ابدیت کے پارک میں واک (نصیر احمد ناصر)
اور پھر ہم چلتے رہے ٹیڑھے میڑھے مگر ہموار ٹریک پر ہاتھوں میں موبائل پکڑے ہیڈ فون کانوں پہ چڑھائے…
نصیر احمد ناصر پاکستانی اردو شاعری کا نمایاں اور رحجان ساز نام ہے۔ آپ کی شاعری دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ وہ چکی ہے۔ آپ 'تسطیر' کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالتے رہے ہیں۔
اور پھر ہم چلتے رہے ٹیڑھے میڑھے مگر ہموار ٹریک پر ہاتھوں میں موبائل پکڑے ہیڈ فون کانوں پہ چڑھائے…
کیا تمہارے لیے محبت کھلا دروازہ نہیں تھی
دوستو! اب میرے پاس بچا ہی کیا ہے ایک خواب اور تھوڑی سی تنہائی
زمین کے بیضوی سرے سے پھسل کر محبت قریبی بلیک ہول میں گر گئی ہے!
تم تک کب پہنچیں گے میری نظموں کے سگنل!
میں نے کبھی نظموں کا پیچھا نہیں کیا لیکن جانتا ہوں لفظ کہاں سے آتے اور کہاں گم ہو جاتے…
نصیر احمد ناصر: چائے خانہ میں ہم روز ملتے ہیں اگلے دن پھر ملنے اور جدا ہونے کے لیے
نصیر احمد ناصر: ایک بار لگ جائے تو زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتی
نصیر احمد ناصر: میرے پاس بہت سی دھوپ ہے اور بہت سی چھاؤں
نصیر احمد ناصر: میں نے کہا تھا دروازے بند ہو جائیں گے اور تم نہیں مانتے تھے
نصیر احمد ناصر: ہم اپریل میں پیدا ہوئے لیکن ہماری موت پتا نہیں کس ماہ، کس موسم میں ہو گی
اور جب تم دیکھو کہ رات معمول سےطویل ہو گئی ہے اور سورج طلوع ہونے کا نام نہیں لے رہا…
مجھ تک آنے کے لیے ایک راستہ چاہیے جو پاؤں سے نہیں دل سے نکلتا ہو مجھ تک آنے کے…
کہانی کار! تم نے مجھے بہت سی نظمیں دی ہیں اس کے باوجود کہ میں تمہارا لفظ نہیں ہوا کو…