آواز
آوازوں کی تاریخ کہاں سے شروع ہوئی اس کن سے اس کے کن سے اور سلسلہ پھیلتا گیا ۔
اس نے لمبا سانس کھینچ کر کرسی سے ٹیک لگا لی.
قلم کو بے جان انگلیوں میں تھامے وہ کرسی پہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بیٹھی تھی۔
م...
کسی پرانی کتاب میں بسی باس کی مانند
میں پرانی ہو چکی ہوں
کسی پوسیدہ تحریر کی مانند
کہ جس تحریر کے مٹے مٹے حروف
اپنے معنی کھو چکے ہیں
میں پرانی ہو چکی ہوں
اس ہینگر میں ٹنگی سفید قمیض کی مانند
کہ جس کے ک...
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جب وقت کا پہیہ اچھی طرح سے گھوم کر
ایک نئے چکر کے لیے
اپنے ہی ہاتھوں سے پھر سے گھمایا جاتا ہے
کہ دنیا رک جانے کے لیے تو نہیں ہے ناں
یہاں کوئی رک جائے اگر
اسے کھڑے پانی کی مث...
میں ان سماعتوں سے بھی واقف ہوں
کہ جو گفتار کی بیساکھیاں تھیں
مگر ٹوٹ چکی ہیں
اب کسی کو کسی کے سہارے کی ضرورت کہاں ہے
میں اس سماعت کے مفلوج ہونے کی بھی گواہ ہوں
جو گفتار کو اپاہج سمجھ کر
خود اپنی ہی سناٹوں...
آدھ گھنٹے میں اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلے اس کے ہاتھوں پہ بکھری الجھی لکیروں پر کتنے ہی ان دیکھے رستے ابھر کر آئے اور معدوم ہو گئے ۔ کتنے چہرے مسکراتے ،اسے رلاتے چھیڑتے لجاتے کئی روزنوں سے اپنی اپنی شکلیں دکھا ...
وہ جب کتاب ہاتھ میں لیے
"حسن کوزہ گر" پڑھتا
تو اس کے لہجے میں اِک عجیب درد اتر آتا
شروع کی سطریں پڑھتے ہوئے
وہ اُسے مخاطب کئے
اُسے پکارتا
"جہاں زاد یہ میں حسن کوزہ گر ہوں"
اُس کی آواز کے زیروبم سے "نظم"
دلوں...
میں اس سے جب ملی تھی
وہ اپنی عمر کی تین دہائیاں بڑے ہی رکھ رکھاؤ
بڑے سبھاؤ سے
گزار چکا تھا
میں بھی __
بھلا دس برس پہلے
میں عمر کے کس حِصے میں ہوں گی؟؟؟
شاید عمر کے اس حِصے میں
جہاں خواب بنے جاتے ہیں
اور ...
آنکھ لگی تو
خواب میں اک بازار لگا تھا
طرح طرح کے اسٹال لگے تھے
ایک ریڑھی پر کوئی
مہنگی چیزیں سستے داموں بیچ رہا تھا
محبت کی قیمت اتنی کم تھی
سنتے ہی میں رو پڑی تھی
احساس بیچنے والا
مجھ سے نظریں نہ ملا پایا
دل ک...
اِک نظم
ابھی ابھی
الماری کے اک کونے سے ملی ہے
دبک کر بیٹھی
پچھلے برس کی کھوئی یہ نظم
کب سے میں ڈھونڈ رہی تھی
اس نظم میں مَیں بھی تھی تم بھی تھے
ہم دونوں کی باتیں تھیں
دروازے پہ ٹھہری اک دستک تھی
گہرے نیلے ر...