“قہقیوں کے گھونٹ”
میں نے طویل چیخ کے بعد
چیخ کے خلا کو پر کرنے کے واسطے
قہقہوں کے کئی بڑے بڑے گھونٹ نگلے ہیں
سات جہانوں اور خلاؤں اور کہکشاؤں کی بنیادیں پھر بھی اپنے پیروں پہ کھڑی ہیں
اندھے پیروں پر
جن کے نشانوں کو ڈھونڈنے کے واسطے مجھے اور میرے جیسے کئی نقطوں کو
وزن برابر رکھنے کی تگ و دو میں لگا دیا گیا ہے
اور ایک دن نقطے معدوم ہو جائیں گے
جیسے تھے ہی نہیں
جیسے سات آسمانوں اور خلاؤں اور کہکشاؤں کے اندھے پیر
قہقہوں کے گھونٹ نگلنا کیا تمھیں آسان لگتا ہے _
…………………..
“کوزہ گر”
حسن کوزہ گر پڑھتے پڑھتے
وہ بھی کوزہ گر بن گیا تھا
جن سچے ہاتھوں کے عشق میں مٹی کی پریاں اپنے نقش سنوار رہی تھیں
وہ دراصل جلد ہی ٹوٹنے والی تھیں
محبت کے کئی کوزے اس کی آواز کی تیز لہروں سے بھر جاتے
اور مٹی کی پریاں انھیں اپنی لچکتی کمروں پہ ٹکائے
اونچی نیچی دشوار پگڈنڈیوں پہ لہکنے لگتیں
انھیں اپنے حسین نقوش پانی میں دکھائی دیتے تو
اپنی بھربھری مٹی سے آگاہی رکھتے ہوئے بھی
اس لوچ کی لہر میں بہتی جاتیں
اس کے سچے ہاتھوں میں آئی ایک نیم پتھرائی مورت
جس کی دھوپ نے اس کو آدھا کچا آدھا پکا رکھا تھا
احتیاطاً _
چاک پر دھر دی گئی
نہ ٹوٹی نہ جڑ پائی
اور حسن کوزہ گر
اب
کسی نئی دنیا میں
کسی نئی مٹی سے
کسی نئی پری کو تراشنے نکل گیا ہے _!
…………………..
“موجود”
کمرے میں جانے کونسے رنگ کا بلب روشن تھا ،جانے روشن تھا بھی یا نہیں
روشنی یا پیلی ہوتی ہے یا سفید اس کا تیسرا کوئی رنگ نہیں
رنگ بدلتی روشنی اگر کہیں دکھے بھی تو کسی آئینے، کسی اور رنگ کا عکس ہوتی ہے
پیلی روشنی میں گول گول چکر کاٹتے ذرے _ شاید سورج کا بھی کوئی دیوانہ ہو
کمرے میں نہ پیلا بلب تھا نہ چمچمتی سفید روشنی
سلیٹی تھا کچھ _ سرمئی سا _ گرے سا __
کچھ واضح نہیں _ کچھ واضح تھا بھی نہیں _
کمرے کی سفید ٹائلز ،سفید چھت ،اس کے بستر کی سفید چادر ،پنکھا ، سفید ٹی روز سب سلیٹی تھے
سرمئی ،گرے _ غیر واضح __ ٹی روز کی خوشبو بھی __
اس کے سفید کاٹن کے سوٹ پر سلیٹی دھبے تھے __
آنکھوں کے سنہرے ہلکے ناجانے کب سے سلیٹی لگنے لگے تھے __
دیوار پر ایک قطار میں گھڑیاں ابھر آئیں جن پر وقت کے ساتھ تاریخیں بھی درج تھیں
چودہ اکتوبر _ صبح آٹھ
بارہ دسمبر _ رات دس
مئی کی تاریخ دھندلی تھی( سنہ اسے یاد تھا) مگراس سے جڑا وقت پوری دیوار پہ پھیلنے لگا
کمرے کا سلیٹی رنگ اور بھی جم کر پھیل گیا
اس نے بظاہر سلیٹی نظر آتی فرش کی ایک چوکور ٹائل پر ننھے ننھے سیاہ دھبوں کو چھوا
وہ دھبے راکھ بن کر اس کی پوروں کی باریک لکیروں میں دھنس گئے
اس کے ایک کان میں کمرے کا پورا ماحول بول رہا تھا اور دوسرے میں تاریخیں، واقعات، لوگ، دھوکے، نصیحتیں، باز پرس گرزنے والا ہر واضح اور غیر واضح پل دھڑک رہا تھا
موجود کی طاقت اس کے کانوں کو فالج ذدہ کرنا چاہتی تھیں
ناموجود کی تپش، اس کی لوئیں سرخ ہونے لگیں
ناموجود میں موجود سی زندگی تھی تلخی کے باوجود ،برے تجربات، تلخ مشاہدات کے باوجود ہونٹوں کے کنارے تھرتھراتے تھے
آنکھیں لو دیتیں
ہاتھ کپکپاتے
پیر لڑکھڑاتے
مگر حاضر ہونے میں ہلاکت کا جو مزہ تھا اس سے بھی منکر نہ ہوا جا سکتا تھا
حاضری لازم تھی
وقت کے سامنے
گھٹنے ٹیکتی عمر کے سامنے
زندگی کرتے انفاس کے سامنے
سانس لیتے دھڑکتے رستوں کے سامنے
حاضر کی طاقت کمزور پڑتی تھی
اس کی سانسیں جو وہ پہلے بہت پہلے ہی کھینچ چکی تھی اب حاضر میں خارج ہو رہی تھیں
یہ بھی اس کے زندہ ہونے کی علامت تھی
پوروں کی لکیروں میں پھیلتی سرمئی راکھ پورے بدن میں پھیل گئی تھی
اس نے تجربہ کیا تھا
اس کا خون اب خون رنگ نہیں تھا جم کر کچھ گاڑھا سا ہو گیا تھا
موجود کی مہک ناموجود کے سرور کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی تو وہ تھرتھراتے ہونٹوں کو مسکرانے کا حکم دیتی
اس نے اٹھ کر کمرے کے ٹیپ ریکارڈر میں ناموجود کی آواز کو پلے کیا
اور کمرے کے بیچوں بیچ پنکھے کے ساتھ ساتھ دائرے میں گھومنے لگی
اس کے پیروں کے نیچے سرمئی زمین اور بھی سرمئی ہو گئی
موجود _ موجود _ موجود
اس نے باہیں پھیلا کر ناموجود کو آواز دی
بازو بھاری ہونے لگے
کندھے جھکنے لگے
پیروں میں جیسے کچھ بھاری بندھ گیا
مگر وہ گھومتی رہی
گھومتی رہی
گھومتی رہی
جب ناموجود اور موجود دونوں اس کے سنگ ایک ہی چکر میں چکرانے لگے تو اس نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا
اس کا کام ختم ہو چکا تھا
جسم پر نیلے نشان تھے
سرخ دھاریں جسم کی مختلف پور سے رستی تھیں
اور پیروں میں سرمئی، سلیٹی بھنور تھے _