وہ جب کتاب ہاتھ میں لیے
“حسن کوزہ گر” پڑھتا
تو اس کے لہجے میں اِک عجیب درد اتر آتا
شروع کی سطریں پڑھتے ہوئے
وہ اُسے مخاطب کئے
اُسے پکارتا
“جہاں زاد یہ میں حسن کوزہ گر ہوں”
اُس کی آواز کے زیروبم سے “نظم”
دلوں میں گھر کئے ہوئے تھی
وہ اکثر یہ بھی کہتا
جہاں زاد نو سال ہونے میں فقط دو ہی برس بچے ہیں
میں جو نہ کوزے بنانا جانتا ہوں
اور نہ تیری آنکھیں
مجھے اب تک
کسی قبر کے کتبے کی مانند کر سکی ہیں
کہ اپنی محبت اپنے ماتھے پہ کندہ کر کے
مَیں اس کا یقیں گلے میں ڈالے
گریباں چاک کئے
تیرے بھروسے کی کچی قبر پر ہی ٹک سکا ہوں
مجھے خبر ہے تُو محبت کو پرکھنے کی مَد میں
برسوں کے امتحاں کی قائل نہیں ہے
مگر یہ میری ہی ضد ہے
مجھے یہ نو سال پورے کرنا ہیں
کہ ان برسوں کو جب میں
اپنی محبت کی کہانی سمجھ کر
تجھے سناؤں
تو یہ بتاؤں
کہ میں بھلے ہی حسن کوزہ گر نہیں ہوں
مگر میری جاں !
میرا دل ایک کوزہ ہے
جس میں فقط تیری محبت کی مٹی شامل کر کے
ََمَیں نے اس دل کو
ان برسوں کے ہر ہر پل کی بھٹی میں
اس قدر بختہ کیا ہے کہ
تیری بے یقینی کی ضربیں اس پر کچھ اثر نہیں کرتیں
تو میری جاں تُو ابھی نہ پوچھ
کچھ نہ پوچھ
تو ابھی نو برس کے امتحاں سے مجھے گزرنے دے
Image: Sasha Vinci