آدھ گھنٹے میں اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلے اس کے ہاتھوں پہ بکھری الجھی لکیروں پر کتنے ہی ان دیکھے رستے ابھر کر آئے اور معدوم ہو گئے ۔ کتنے چہرے مسکراتے ،اسے رلاتے چھیڑتے لجاتے کئی روزنوں سے اپنی اپنی شکلیں دکھا کر چھوٹی چھوٹی لکیروں میں غائب ہو گئے۔
وہ کتنی ہی دیر اپنے ہاتھوں کو دیکھتی رہی.
پوروں پر برسوں پرانا لمس اب بھی موجود تھا ۔ ہاتھ دھونے سے لمس ختم تھوڑا ہی یو جاتا ہے۔
اس نے پوروں کو مسلا ، ان میں نمی محسوس ہوئی۔
پوریں رونے لگیں تھیں۔
اس نے اپنی نم پوروں کو اپنے لبوں سے لگایا۔
لکیریں اپنے رستے چھوڑ کر دائرے بنانے لگیں۔
چند سال قبل چند روپوں سے حاصل کی گئی ایک کتاب پر لکھا قسمت کا حال اسے مزا دیتا تھا۔
وہ اپنے ستارے کے نشان کے ساتھ درج تحریر کو پڑھ کر محظوظ ہوتی۔ اور پورا دن اس سے اپنی قسمت ملاتی رہتی۔
اس کی ہتھیلیاں پہلے ایسے نہیں تھیں۔
جا بجا لکیریں نہیں تھیں ۔ یہ بے انت پھیلا یوا بے ترتیب جال ابھی کچھ برس قبل ہی بنا گیا تھا اپنے آپ ۔
پوروں کو اپنی ہی ہوروں سے مسل کر اس نے نرمی کو محسوس کیا ۔ پانی کے بھرے ہوئے برتن کو دیکھ کر مسکرائی اور چاک پر جھک گئی ۔
موٹر والا چاک آپو آپ گھومنے لگا ۔ اور چکنی مٹی اس کے چکنے ہاتھوں سے اپنی شکل بدلنے لگی ۔
اسے یاد تھا جب پہلی بار اس نے کسی فیسٹول میں موجود اپنے اس شوق کے ہاتھوں موٹر کے چاک پر چکنی مٹی کے ڈھیلے کو ننھے برتن کی شکل دی تھی ۔ تو چاک کے مالک نے باقی سب کی طرح اس کے ہاتھ پانی میں نہیں ڈلوائے تھے ۔
مٹی کا تودا اب شکل اختیار کرنے لگا تھا ۔
رب اپنی صفت اپنے بندے کے ہاتھ میں دے کر شاید اپنی تعریف کروانا چاہتا ہوں ۔
کیسے کیسے نقش گھڑے رب نے ۔
اس نے گلدان کے اندر اپنا آدھا بازو ڈال کر اس کے پیندے کو چھوا ۔
کہنیوں تک مٹی سے اٹے بازو عجیب لطف میں تھے ۔
مٹی کو مٹی بھا رہی تھی ۔
گلدان تقریباً تیار تھا ۔ اس نے گھومتے پہیے سے گلدان کو اتارا اور زمین پر رکھ دیا ۔
مٹی کا ایک اور تودا پہیے پر ڈالتے ہوئے اسے گزری رات کا اس کا ایک ٹی وی چینل کو دیا انٹرویو یاد آ گیا ۔
یا شاید وہ کل رات سے اس پہر تک اسی کیفیت میں تھی ۔
تنہائی بھی کیسی غنیمت چیز ہے ۔ بندے کو سوائے اس کے اپنے ہی خیال کے کوئی ٹہوکا نہیں دیتا ۔
خیالوں کے پنچھی قید کرنا آتے ہوں تو پھر کسی ایک یا ایک کے خیال کو باندھنا سہل رہتا ہے ۔
کیفیت کو ٹکانا اور اس پہ ٹکے رہنا بھی اس کائنات میں ایک چیلنج ہے ۔
دنیا کیفیات کو توڑنے کا اِک مسلسل بہانہ ہے __
اس نے مٹی کو ایک مختلف شکل میں ڈھالا ۔
گھومتا پہیہ مسلسل اپنے کام کر رہا تھا اور وہ اپنا۔
میرے بنانے والے نے مجھے
پہلے توڑا ہے پھر بنایا ہے
آپ کو اکثر ہاتھوں کے بارے بہت کہتے سنا ہے ۔
اس نے اس مختلف سوال پر شکر کا کلمہ پڑھا ۔ مٹی کے برتن جیسے لفظوں والے کئی انٹرویو اس کی اکتاہٹ کے لیے کافی تھے ۔
ہاتھ فریاد ہیں ۔ اٹھ جائیں تو عرش ہلا دیں ۔ گر جائیں تو فرش پر لے آئیں ۔ چھٹ جائیں تو رول دیتے ہیں ۔جڑ جائیں تو بے مول دیتے ہیں ۔ مل جائیں تو کیا نہیں کر سکتے ۔
ہاتھوں میں بڑی طاقت ہے.
وہ مسکرائی تو ہاتھ بھی مسکرانے لگے۔
مٹی سے لت پت ہاتھ اپنے سامنے پھیلا کر وہ مسکرائی
تالی ،تھپکی بڑی اہمیت ہے ہاتھوں کی۔
اس نے پانی کے پیالے سے چاک پر گھومتے مٹی کے تودے پر پانی ڈالا۔
مٹی کا تودا شکل بدلنے لگا تھا۔
ان کے کرب نہ کوئی جان پایا ہے نہ جان پائے گا۔
انھیں لمس کی جو حاجت ہے ۔ اس کی اہمیت صرف یہی جانتے ہیں۔
ان کی بنت میں جو کھدی لکیریں ہیں وہ انھیں بس گھلتے رہنے کا سبق پڑھاتی ہے اور یہ مسلسل رٹتے رہتے ہیں۔
ایک ہی رٹ ۔۔۔۔۔۔
کیسے انتشار چھپے ہیں ان میں ۔ کیسے بھید ہیں ان کی بناوٹ میں۔
چاک پر گھومتا مٹی کا گلدان اس کے سہارے کے بغیر ڈگمگانے لگا۔
اس نے بڑھ کر تھام لیا۔
مٹی کا تودا اس کی پسند کی شکل میں آ چکا تھا۔
پہروں سے ایک ہی جگہ پر بیٹھے رہنے سے اس کی کمر دکھنے لگی تھی۔
اس نے برتن کو اتار کر ایک طرف رکھا اور موٹر کا پلگ نکال دیا۔
اور وہیں زمین پر چت لیٹ گئی۔
سفید ٹائلز کے ٹھنڈے فرش پر اس کے بال بکھرے تھے۔ اور وہ چپ چاپ مسلسل پنکھے کو گھور رہی تھی۔
تیرے سہارے کے بغیر میں ڈگمگانے لگتی ہوں۔ تو تھام لے
اس نے چھت سے پرے سیاہ آسمان پہ پھیلے سیکنڑوں ستاروں سے بھی پرے رب کو پکارا۔
تیرے بت ٹوٹنے لگے ہیں ۔ مٹی آنکھوں میں چبھنے لگی ہے۔
دھول سے سانس اکھڑتی ہے۔
اس نے ناک کے نتھنوں سے نادیدہ مٹی ہٹائی
مٹی کے کئی تودے اس کے ارد گرد منڈلانے لگے،
یہ تودے نہ کبھی کسی بختہ شکل میں آئے نہ کسی کو ان سے کچھ فائدہ حاصل ہوا۔
میں پتھر میں سوراخ کرنے کی قائل نہیں۔
اسے اپنی ہی بازگشت سنائی دی۔
پتھر کا حسن جاتا رہتا ہے۔
اس کے ارد گرد کوئی دائرے بنانے لگا۔
ڈھول کی تھاپ کہیں زمین میں دھمک پیدا کرنے لگی۔
اس کے پیر دھیرے دھیرے کچی زمین پر اٹھنے لگے۔
کچی دھول اڑاتی مٹی اس کے پیروں سے لپٹی تھی۔
مٹی کے کھیل میں سب مٹی ہو جاتا ہے۔
مٹی بن کر پیش ہو جاؤ تب مٹی کے بنے کچے پتلوں کو مجمسوں میں بدل دو تب بھی۔
مٹی جتنی بے ضرر ہے اتنی ہی خطرناک۔ یہ خاکی بڑے ظالم ہیں۔ یہ آگ اور پانی کو قابو میں لانے والے پھر خاکی کہاں رہتے ہیں۔
ہاتھوں کی لکیریں گھنگرو بن کر اس کے پیروں سے لپٹی تھیں۔ زمین میں دھمک بڑھنے لگی اور اس کے رقص میں بھی۔
خاکی خاکی
سب طرف ایک ہی لفظ گھومنے لگا۔
تیز اور تیز
ڈھول پیٹنے والا تھکتا نہ تھا کہ اس کے پاؤں تھک گئے ۔ لکیریں پیروں میں چبھنے لگیں۔
سب طرف خاموشی چھا گئی۔
وہ سفید ٹائلز کے فرش پر جوں کی توں پڑی تھی۔
ویسے ہی بال بکھرے تھے۔
پورا جسم ٹھنڈ کے باوجود پسینے میں تر بتر تھا۔
تم اپنے ناچ دکھا کر مجھے لبھانے کو آتے ہو
مگر میں بہت پہلے کئی گزرے ہوئے
پہلے کبھی بیتے زمانوں سے
رب کی مسلسل چاہ کی مانند
اس کی کسی خصلت سے پُر
مکمل اک دائرہ کرتا ہوں
میں نیکی کا استعارا ہوں
میں انساں ہوں
زمین پر لیٹے لیٹے اونچی آواز میں اس نے کئی بار یہ سطریں دہرائیں۔
اس کی گردن کی رگیں ابھر آئی تھیں ۔ آنکھیں شدت کے باعث پٹھنے کو تھیں۔
سرخ چہرے پر پسینے کے قطرے فرش پر پھیلے اس کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔
میں انساں ہوں
میں انساں ہوں
میں انساں ہوں