چائے خانہ میں
ہم روز ملتے ہیں
اگلے دن پھر ملنے
اور جدا ہونے کے لیے
چائے خانہ میں
آملیٹی رغبت
ہماری لمسائی ہوئی زبانوں میں گدگدگی کرتی ہے
اور ہمارے چکنے دہن
انواع و اقسام کے
خاگینوں اور پراٹھوں کی لذت سے
کھچا کھچ بھر جاتے ہیں
چائے خانہ میں
ہمارے ہاتھ سفید مٹی کی پیالیوں کو چھوتے ہوئے
ایک دوسرے کو محسوس کرتے ہیں
اور ہمارے ہونٹوں پر
مسکراہٹ کی براؤن شوگر پھیل جاتی ہے
چائے خانہ میں
باہر سے گزرنے والوں کو
ہم خاموش فلموں کی طرح دکھائی دیتے ہیں
اور کسی کو سنائی دیے بغیر
بولتے رہتے ہیں
اور چھت میں لگے خفیہ کیمرے
ہماری حرکات و سکنات پہ نظر رکھتے ہیں
چائے خانہ میں
دنیا کے عظیم ترین مصنف
شاعر اور فلسفی
اور قدیم وقتوں کے گوتم اور پیغمبر
ہمارے پاس آ کر بیٹھ جاتے ہیں
لیکن وہ ہمارے علاوہ
کسی کو نظر نہیں آتے
اور ارد گرد کی میزوں پہ بیٹھے لوگ
ان سے اور ہم سے لاتعلق
مَنی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ
ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں
چائے خانہ میں
ہماری مختصر شاموں کی
آدرشی محبت پروان چڑھتی ہے
اور طویل راتوں کی چسکوری تنہائی
چٹخارے لیتی ہے
اور آس پاس بیٹھے محبتی جوڑے
ہماری طرف دیکھے بغیر
سیلفیاں بناتے رہتے ہیں
چائے خانہ میں
ہم روز انقلاب لاتے ہیں
اور دنیا کو بدل کر رکھ دیتے ہیں
اور اٹھنے سے پہلے
بوجھل دل کے ساتھ
بھاری بل معہ سیلز ٹیکس ادا کرتے ہوئے
ویٹر کو ٹپ دینا نہیں بھولتے