کہانی کار!
تم نے مجھے بہت سی نظمیں دی ہیں
اس کے باوجود کہ میں تمہارا لفظ نہیں
ہوا کو سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے
میں نے کئی بار کھڑکی سے باہر جھانکا
اداسی بہت دبیز تھی
مگر میں جانتا ہوں
کہ راستے ترتیب دیتے ہوئے
آنکھیں ہمیشہ مصلحت کے غبار میں گم ہو جاتی ہیں
تمہیں دریا بنے بغیر سمندر سے ملنا آتا ہے
تو پھر مان لو
اَن بہے آنسو بھی عظیم ہو سکتے ہیں
دکھ کسی ایک کا نہیں ہوتا
دکھ تو سب کے ہوتے ہیں
لیکن یقین اور اظہار کے درمیان آنکھوں میں
ایک نمی سی تیرتی رہتی ہے
بارشیں پرائی سرزمینوں پر برسنا چاہتی ہوں
تو انہیں کون روک سکتا ہے
اعتراف کے بغیر سب رشتے بے یقین رہتے ہیں
اگر لفظوں کے بغیر کچھ لکھا جا سکتا
تو مَیں تمہارے لیے بھی ایک نظم لکھتا

کہانی کار!
جب تمہاری آنکھوں کے آسمان میں
آنسوؤں کی روشنائی سوکھ جائے
اور بدن کی زمین کا ملبوس بوڑھا ہونے لگے
اور تم کسی اور وجود کا چولا بدلنے کے لیے
اگلی بار آؤ
تو اپنی کہانی لکھتے ہوئے
ایک کردار میرے نام سے ضرور لکھنا
کیونکہ اگلی بار میں نہیں ہوں گا
میں تو پچھلی بار بھی نہیں تھا
اور اِس بار بھی نہیں ہوں
لیکن تمہیں خواب لکھنے کا تجربہ نہیں
تم نے صرف تعبیریں دیکھی ہیں
کہانی کار!
تم نے ابھی نظم نہیں لکھی!!

Leave a Reply