کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ جب وقت کا پہیہ اچھی طرح سے گھوم کر
ایک نئے چکر کے لیے
اپنے ہی ہاتھوں سے پھر سے گھمایا جاتا ہے
کہ دنیا رک جانے کے لیے تو نہیں ہے ناں
یہاں کوئی رک جائے اگر
اسے کھڑے پانی کی مثالوں سے تم تشبیہ دیتے ہو
میرا دل یوں تو اب کم ہی مسکراتا یے
ہاں مگر کبھی جب ہنستا تھا تم پر
تمھاری دنیا کی
بے تکی اصطلاح میں چھپے طنز و ہمدردی پر
میں یادوں کا ذرا سا گیڑ لگا کر اس ہنستے دل کو
کسی دھندلے آئینے سے تکتی ہوں
مسکراہٹ گہری ہوا کرتی تھی تب
مگر اب _ خیر
یہاں اک شعر کہنے کو جی کرتا ہے
“پہلے ہم خیر کہا کرتے تھے کہ جانے دو
اب کہتے ہیں بہرحال ہر بات کے بعد”
یعنی اب گنجائش کی گنجائش باقی نہیں ہے
طلب، امید، خواب، حسرت کے ڈھکوسلے حقیقت پسندوں کے ہاں نہیں ہوا کرتے
کہیں جب جیب خالی ہو
خالی برتن میں بھاپ اڑاتا فقط سادہ پانی
دیوار سے لگ کر بیٹھ جانے والوں کو اس سے کیا کہ سورج ان کی پشت سے نمودار ہوا
یا اس نے سامنے سے جھلسایا
ٹوٹی چپلیں دراصل ننگے پاؤں ہی ہیں
ایک پیوند پورے لباس کا ننگ ہے
یہ حالتیں امید جیسے ہلکے میٹھے سے حقیقت کی ترشی کو دور نہیں کر سکتیں
سو تمھارے ہونے نہ ہونے سے فقط اتنا ربط تھا کہ خود تک رسائی ممکن ہونے لگی تھی
جیسا کہ ہوتا ہے محبت میں
تم سے پہلے تمھارے بعد اس احساس نے زور پکڑا ہے
کہ ہم محبت کرتے رہنے کے لیے ہیں
اس کے لیے کسی وجود کا حاظر ہونا ضروری نہیں _