خواب دیکھنے سے پہلے

خواب دیکھنے سے پہلے
میں نے سونے سے انکار کر دیا تھا
اس جرم کی پاداش میں
تا بہ حیات
میری نیند اُڑا دی گئی!

خواب دیکھنے سے پہلے
میں نے کھڑکیاں کھول دی تھیں
تاکہ نیند میں
دَم گھٹنے کی اذیت سے بچ سکوں
اس جرم کی پاداش میں
میرے گرد
شیشے کی دیواریں کھڑی کر دی گئیں

خواب دیکھنے سے پہلے
میں نے پنجرے میں قید
پرندوں کو آزاد کر دیا تھا
اس جرم کی پاداش میں
میرے گھر کے سارے درخت کاٹ دیے گئے!

خواب دیکھنے سے پہلے
میں نے خواب دیکھنا
اور درخت لگانے سے پہلے
ان کی چھاؤں میں بیٹھنا شروع کر دیا تھا
اس جرم کی پاداش میں
میری آنکھوں میں
ہمیشہ کے لیے دھوپ بھر دی گئی!

دھوپ کے بغیر سائے

دنیا اتنی ناخواندہ نہیں
کہ ایک نظم نہ پڑھ سکے
زمین اتنی بھاری نہیں
کہ ہم اسے اٹھا ہی نہ سکیں
اور آسمان اتنا ہلکا نہیں
کہ اسے چادر کی طرح تان لیا جائے
اور تم محبت کو اتنا آسان مت سمجھو
یہ کسی بھی طرح
ہمارے لیے نہیں بنائی گئی
دیکھتے نہیں
ہمارے جوتوں سے ہوائیں بندھی ہوئی ہیں
اور ہاتھوں پہ پانیوں کے دستانے ہیں
رات ہمیں کب تک چھپائے رکھے گی
ایک دن عریانی ہمارے جسموں سے طلوع ہو گی
اور ہم بھری کائنات میں
ایک دوسرے کی آنکھوں سے پناہ مانگیں گے!!

پتا نہیں یہ نظم اکتوبر کی ہے یا اپریل کی!

ہم اکتوبر میں ملے
جب پتے درختوں سے
الگ ہونے کی تیاری کر رہے تھے
ہم اکتوبر میں ملے
جب دھوپ نرم پڑ چکی تھی
اور آسمان
سفید بادلوں کے مرغولوں سے
چمک رہا تھا
ہم اکتوبر میں ملے
جب پہاڑ
دور سے بھی صاف دکھائی دے رہے تھے
ہم اکتوبر میں ملے
جب پرندے
پانیوں سے ہم آغوش تھے
اور جھیلیں
ان کی پھڑپھڑاہٹ سے لبالب تھیں
ہم اکتوبر میں ملے
لیکن ہم اکتوبر میں جدا نہیں ہوں گے
کیوںکہ ہماری جڑیں
اپریل میں پیوست ہیں!

تمہاری محبت میں

مَیں تمہاری محبت میں
ستارے توڑ کر نہیں لا سکتا
لیکن ایک پھول ضرور پیش کر سکتا ہوں
مَیں تمہاری محبت میں
دریا نہیں بن سکتا
لیکن ایک کشتی ضرور بنا سکتا ہوں
مَیں تمہاری محبت میں
آنکھیں دان میں نہیں دے سکتا
لیکن ایک خواب ضرور دے سکتا ہوں
مَیں تمہاری محبت میں
دنیا فتح نہیں کر سکتا
لیکن بے قصد ایک سفر پہ ضرور جا سکتا ہوں
اور ایک راستہ بنا سکتا ہوں
مَیں تمہاری محبت میں
محبت کے علاوہ
کچھ بھی نہیں کر سکتا
یہاں تک کہ ایک نظم بھی نہیں لکھ سکتا!

کافی پلانیٹ (Coffee Planet)

میں نہیں جانتا
یہ کون سا سیارہ ہے
ہم جہاں بیٹھے ہوئے ہیں
زمان و مکاں کا کون سا گوشہ ہے
جہاں چوکور میز اور خم دار کرسیاں بچھی ہیں
کائنات کی کون سے دشا ہے
جہاں روشنی اور اندھیرا ایک سا ہے
اور لامتناہی ابعاد میں
باتوں کی مسلسل گونجیلی بھن بھن
اور کافی کی چاکلیٹی مہک پھیلی ہوئی ہے
لیکن اتنا جانتا ہوں
کہ وقت مجھے تم سے بہت دُور لیے جا رہا ہے!

اُم الحُب

اور جب تم دیکھو
کہ رات گہری ہو گئی ہے
اور زندگی اپنے دروازے بند کر رہی ہے
تو تم ایک محبت اور کرنا
پہلی محبت جیسی
حیران کن
جسم کو بیدار،
روح کو سرشار کر دینے والی
گزری ہوئی ہر محبت سے بڑی
تمام محبتوں کی ماں
بے تحاشا
کبھی نہ ختم ہونے والی
وقت کی طرح
دھیرے دھیرے
موت کے دائمی لمس سے
ہم کنار کر دینے والی
خدا کو
سوگوار کر دینے والی!

میں تمہارے مدار میں واپس نہیں آؤں گا

مشینی گھوڑے پر زین کستے ہوئے
میں نے دیکھ لیا ہے
سایوں کو دیواروں کے پیچھے چھپتے
اور خود کار دروازوں کو بند ہوتے ہوئے
میں جان چکا ہوں
میرا سفر کبھی ختم نہیں ہو گا
رصد گاہوں کے اس پار
زمین کے بیضوی سرے سے پھسل کر
محبت قریبی بلیک ہول میں گر گئی ہے!

Leave a Reply