دوستو! اب میرے پاس بچا ہی کیا ہے
ایک خواب اور تھوڑی سی تنہائی
تم وہ بھی چھین لینا چاہتے ہو
افسوس کہ تم نہیں جانتے
خود فریبی کا کوئی انت نہیں ہوتا
یہ جہاں سے شروع ہوتی ہے
وہیں پر ختم ہو جاتی ہے
میں نے اپنے ایک خواب اور تھوڑی سی تنہائی کے ساتھ
زندہ رہنا سیکھ لیا ہے
تمھیں پتا ہی نہیں چلے گا
اور میں ایک خواب سے نکل کر
دوسرے خواب میں داخل ہوتا رہوں گا
اور زندہ رہوں گا
ہر زمانے کی اسطورہ کے ساتھ
میں زندہ رہوں گا
پھولوں اور پودوں میں
پہاڑوں، آبشاروں اور جھیلوں میں
نیلی گھاس کے رقبوں،
گلیوں میں کھیلتے بچوں
اور لکیروں کی طرح پھیلے ہوئے راستوں میں
اور سب سے بڑھ کر
تم پر حملہ آور ہونے والی سفاک یادوں میں!!