Sunset (عظمیٰ طور)

اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ وقت ڈگی میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی چابی بے چینی سے ادھر ادھر جھولنے لگی۔

پھول (عظمیٰ طور)

میں نے اپنے ہاتھ کی پشت پہ ایک پھول بنایا ہے اپنے سبز زخموں کی ٹہنیوں پر جنہیں تم اپنی توجہ سے راکھ ہونے سے روکے ہوئے ہو

آواز (عظمیٰ طور)

آواز آوازوں کی تاریخ کہاں سے شروع ہوئی اس کن سے اس کے کن سے اور سلسلہ پھیلتا گیا ۔ اس نے لمبا سانس کھینچ کر کرسی سے ٹیک لگا لی. قلم کو بے جان انگلیوں میں تھامے وہ کرسی پہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھی تھی۔ م...

میں پرانی ہو چکی ہوں (عظمیٰ طور)

کسی پرانی کتاب میں بسی باس کی مانند میں پرانی ہو چکی ہوں کسی پوسیدہ تحریر کی مانند کہ جس تحریر کے مٹے مٹے حروف اپنے معنی کھو چکے ہیں میں پرانی ہو چکی ہوں اس ہینگر میں ٹنگی سفید قمیض کی مانند کہ جس کے ک...

سماعتوں کے اندھیرے (عظمیٰ طور)

میں ان سماعتوں سے بھی واقف ہوں کہ جو گفتار کی بیساکھیاں تھیں مگر ٹوٹ چکی ہیں اب کسی کو کسی کے سہارے کی ضرورت کہاں ہے میں اس سماعت کے مفلوج ہونے کی بھی گواہ ہوں جو گفتار کو اپاہج سمجھ کر خود اپنی ہی سناٹوں...

ہاتھ (عظمیٰ طور)

آدھ گھنٹے میں اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلے اس کے ہاتھوں پہ بکھری الجھی لکیروں پر کتنے ہی ان دیکھے رستے ابھر کر آئے اور معدوم ہو گئے ۔ کتنے چہرے مسکراتے ،اسے رلاتے چھیڑتے لجاتے کئی روزنوں سے اپنی اپنی شکلیں دکھا ...

نو سال (عظمیٰ طور)

وہ جب کتاب ہاتھ میں لیے "حسن کوزہ گر" پڑھتا تو اس کے لہجے میں اِک عجیب درد اتر آتا شروع کی سطریں پڑھتے ہوئے وہ اُسے مخاطب کئے اُسے پکارتا "جہاں زاد یہ میں حسن کوزہ گر ہوں" اُس کی آواز کے زیروبم سے "نظم" دلوں...

پختگی (عظمیٰ طور)

میں اس سے جب ملی تھی وہ اپنی عمر کی تین دہائیاں بڑے ہی رکھ رکھاؤ بڑے سبھاؤ سے گزار چکا تھا میں بھی __ بھلا دس برس پہلے میں عمر کے کس حِصے میں ہوں گی؟؟؟ شاید عمر کے اس حِصے میں جہاں خواب بنے جاتے ہیں اور ...

خواب میں اِک بازار لگا تھا (عظمیٰ طور)

آنکھ لگی تو خواب میں اک بازار لگا تھا طرح طرح کے اسٹال لگے تھے ایک ریڑھی پر کوئی مہنگی چیزیں سستے داموں بیچ رہا تھا محبت کی قیمت اتنی کم تھی سنتے ہی میں رو پڑی تھی احساس بیچنے والا مجھ سے نظریں نہ ملا پایا دل ک...

اِک نظم (عظمیٰ طور)

اِک نظم ابھی ابھی الماری کے اک کونے سے ملی ہے دبک کر بیٹھی پچھلے برس کی کھوئی یہ نظم کب سے میں ڈھونڈ رہی تھی اس نظم میں مَیں بھی تھی تم بھی تھے ہم دونوں کی باتیں تھیں دروازے پہ ٹھہری اک دستک تھی گہرے نیلے ر...