote style=“3”] راجکمار کیسوانی تقسیم ہند کے بعد سندھ سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کرنے والے ایک خاندان میں 26 نومبر 1950
میں اس خوبصورت سی لکڑی کی بینچ پر بیٹھ کر قریب پچیس ہزار بار خود کو سمجھا چکا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے
نہیں نہیں ابھی تو جنگ جاری ہے ساری فوج تمہاری ہے پوری دنیا تمہاری حوصلہ سازی ہے باقی ایک ٹانگ میری بھی باقی ہے میرے
اپنے نام کی طرح ، وہ واقعی انار کی کلی تھی، بہت ہی نازک، خوبصورت اور دل موہ لینے والی۔ یہ اس کا اصل نام