انسان ہمیشہ سے کائنات میں ہونے والے مختلف اور متنوع مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرتا آیا ہے۔ یہ مختلف قسم کی اشیاء جیسے آسمان، زمین، پہاڑ، نباتات، جمادات و حیوانات اور متنوع قسم کے مظاہر جیسے روشنی، بجلی، مقناطیسیت ،موسموں کی تبدیلی، دن رات کا بدلنا، سمندروں کی لہروں، چاند اور سورج کی مقامی تبدیلی اورحرارت و حرکیات وغیرہ کو دیکھتا اور انکے بارے غوروفکر کرتا ہوا نت نئے اندازے لگاتا رہا ہے۔ جدید سائنس نے اب سے 400 سال قبل یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد ان مظاہر میں پائے جانے والی یکسانیت اور ان میں موجود قوانین کی دریافتوں نے جدید دور کے انسان کا تصور کائنات ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔اس تصور کائنات کی تصویر کشی کرنے والے سائنسدانوں میں کوپرنیکس، گلیلیو، برونے، کیپلر، لائیبنیز، لاپلاس، نیوٹن، فیراڈے، میکسول، بولٹزمین،ایڈیسن،گاؤس، ریمان، آئن سٹائن،پلانک،شروڈنجر، بوہر، ہائیزنبرگ، ڈیراک، پالی، فائن مین، ستیندرناتھ بوز، چندرشیکر، عبدالسلام اور دیگر بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ انہی ناموں میں بیسویں اور اکیسویں صدی کا ایک عظیم نام سٹیفن ہاکنگ ہے۔

سٹیفن ولیم ہاکنگ انگلستان کے شہر آکسفورڈ میں 8 جنوری 1942ء کو پیدا ہوئے۔یہ دور دنیا میں جنگ عظیم دوم کا تھا۔ آپ کے والد فرینک ولیم ہاکنگ ایک کسان کے بیٹے تھے ۔ فرینک نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ادویات کے شعبے میں مہارت حاصل کی اور جنگ عظیم میں انگلستان کے لئے میڈیکل کی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اسی یونیورسٹی میں انکی ملاقات ایزوبل نامی خاتون سے ہوئی اور انہوں نے شادی کرلی۔ یہ نوبیاہتا جوڑا جنگ کے دنوں میں لندن میں قیام پذیر تھا ۔ جہاں ہر وقت گولہ باری کا امکان رہتا تھا اسی لئےجس وقت انکے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہونے والی تھی تو یہ لوگ آکسفورڈ منتقل ہوگئے جہاں جرمنی فوجوں کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت گولہ باری کے امکان کم تھے۔

جنگ بندی کے بعد یہ لوگ دوبارہ لندن کے قریب ایک تاریخی جگہ منتقل ہوگئے جہاں سٹیفن کی دو بہنیں میری اور فلیپا اور ایک بھائی ایڈورڈ پیدا ہوئے۔ فرینک اور ایزوبل دونوں ہی کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ دونوں نے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔فرینک چونکہ ایک غریب کسان کا بیٹا تھا لہٰذا وہ سٹیفن کی تعلیم اور اسکی ترقی کابہت خواہاں تھا۔ وہ اسے ایک مشہور پرائیویٹ سکول ‘ویسٹ منسٹر’ میں بھیجنا چاہتا تھا جس کی فیس کافی زیادہ تھی مگر وہاں وظیفے کا امتحان دے کر مفت تعلیم حاصل ہوسکتی تھی۔لیکن عین داخلے کے امتحان کے وقت سٹیفن انتہائی بیمار ہوگیا۔ اس لئے اسکو ایک دوسرے عام سکول میں داخل کروایا گیا۔

سٹیفن اگرچہ انتہائی ذہین طالبعلم تھا لیکن یہ اپنی جماعت میں ہمیشہ اوسط پوزیشن پرہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سکول کے اساتذہ یا دیگر طالبعلم اسکے بارے میں کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کرتے تھے۔اس کا ذہن بچپن ہی سے جاننے اور سچائی کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ مختلف کھلونوں، ریڈیو اور گھڑیوں کو توڑ کر انکے اندرونی سٹرکچر اور کام کرنے کے طریقے دریافت کرتا تھا۔ اسی لئے اسے سائنس سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ اسکے والد فرینک نے اسکو بائیولوجی اور ادویات کی طرف مائل کرنا چاہا مگر وہ بائیولوجی میں ویسی دلکشی محسوس نہ کرتا تھا جیسی حقیقت کی تلاش اسے انتہائی بنیادی قوانین فطرت کی طرف مائل کرتی تھی۔

اسی لئے یونیورسٹی میں پہنچ کر ستیفن نے تہیہ کر لیا کہ وہ صرف اور صرف ریاضی اور فزکس پڑھے گا لیکن اس کے والد نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ ریاضی پڑھنے کے بعد صرف تعلمی شعبے میں بطور معلم بھرتی کے علاوہ کوئی خاص نوکریاں نہیں ملتی تھیں ۔ والد کے اصرار پر ہاکنگ نے زیادہ تر کیمسٹری اور فزکس پڑھی اور بہت کم توجہ ریاضی پر دی۔ اسی دوران اس کو نفسیات میں دلچسپی ہوئی خصوصی طور پر جس میں اشیاء کو ذہن کی قوت سے کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن بہت جلد اس کو محسوس ہوا کہ یہ دھوکہ دہی کا علم ہے اور تجربات کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔آکسفورڈ میں داخلے کے لئے انٹرویو میں فزکس کے مضمون میں ہاکنگ نے زبردست کامیابی حاصل کی اور 1959ء میں سترہ سال کی عمر میں وہ آکسفورڈ میں فطری علوم خصوصی فزکس پڑھنے چلا گیا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی بہت سے کالجز کا مجموعہ ہے۔ جس میں سے یونیورسٹی کالج کی بنیاد 1249ء میں رکھی گئی تھی ۔ اسی کالج میں سٹیفن کے والد بھی محقق کا کام کرتے تھے ۔سٹیفن اس کالج میں تنہائی محسوس کرتا تھا۔ کیونکہ اسکے زیادہ تر ہم جماعتی طلباء جنگ عظیم دوم میں خدمات سرنجام دینے کے بعد داخل ہوئے اور عمر میں بڑے تھے۔اگلے ہی سال سٹیفن نے خود میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی۔ اس نے خود کو پڑھاکو بچہ بنانے کی بجائے باقی طلباء کے ساتھ گھل مل کر رہنے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے لمبے بال رکھ لئے۔ وہ کلاسیکل موسیقی سنا کرتا اور سائنس فکشن کے ناول پڑھا کرتا تھا۔ اس سارے کام کے لئے وافر وقت میسر تھا کیونکہ آکسفورڈ میں تعلیمی سرگرمی بہت آسان تھی اور تین سال کی ڈگری میں صرف ایک امتحان ہوتا تھا۔سٹیفن کے اساتذہ جیسے رابرٹ برمن وغیرہ کے مطابق اسکے لئے فزکس کی ڈگری ایک کھیل تھا۔ وہ جس کام کو کرنا چاہتا ا سے فوری سرانجام دے لیا کرتا تھا۔ تیسرے سال سپیشلائزیشن کے لئے ہاکنگ کے پاس دو مضامین یعنی پارٹیکل فزکس یا کاسمولوجی میں ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ ہاکنگ نے کاسمولوجی کا انتخاب کیا کیونکہ یہ علم کائنات کے بارے بڑے سوالات پر کام کرتا ہے یعنی کائنات کب، کیسے اورکیوں پیدا ہوئی؟

آکسفورڈ سے گریجوایٹ مکمل ہونے پر ہاکنگ کا ارادہ تھا کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی میں اس وقت کے مشہور پروفیسر فریڈ ہوئیل کی شاگردی اختیار کرے لیکن اسکے لئے داخلے کے امتحان میں ‘فرسٹ’ درجہ پرآنا شرط تھی۔ ہاکنگ امتحان کو لے کر بہت پریشان ہوا اور اسی عالم پریشانی میں وہ دوسرے اور پہلے درجے کے مابین جا سکا۔ اس کو انٹرویو میں جب پوچھا گیا کہ اب وہ کیا چاہتا ہے؟ تو اس نے جو جواب دیا وہ بہت مشہور ہوا۔ اس نے کہا” اگر آپ مجھے پہلا درجہ دیں تو کیمبرج جاؤں گا۔ اگر دوسرا درجہ ملا تو آکسفورڈ ہی میں رہوں گا”۔ انہوں نے اسے پہلا درجہ دیا۔اس کے استاد کے مطابق "انٹرویو لینے والے کم از کم اتنے ذہین تھے کہ وہ اپنے سے زیادہ ذہین سٹیفن کو جان سکے”۔

کیمبرج میں ہاکنگ کو انکی خواہش کے برخلاف فریڈ ہائیل کے بجائے ڈینس شیاما نامی ایک گمنام ریاضی کے پروفیسر کو سپروائزر بنانا پڑا۔اسی دوران اسکو عجیب سے دورے پڑنا شروع ہوگئے۔ وہ اچانک گر پڑتا۔ یا گرنے کے بعد خود کو اٹھا نہیں پاتا تھا۔ 1963ء تک اکیس برس کی عمر میں ان دوروں میں کثرت کے باعث ہاکنگ کومیڈیکل ٹیست کے لئے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ ڈاکٹروں نے انکے ٹیسٹ کرنے کے بعد صرف اتنا کہا کہ اسے کوئی عام بیماری نہیں ہے۔ وہ کیمبرج چلا جائے اور جلد اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لے۔سٹیفن کو موٹر نیورون معارضہ لاحق ہوا تھا جس میں جسم کی اعصابی حرکت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے اور جسم مردہ ہوتا جاتا ہے۔اس بیماری کا کوئی علاج موجود نہیں تھا۔اس کے پاس اب صرف زندگی کے دو سال باقی تھے۔

ہاکنگ کے لئے ایسی لاعلاج بیماری ایک دھچکے سے کم نہ تھی۔ اسے ایک وقتی سا ڈیپریشن بھی رہا۔ لیکن اس کے بقول وہ جب اپنے اردگرد ہسپتالوں میں لوگوں کو درد میں دیکھتا تو وہ خود کو تسلی دیتا کہ اسے درد کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ مزید براں وہ اپنی زندگی سے پہلے بھی اتنا خوش نہیں تھا۔ اب اس لاعلاج بیماری سے اسے ایک اطمینان سا محسوس ہوا کہ زندگی سے جان چھوٹ رہی ہے۔اس اطمینان نے اس میں کچھ بڑا کرنے کا حوصلہ پیدا کردیا اور وہ زندگی کو پہلے سے زیادہ خوشگوار محسوس کرنے لگا۔ اسی دوران اس کی ملاقات جین نام ایک لڑکی سے ہوئی۔ جین البان ہائی سکول لندن میں زیر تعلیم تھی اور وہ لسانیات کے شعبے سے وابستہ تھی۔ ہاکنگ سے ملاقات کے بعد جین کو اس میں دلچسپی پیدا ہوگئی اور بیماری کے باوجود اس نے ہاکنگ سے منگنی کر لی۔ جین نے ہاکنگ کی زندگی میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کیا اور اسے امید اور زندگی کے روشن پہلو کی طرف راغب کیا۔ لیکن ہاکنگ کے بقول کامیاب شادی کے لئے نوکری ضروری ہے اور نوکری کے لئے پی ایچ ڈی کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔

سٹیفن کے والد نے ڈینس شیاما سے اپیل کی کہ وہ ہاکنگ کو پی ایچ ڈی کا کام جلد مکمل کروا دے۔ پہلے ڈینس نے منع کر دیا لیکن جب ہاکنگ کے دو سال گزر گئے اور وہ پہلے سے زیادہ پرجوش نظر آیا تو اس نے سوچا کہ اب ہاکنگ کو کام کروایا جائے۔اس کے لئے ہرمن بونڈی نامی مشہور ماہر طبیعات کا ریفرنس لیٹر حاصل کرنے میں سٹیفن کے سپروائزر شیاما نے مدد کی اور یوں اسے ایک وظیفہ مل گیا۔1965ء میں تیئس سال کی عمر میں اس نے جین سے شادی کر لی۔اگلا مرحلہ پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضوع تھا۔کاسمولوجی میں نظریہ اضافیت جو کہ آئن سٹائن کا بڑا نظریہ تھا اس وقت غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا ہوا تھا۔امریکہ کی ریاست نیویارک کی کورنیل یونیورسٹی میں اس موضوع پر ایک سمر سکول کا انتظام کیا گیا تھا جہاں اس شعبہ کے بڑے سائنسدان جمع ہونے تھے۔ ہاکنگ اس سکول میں شمولیت کے لئے امریکہ چلا گیا لیکن جین بھی لندن یونیورسٹی سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کرنے لگی۔

اس دوران ہاکنگ کی ملاقات ایک نوجوان پروفیسر راجر پنروز سے ہوئی جو بلیک ہول پر تحقیق کر رہے تھے۔ ہاکنگ نے جب پنروز تھیورم پڑھا تو وہ حیران ہوگیا کیونکہ اس تھیورم کے مطابق بلیک ہول کے مرکز پر ایک ایسا نقطہ اختتام پایا جاتا ہے جہاں وقت نہیں گزرتا۔ اسی تھیورم پر سوچتے ہوئے ہاکنگ اس نتیجے پر پہنچا کہ پوری کائنات بھی ایسے ہی ایک نقطے سے پیدا ہوئی ہے جو کائنات کا آغاز ہے۔ جب یہ بات اس نے مشہور سائنسدان فریڈہائیل کو بتائی تواس نے مذاق میں کہہ دیا کہ سٹیفن ہاکنگ نے تو کوئی بڑا دھماکہ کر دیا ہے۔ یہی نام بعد میں ‘بگ بینگ’ کے طور پر مشہور ہوگیا۔ 1965ء میں دو آسٹریا کے سائنسدان رابرٹ ولسن اور آرنو پینزیاس نے بیل ٹیلیفون لیبارٹری برکلے امریکہ میں کاسمک بیک گراؤنڈ شعاعوں کی دریافت سے بگ بینگ نظریہ کو صحیح ثابت کر دکھایا۔ اس کے بعد دنیا بھر میں سٹیفن ہاکنگ مشہور ہوتا گیا۔ اس کو ایک نہایت ذہین شخص کے طور پر ‘آئن سٹائن ثانی’ کہا جانے لگا۔

1967ء میں سٹیفن اور جین کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اور اسی دوران ہاکنگ کو کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر کی نوکری مل گئی اور اسطرح انکے خاندانی حالات بھی بہتر سے بہتر ہوتے گئے۔ بعد ازاں انکے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی جس کا نام لوسی رکھا گیا۔ 1974ء میں ہاکنگ شعاعوں کے نام سے پروفیسر سٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا کہ بلیک ہول میں سے شعاعوں کا اخراج یہ ثابت کرتا ہے کہ اسکا ایک درجہ حرارت ہے۔ مزید یہ کہ بلیک ہول آہستہ آہستہ اپنی توانائی کھو دے گا اور یوں زمان و مکاں سے غائب ہو جائے گا۔ اس سے طبیعات کے کچھ بنیادی اصول سے اختلاف پیدا ہونے پر اسے ایک ‘معلوماتی تناقضہ’ قرار دیا گیا۔ 1979ء میں کیمبرج یونیورسٹی میں انہیں ایک خاص عہدہ دیا گیا جسے ‘ریاضی کا لوکاسئین پروفیسر’ کہتے ہیں۔ یہ وہی عہدہ ہے جو کسی دور میں کیمبرج ہی کے ایک اور پروفیسر سر آئزک نیوٹن کو دیا گیا تھا۔ یعنی سٹیفن ہاکنگ کو موجودہ صدی کا نیوٹن کہا جا سکتا ہے۔ 1983ء میں ہاکنگ نے کائنات کے آغاز کے حوالے سے ‘غیرسرحدی مفروضہ’ پیش کیا جس کے مطابق کائنات میں کام کرنے والے قوانین بگ بینگ کے وقت بھی کارآمد قرار پاتے ہیں اور اسطرح پینروز تھیورم والا نقطہ ایک سطح کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔

اسی دوران ہاکنگ کو اپنی بیٹی لوسی کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کے لئے مزید رقم درکار تھی جس کے لئے ہاکنگ نے سائنسی موضوعات پر کتابیں لکھنے کا ارادہ کر لیا اور یوں پرنٹ میڈیا میں بھی ہاکنگ کو جانا جانے لگا۔ 1984ء میں اس کی پہلی کتاب منظر عام پر آئی جس کانام تھا ‘وقت کی مختصر تاریخ’۔ اس کتاب کا چھپنا تھا کہ دنوں کے اندر یہ کتاب فروخت ہونا شروع ہو گئی۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں۔اور یہ کتاب آج تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں شامل ہے۔اس کتاب کے پس منظر میں ہالی ووڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی۔ اسکے بعد ہاکنگ نے اپنے مضامین، ریسرچ آرٹیکلز اور دیگر عام فہم کتب تحریر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ دنیا بھر میں ہزاروں سائنسدان اس عظیم شخصیت سے متاثر ہو کر فزکس کے مضمون میں اعلٰی کام کرچکے ہیں۔ ہاکنگ اپنی تمام تر علالت کے باوجود ہمہ وقت کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ فاش کرنےمیں مگن رہے۔ دنیا کا یہ عظیم سائنسدان 14 مارچ 2018ء کو 76 برس کی عمر میں ہمشہ کے لئے ہم سے بچھڑ گیا۔ ان کی آخری بڑی خواہش یہ تھی کہ کائنات میں موجود ہر شے اور عمل کی وضاحت ایک ہی قوت سے کی جاسکے ایک ایسی مساوات جس میں کائنات کے تمام راز پوشیدہ ہوں۔ اس نظریہ کو ‘نظریہ کل’ قرار دیا جائے گا۔ آنے والی صدیوں میں انسان کی سائنسی ترقی میں سٹیفن ہاکنگ کے نظریات ایک سنگ میل ثابت ہوں گے !

Leave a Reply