غصے کی اک
بے مہر چنگاری
کتنا کچھ جھلسا دیتی ہے
بچوں سے پیار اور دلار
چھین کر
ان کی آنکھوں میں خوف و دہشت بھر دیتی ہے
ماں اپنا سوہنا روپ بھلا کے
بھتنی سی بن جاتی ہے
کبھی کبھی
قبر میں جا کر بھی سو جاتی ہے
اور دنیا سائے کے بنا
اجاڑ جنگل میں بدل جاتی ہے
جہاں الو بسیرا کرتے ہیں
سارے کبوتر اور فاختہ
راستہ بھول کے
ویرانوں کو نکل جاتے ہیں
شکاری کے تیروں سے چھلنی ہو کر
پیٹ کا ایندھن بن جاتے ہیں
کیا تھا اگر
باپ تیز نمک کا سالن کھا لیتا
امن کی فاختہ کے گیت
اور بچوں کی ہنسی
جھلسنے سے بچ جاتی

Leave a Reply