Laaltain

کافور کی مہک اور دیگر نظمیں (حسین عابد)

2 جون، 2021

[divider]کافور کی مہک[/divider]

میں اس پگڈنڈی سے نہیں گزرتا
جہاں میں نے
تمہارے نام کی سرگوشی کی
اور پیڑ جھومنے لگے
ان گنت کلیاں ایک ساتھ چٹک گئیں
اور جگنو بھرے دن میں جھاڑیوں سے نکل آئے
میں ان لوگوں سے نہیں ملتا
جنہیں میں نے تمہاری بابت بتایا
تو ان کے چہرے یوں دمک اٹھے
جیسے حُسن ان پر پہلی بار منکشف ہوا ہو
میں اس گیت سے چھُپتا ہوں
جس کے کھرج پنچم ہم تھے
اور سپتک سپتک اُڑتے تھے
وہ پھول اب بھی کھلتے ہیں
لیکن پگڈنڈی کافور کی مہک سے سنسناتی ہے
وہ لوگ مجھے ڈھونڈتے ہیں
لیکن ان کے چہروں کی دمک
میرا دل تاریک کردیتی ہے
میں اب کہیں نہیں جاسکتا
باہر آسمان سے رنگ برنگے
پرندے گر رہے ہیں

[divider]باسی محبت کا مخمور[/divider]

باسی محبت کا مخمور
گدلی آنکھوں سے نظم کی راہ دیکھتا ہے
نظم اس راہ پر نہیں آتی
جو اپنی ہی تھکن کی گرد سے اٹی
پڑے پڑے ہانپ رہی ہو
وہ اس سوکھی جھاڑی سے دامن بچاتی ہے
جس پر تم پلاسٹک کے پھول ٹانک رہے ہو
وہ اس ندی پر
اپنا عکس دیکھنے کو نہیں جھکتی
جو چار دن کی دھوپ سے ہوا ہوگئی
اور آب دیدہ کنارے
ایک دوسرے کی بانہوں میں آ گرے
شاعری کی دیوی
جعلی پجاری کو دور سے پہچان لیتی ہے
تم بوسیدہ لفظوں کی دھجیاں جوڑ کر
اپنے دل کے مزار پر جھنڈے گاڑتے رہو
نظم ان خطوں کا رخ نہیں کرتی
جہاں تازہ محبت کے پھول نہ کھلے ہوں

[divider]نظم[/divider]

ہم پُلوں پر کھڑے چیلوں میں گوشت بانٹتے رہے
دریا گدلے ہوتے ہوتے جوہڑ بن گئے
مسجد میں زباں دراز نے نقب لگائی
چوکیدار نے ڈنڈا بھی پکڑا دیا
گھر سے پڑھنے گئے بچے
گلی میں جفتی کرتے کتوں کا جشن دیکھتے دن گزار آئے
ذلت بھرے دن کا مقابلہ کرنے نکلا جوان
شام کو سفید بالوں سے بھرا لوٹا
دیمک اور چیونٹیاں مل کر دہلیز چاٹ رہی ہیں
شہتیر ٹوٹنے کی کڑکڑاہٹ پریڈ کی گڑگڑاہٹ میں دب جاتی ہے
سحری کا وقت ہے
پرانے بابے اس گھڑی پُل پر بمب کیچ کیا کرتے تھے

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *