یہ عجیب خط ہے کہ میں ہی اسے لکھ رہا ہوں اور میں ہی اسے پڑھے جاتا ہوں، تسبیح کی طرح، صبح شام۔ میں نے ضرورت سے زیادہ چشموں سے باتیں کی ہیں، قطروں کی ہنسی کو چھوا ہے، سرسراتی ہوا کی اداسی کو گھنٹوں چکھا ہے۔ میں سچ سن چکا، وہ سچ جو قبروں میں مقید مُردوں کو سنائے جاتے ہیں۔ وہ سچ جن کی تجلی زندوں کے حواسِ سامعہ کو سرمہ کر دے۔
تو پھر یہ سچ مجھے کیوں سنائے جا رہے ہیں؟ میں تو زندہ ہوں___کیا میں زندہ ہوں؟؟
جون گر رہا تھا، کالے بادلوں سے بارش کے قطروں کے ساتھ۔ وہ بھی ایک قطرہ تھا،خون کا، ایک لوتھڑا، ایک جنین، بچہ دانی کی تلاش میں۔مگر جس بچہ دانی میں اسے جگہ ملی وہ خاردار تاروں سے گِھری تھی-جس کے باہر بندوق بردار لمبے قد اور داڑھی والے، پٹے رکھے پہرہ دار، پہرہ دے رہے تھے۔یاداشت کے خالی رخنے تخلیق کیے جا رہے ہیں، جہاں چالیس سال بعد وہ اپنی تخلیق کے بوسیدہ پنے کھودنے آئے گا۔ دل میں خدا کا وہم پرویا جا رہا تھا جہاں چالیس سال بعد خدا کی جگہ ایک شگاف ہو گا، کالے بادلوں میں گِھرا۔۔ وہ زبانوں کےاس بدنصیب شہر میں پیدا ہوا جہاں چپ کا دریا بہتا تھا۔
“حقیقت وہ شام ہے جس کا ڈوبتا سورج گگن کے چہرے پر اپنی سرخ پیک تھوک کر نہاں ہوتا ہے۔
تف ہے تمہارے پندار کی پنہاں داریوں پر ، اپنی خام خرد کے خُنخُنے سن رہے ہو؟ سورج ڈوبا نہیں کرتے، تم ڈوب رہے ہو!” اس نے سوچا۔
سک سک سک
ادھورے کمرے کا پنکھا، جو خراماں خراماں چلے جا رہا تھا، جس کے پروں پر سرخ ساڑھی پہنے ایک عورت کا خاکہ بنا تھا، رک گیا اور وہ تین حصوں میں بٹ گیا۔ جون جو خاموشی سے چارپائی پر لیٹا اپنی تخلیق کے سحر میں محصور تھا، بجلی جاتے ہی دنیا میں واپس آگیا تھا۔ اس کے کمرے کی دیواروں پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر آویزاں تھیں جو اس نے پچھلے کئی سالوں میں کھینچی تھیں۔
ہا! بے معنی تصاویر!
اب اسے اُن سے کوئی لگاو نہیں تھا۔ وہ انکا انتا عادی ہو چکا تھا کہ انکے فریمز کے اندر سےدیوار کے اُکھڑتے پینٹ کو دیکھ سکتا تھا۔
بلڈ پریشر مشین کا پارہ جو ہر رات اس کی شریانوں کی تغیانی پر کان دھرتا، چڑھے جاتا اور سرگوشی کرتا کہ مورکھ ! سوالوں سے کہہ دے رات کی چادر اوڑھ کر سو جائیں یا انہیں کسی پیٹی میں بند رکھ ،اور مغز میں فروعی عادتوں کی غلاظت بھر!
مانا کہ زندگی اور اس سے متصل تمام محرکات بے معنی ہیں، اس شعبدہ بازی کو شیڈو باکسنگ سمجھ، تیرا خرخشہ، تیری ہی خصومت___ تو خود تجھی کو لڑنا ہے۔ لال بوشٹیں پہنے یہ بود اور نبود کے بونے ہمیشہ ناچتے رہیں گے ___ انہیں صرفِ نظر کر دے۔
خفقان کسی نہنگ کی مانند ساحل پر اس کے محزون دل کو نوچ کھانے میں مصروف تھا-
جبلت، خصلت کیسے بھونڑے الفاظ ہیں اس نے سوچا۔ پر حقیقت جتنی بھونڈی ہو اتنی ہی یقینی ہوتی ہے۔جون زندگی کے تجربے کو پھوکل دلائل سے بھر دینا چاھتا تھا۔ پر زندگی کے ارادے جسے شوپنھار نے “ول آف لائف” کہا تھا اس سے کہیں زیادہ پختہ تھے۔
“زندگی ایک پچھل پیری ہے”وہ بڑبڑانے لگا،
“جو روحیں نگلنے پر قادر ہے۔”
“ہم بھاگ رہے ہیں اور بے لاگ بھاگ رہے ہیں، شورہ پشت بونے! گمبدِ خِضرا کے برجوں کو تسخیر کرنے کےخواہاں اور خود کی رمیدگی سے مُسَخّر ___ پِپڑی جمے ہونٹوں پر لالیاں لیپنے والے، سوختہ گالوں پر غازے تھوپنے والے___ تف ہے ہم پر “وہ ہنسنے لگا۔
ڈاکٹر عالیہ مننجائٹس کے مرض میں مبتلا جون کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ وہ مسکراتا، بڑبڑاتا مریض اس کے لئے بو العجب نہ ہوتا اگر اس نے اپنی بیوی کی ساڑھی پہن نہ رکھی ہوتی، اپنے پھٹے ہونٹوں پر اسکی لپسٹک لیپ نہ رکھی ہوتی۔ جلال لالا جرنیٹر چلا آیا تھا۔اور پنکھا گھومنا شروع ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی جون کی آنکھیں بھی۔
وہ نظمیں جو کبھی نوجوانی میں جون نے لکھیں، سٹیپٹوکوکس کے جرثوموں کے ساتھ برہنہ ناچ ناچ رہی تھیں۔ ڈاکٹر عالیہ نے جلال لالا کو جون کے سر اور گٹنوں کو جوڑ کر سختی سے پکڑنے کو کہا۔ اور ایسا کرتے ہی سرنج جون کی ریڑھ کی ہڈّی کے مُہروں میں انجیٹ کر دی، پِسٹَن کھینچتے ہی رقص کناں جرثوموں کا ایک غول ٹیکے میں بھر گیا۔
“ترے بغیر مری نیند کے صفحوں پر،
خالی قلم سے خاموش نظمیں لکھی گئیں
نِب میری کھال کی پپڑیاں اتارتی ہے
جیسے اُکھڑتے پینٹ سے لیپی دیواریں
کمرے میں ایک خاص سڑانھد ، بھر دیتی ہے
میرے خوابوں کے سیم زدہ کمرے بھی
ایسی ہی باس سے بھرے ہیں”
جرثومے ابھی بھی گنگنا رہے تھے۔
ڈاکٹر عالیہ نے جلال لالا کو بتایا کہ بیماری کی علامتیں گردن توڑ بخار کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
جلال لالا نے کھنگارتے ہوئے کہا :
” ڈاکٹر صاحب برا نہ مانیں تو عرض کروں، ہمارے والد امروہے کے بہت بڑے حکیم تھے، وہ اخوینی البخاری صاحب کی کتاب کا ذکر کرتے تھے، سنا تو ہو گا بخاری صاحب کے بارے آپ نے ؟
بڑے حکیم ہوئے ہیں وہ،
مالیخولیا کے بارے میں بخاری صاحب کی کتاب میں ذکر ہے بابا کہتے تھے ،
ایک ان دیکھا ڈر، ایسے سوالوں کا دل میں اٹھنا کہ جن کے جواب نہ ہوں، خود پہ ہنسنا، خود پہ رونا، بے وجہ بڑبڑانا۔ یہ سب تو ہے ان کو، ورنہ کون پہنتا ہے اپنی بیوی کی ساڑھی، لپ اسٹک لگائی ہے دیکھو ”
اور اس نے رونا شروع کر دیا۔
وہ جون کے پاس گیا اور اس کے ہونٹوں سے لپ اسٹک اتارنے لگا۔ عالیہ نے بوڑھے جلال کی بات سنی ان سنی کر دی۔
“کل تک ٹسٹ کے رزلٹ آ جائیں گے۔ میں انٹی بائٹک لکھ رہی ہوں فوراً لائیے اگر صبح تک حالت بہتر نہ ہو تو فوراً ہسپتال داخل کیجیے۔
میں صبح راونڈ پر ہی ہوں گی۔ مجھ سے آ کہ ملیے گا۔ میں بتاوں گی آگے کیا کرنا ہے۔ ”
یہ کہہ کر عالیہ نے اپنی سٹیتھو سکوپ اٹھائی اور باہر کی طرف چل دی۔ خاموشی کا سفید شور، جون کے کانوں کے پردوں کو ہزاروں ٹڈیوں کی ماند کتر رہا تھا کہ اخیونی البخاری نے جون کے کان میں سرگوشی کی “السوداء”، ” السوداء”، “السوداء”۔
اور اس سودائی جون کی تلی سے بلیک بائل کا اس قدر اِخراج ہوا کہ ایک اِستخر بن گیا۔ اور وہ اس بلیک بائل میں ڈوبنے لگا۔ ابن سینا کی کتاب ” القانون فی الطب ” کے صفحے خود کو جَگَتی چھند میں بڑبڑانے لگے۔ چھند کے 48 اکشر جون کی ناف سے نئی ناڑ بن رہے تھے وہ ایک جنین بن گیا تھا۔ ایک فیٹس۔
کہ پھر اچانک ___ لوگوں کے قدموں کی آوازیں طبلے کی تال بن گئیں۔
تا، کی، تَا، کی، تَا، دِھن، گِھنا، تُم۔
راگ للت ہسپتال کی اس صبح کے کشکول میں ریزگاری بھرنے لگا۔
ایک رکی ہوئی چیخ، ہوا میں معلق تھی جیسے سیاہی کی بوند پانی میں لٹک رہی ہو۔ نگار نے، جس کے دائیں گال پر ایک کالا آنسو چمک رہا تھا، زور سے کہا:
“میں جا رہی ہوں جون ”
اور اس کے جاتے ہی وہ خاموش ہو گیا۔ یوں جون خاموشی کےخالی گلاس میں مقید تھا، مقید ہے ۔ وائن کی بوتل آدھی ہو چکی تھی اور وہ شعر بڑبڑا رہا تھا۔
اس کو کیسے نکالیے دل سے
ہم کہ دل ہی نکال بیٹھے ہیں
دل سے مردے کے خون پینے کو
کچھ گِدھوں سے ملال بیٹھے ہیں
محبتیں بھلائی جا سکتی ہوں گی، عادتیں نوچ کھاتی ہیں۔ ہم خود کو محبتوں اور عادتوں کے رخنوں میں بھرتے ہیں۔ اور ایک دفعہ یہ رخنے بھر جائیں تو ان سے نکلنا محال۔
جون بڑبڑانے لگا
” وائے عادتیں !! اور حیف ان کے رخنے !!جن کی غلام گردشوں میں آدمزاد برہنہ مقید ہیں۔”
“کیا بکتے ہو، کیوں بکھارتے ہو۔۔۔ خاموش!”
“تمام یاوہ گویان ساکت باشید!
تمام ہرزہ گویان بےصدا باشید!”
جون کے لئے عالیہ کی آواز کسی شور سے زیادہ نہیں تھی۔ اس کی تصویروں کی طرح، جن کے اندر سے وہ اُکھڑتے پینٹ کی پپڑیاں دیکھ سکتا تھا۔ یہی نہیں وہ اپنی لال آنکھوں سے کئی سال آگے کئی سال پیچھے دیکھنے پر مقدور تھا۔
“خاموش!!! خاموش!! سفید شور خاموش!!!”
جون نے کئی سال بعد یا کئی سال پہلے پر نظر کی، تو دیکھا کہ ایک زمیں دوز غار سے بارہ سنگے یکے بعد دیگرے نکل رہے ہیں۔ اور پھر جون خود نکلتا ہے۔ وہ خود ایک بارہ سنگا بن چکا ہے ۔ اچانک ایک ہیجانی گرم چیخ جون کے دل میں داغ دی جاتی ہے، وہ کراہ رہا ہے۔ لہو آہستہ آہستہ جون کے پیٹ سے نکل رہا ہے اور اسکے نافہ سے نکلتی مُشک سارے میں پھیل رہی ہے۔
ٰImage: Zedekiah Schild