Laaltain

Sunset (عظمیٰ طور)

21 اگست، 2020
Picture of عظمیٰ طور

عظمیٰ طور

دونوں اپنے پسندیدہ سپاٹ پر بیٹھے تھے ۔ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے وہ کئی ساعتوں سے سامنے ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا ۔ اور وہ اسے۔ اس کے پیلے سویٹر کی بنت میں جتنے دھاگے تھے وہ اتنے ہی پل اس کے ہمراہ گزارنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کے پاس وقت کی قلت تھی۔قریب رکھے سگریٹ بھی اور اس کے قریب رکھا لائٹر بھی اس بات کے گواہ تھے ۔ اس کے ہاتھ میں موجود سفید پتھر والی انگوٹھی اور اس کے گلے میں نظر لگ جانے کے ڈر سے پہنا گیا کالا دھاگا بھی گواہ تھا۔ وہ سبھی اسے بتا رہے تھے ۔اس کے مصروف ہونے کی دہائیاں دے رہے تھے۔

” میں آج بھی زیادہ وقت نہیں دے پاؤں گا۔ ”

اس کی آواز کہیں پہاڑوں سے ہوتی بازگشت بن کر اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی ۔ وہ کئی پل ہولتی رہی۔ جو پل ابھی اس کی گرفت میں تھے وہ ان کے گزر جانے کے ڈر میں آنکھیں میچے چپ چاپ بیٹھی تھی۔ لیکن وقت بھی کب اس کی گرفت میں ہوتا ہے وہ جب کبھی بھی وقت کو باندھ کر اپنی گاڑی کی ڈگی میں بند کر کے اس مخصوص مقام پر آتا ہے جہاں وہ اس کی منتظر ہوتی ہے تو وقت تب بھی اسی کے تابع ہوتا ہے۔

” ڈوبتا سورج مجھے ہمیشہ بھاتا ہے۔ تم خاموش کیوں ہو؟”

اس کے مڑ کر دیکھنے پر اس نے آنکھیں کھولیں خشک لبوں پر زبان پھیری ۔وہ جانتا تھا وہ جب تک یہاں اس کے قریب چند قدم کے فاصلے پر بیٹھا رہے گا ،وہ خاموش رہے گی ۔ اس کے قریب رکھی سگریٹ کی ڈبی میں موجود سگریٹ بولنے لگا تھا اس نے ہونٹوں میں سگریٹ دبا کر ذرا سی آنکھیں سکیڑیں اور دور کہیں خلا میں موجود وقت کی ڈوری کو اپنی انگلی کے گرد لپیٹا۔ لائٹر نے سگریٹ کے ایک سِرے کو سورج کی مانند دہکا دیا اس میں اس کی اپنی سانسوں نے جو زور لگایا وہ دیکھنے والے کیلئے دیکھنا مشکل تھا اس نے ایک بار پھر آنکھیں زور سے بند کر کے کھولیں۔ وقت بھی تو خاموش تھا اتنا کہ اس کے ہونے کا یقین تک نہ ہوتا تھا دھواں اب اس کی سانسوں کو لیے اس کے ارد گرد منڈلانے لگا تھا اسے لگا آکسیجن کم ہونے لگی ہے دل نے پمپ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ دماغ 40% پھر آ جائے تو سائنس دماغ کو ڈیڈ مان لیتی ہے اس کے لیے ایسی صورتحال میں زندہ رہنا مشکل ہوتا تھا لیکن ۔۔۔۔۔ وقت کی رفتار تیز دھاری تلوار سے وار کرتی ہے تو نہیں جانتی کہ کہ تلوار کند تھی ۔وقت نے جس زندگی کا گلہ کاٹا وہاں اب صرف خون ہی نہیں کچھ لوتھڑے بھی وہیں گرے ہیں۔ تیز تندی بن کر زندگی کی گُڈی کا بو کاٹا کرنے والا وقت کب مڑ کر دیکھتا ہے کب دیکھتا ہے کس کے ہاتھوں کی جھریوں میں موجود نیلی رگوں کا خون جم گیا ہے، کب دیکھتا ہے چاندی بالوں میں اتری تو کتنی دھوپ اور کاٹنے کے مرحلے پیچھے چھوڑ آیا ہے اسے تو بس بھاگنا ہے محبوب آئے نہ آئے، اگر آ جائے تو اور تیزی کرتا ہے کہ کہیں چاہنے والا مان ہی نہ کر بیٹھے وقت کے اپنے ہونے کا ۔ اور اگر آ نہ سکے تو نئے وقت کی چاہ میں اسے کوسا نہ کرے ۔ سست روی بھی وقت کی خصلت ہے، آپ لاکھ گھڑیاں بدل لیں ٹک ٹک ایک ہی رہے گی۔ مجبوری، بے بسی جتنا بھی سوئی پر وزن ڈال لے مجال ہے جو وقت اپنی فطرت سے ہٹ جائے ۔ اس نے آنکھیں بند کر کے پھر کھولیں اس کی پیلی اون والا سوئٹر کے دھاگے ادھڑنے لگے تھے ۔ ایک اور سگریٹ وہ اپنی انگلیوں میں دبائے بیٹھا تھا لائٹر کے اندر موجود گیس سے دھماکہ ہوا اور اندھیرا پھیل گیا وقت کے پہیے کے نیچے روندے جانے والی زندگی ایسے ہوتی جیسے کوئی پچکے منہ والا مسکرائے اور ذرا مزا نہ آئے ایسی مسکراہٹ کا کیا فائدہ جس میں خوبصورتی نہ ہو۔ مسکراہٹ کے نتیجے میں پڑنے والے بھنور میں کیسے نہ کوئی کھو جائے۔ اسے بہت پہلے کہی کسی کی بات یاد آگئی شکل سوہنی ہونی چاہیے پیار کرنے کا کچھ مزا تو رہے لیکن زندگی کسی بھیانک چڑیل کا منہ دھار لے اور وقت کے نوکیلے ناخن چبھونے لگے تب بھی کہیں نہ کہیں اندر کہیں عزیز رہتی ہے۔طلب کے بجتے دروازے بھلے ان میں ہاتھ آ جانے کا خدشہ ہو، بجتے رہتے ہیں۔

اس نے اندھیرے میں ایک لمبا کش لگایا، جب وہ سگریٹ کا کش بھرتا تو اس کے گال اندر کی جانب کھچ جاتے، لیکن نیم اندھیرے کے باعث وہ اس پل اسے دیکھ نہ پائی تھی۔ سگریٹ کی وہی مخصوص کڑوی سی مہک۔۔۔ اس کی سانس تنگ ہونے لگی تھی، اس نے دھیرے سے قریب رکھے اس کے لائے پھولوں کو چھوا درد کی شدت آنکھوں میں امڈ آئی تھی۔

” تم جانتی ہو درد کی شدت، کانٹا چبھ جائے تو درد کی ایک limit ہوتی ہے لیکن اگر پھول دے کر واپس لے لیا جائے تو تمام عمر خسارے بھرے جا ہی نہیں سکتے۔ میں پھول دے کر واپس نہیں لوں گا ،تم خود ہی لوٹا دینا کسی روز۔”

اس کے کندھے میں کسی نے زور سے ایک موٹی سوئی والی نالی داخل کی۔ سب مشینوں سے ٹوووووووں کی آواز برآمد ہونے لگی۔ اندھیرا پھیل رہا تھا وقت ڈگی میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی چابی بے چینی سے ادھر ادھر لگی تھی۔

میں پھر آنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مشینیں واپس اپنی پرانی حالت میں آنے لگیں ٹیں ٹیں ۔۔۔وقت کے سمندر میں ملے زندگی کے آنسو اسے کھارے کیے رکھتے ہیں، حلق سے اترتا ہی نہیں ۔ وقت کی سوغاتوں میں ایک لاٹھی بھی ہے، تمام عمر کوئی نہ کوئی لاٹھی ہمراہ ہوتی ہے ،کبھی کسی محبت کی صورت کبھی نوکری کی شکل میں تو کبھی کسی تعلق کی ریڑھ کی ہڈی کو سہارا دینے کی خاطر، لیکن اگر یہ لاٹھی نہ رہے اور چھن جائے یا چھین لی جائے تو سارے جوڑ ہل جاتے ہیں، پھر بندہ ہینڈی کیپ ہو جاتا ہے۔اور مکمل نہ دکھنے والی چیزیں کب کسی کو بھاتی ہے۔ سگریٹ کے ایک سرے پر جلتا سورج گاہے گاہے روشن ہو رہا تھا، کتنی سانسیں لگ رہی تھیں اس روشنی کے نتیجے میں ۔۔۔ لیکن یہ وقتی روشنی دل کے تہہ خانوں میں دبی سیلن کی باس تک پہنچنے سے پہلے یا تو کہیں اور کسی کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے یا پھر وہ دل اپنے کندھوں سے موٹی سوئی میں پھنسے پائپ کو نکال باہر پھینکتا ہے، دراصل یہ وقتی روشنی کسی وقت کے تلخ رویے کے نتیجے میں ہمیں خاموشی کی صورت انعام کے طور پر دی جانی ہوتی ہے ،لیکن جب وقت تلخ زبانی کرتا ہے تو کہاں کوئی زبان اپنا ذائقہ برقرار رکھ پاتی ہے۔ تو وہ جو ساری سانسیں لگی ہوتی ہیں روشنی کو پانے میں ان سانسوں کی طنابیں کھچ جاتی ہیں ٹینس ہو جاتی ہیں اور دل پمپ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ وقت ڈگی میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی چابی بے چینی سے ادھر ادھر جھولنے لگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *