اور جب تم دیکھو
کہ رات معمول سےطویل ہو گئی ہے
اور سورج طلوع ہونے کا نام نہیں لے رہا
تو تم صبح کی واک
ملتوی کر دینا
اور پورچ کی گُل کی ہوئی بتیاں
پھر سے روشن کر دینا

اور جب تم دیکھو
کہ ہوا ہموار راستوں پر
چلنے سے گھبرانے لگی ہے
اور پہاڑ راتوں رات
اپنی جگہ بدل رہے ہیں
اور درخت جنگلوں سے بھاگ کر
سڑکوں کی اطراف میں پناہ لے رہے ہیں
تو تم کسی بھی وقت
کسی بھی سمت روانہ ہونے کے لیے
سفر کی پوٹلی تیار رکھنا

اور جب تم دیکھو
کہ دنیا ایک نادیدہ وبا میں گِھر چکی ہے
اور جنازوں کی تعداد
پیدا ہونے والوں سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے
اور انسان انسان سے مِلتے ہوئے گھبرانے
اور چہرہ چھپانے لگا ہے
اور تنہائی ایک ناگزیر ضرورت بن گئی ہے
تو تم اپنا دروازہ
کبھی نہ آنے والوں کے لیے کھول دینا

اور جب تم دیکھو
کہ بچے تمہاری باتوں سے بور ہونے لگے ہیں
اور تمہارا علم اور تجربہ
ان کے لیے بےکار ہوتا جا رہا ہے
تو تم ان کے درمیان سے اٹھ جانا
اور پرانی پڑھی ہوئی کتابیں
پھر سے پڑھنے لگ جانا

اور جب تم دیکھو
کہ سچ کا پکوان چکھتے ہوئے
دستر خوان پر خاموشی چھا جاتی ہے
اور جھوٹ کا ذائقہ
سب کو اچھا لگنے لگا ہے
تو تم انگلیاں چاٹنے سے گریز کرنا
مبادا تمہاری شناخت کے نشان معدوم ہو جائیں
اور بائیو میٹرک تصدیق نہ ہو سکنے پر
تم اپنے ہی ملک میں اجنبی قرار دے دیے جاؤ

اور جب تم دیکھو
کہ زندگی میں محبت کم
اور کھانے پینے کی چیزیں وافر ہو گئی ہیں
تو تم اپنے کتابوں سے بھرے کمرے میں
عین کھڑکی کے سامنے
بستر پر نیم دراز ہو کر
منع کیا گیا مشروب پیتے،
موسیقی سنتے
اور دل ہی دل میں
نہ لکھی جا سکنے والی نظمیں دہراتے ہوئے
ایک آرام دہ موت کا انتظار کرنا
سنا ہے وہ اپنے سچے طالب کو
کبھی دغا نہیں دیتی!
Image: Aleister Crowley

Leave a Reply