کششِ ثقل (رضوان علی)

میرے پیر زمین پہ جمے ہوئے ہیں لیکن میں دراصل اس زمین سمیت خلاء میں تیر رہا ہوں ایک کائنات سے دوسری کی طرف جاتے ہوئے ازل سے ابد تک کا سفر مجھے اپنے اندر ہی طے کرنا ہے بہت جلد سارے خداؤں کے درمیان ایک گھمسان ...

حیرت کا شکار (رضوان علی)

کل ایسا لگا کہ جیسے کسی جنگلی جانور نے پینترہ بدل کر میری کمر پہ کاٹ لیا ہو سینہ، گردن، سر تو شاید ایک آدھ زخم سہہ بھی جاتا لیکن کمر سے جب یکلخت گوشت کا بڑا سا ٹکڑا کاٹ کر نکال دیا جائے تو شکار وہیں ڈھیر ہو ج...

تنہائی (رضوان علی)

شاید اس سیارے پر مَیں اکیلا ہی ہوں اور مجھے کوئی نوے برس کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے باقی سب ہمسفر شاید ابھی سو رہے ہیں جب وہ جاگیں گے تب تک تو یہ سفر ختم ہو چکا ہو گا اس تنہائی کا کوئی سدِ باب ہے؟ کوئی ہمسفر...

زندگی کی کشمکش (رضوان علی)

مجھے ہر سمت سے کھینچا جا رہا ہے رسیاں میرے نتھنوں میں بھی نکیل بنا کر ڈال دی گئی ہیں میرے جوڑ اب مجھ سے الگ ہونے والے ہیں کیا میں یہ سب کچھ سہہ پاؤں گا؟ میں تھکنے سے پہلے مرنا نہیں چاہتا لیکن مجھے مرنے سے پہ...

دھند

رضوان علی: اک کرن دھوپ سے ذرا پہلے آکے کہرے میں ٹوٹ جاتی ہے

عمر قید

رضوان علی: مجھے اپنے ہی جسم میں قید کر دیا گیا ہے پچھلے کئی سالوں میں اس جسم کے اندر مَیں بہت سی عمر قیدیں گزار چکا ہوں

سوم رس

رضوان علی: میں ایک ایسا درخت ہوں جس کی جڑیں زمین سے باہر نکل آئی ہیں

بازیابی

رضوان علی: زندہ لاشوں کی طرح بازیابی پر ان کے اپنے خواب بھی انھیں نہیں پہچان پاتے