آنکھ لگی تو
خواب میں اک بازار لگا تھا
طرح طرح کے اسٹال لگے تھے
ایک ریڑھی پر کوئی
مہنگی چیزیں سستے داموں بیچ رہا تھا
محبت کی قیمت اتنی کم تھی
سنتے ہی میں رو پڑی تھی
احساس بیچنے والا
مجھ سے نظریں نہ ملا پایا
دل کی دھڑکن
اپنے بکنے پر نالاں تھی
مروت تروڑی مروڑی پڑی ہوئی تھی
آنسوؤں کے پیالے کے نیچے خواب پڑے تھے
بلک رہے تھے
امیدوں کی چھوٹی سی گٹھڑی کھلی پڑی تھی
سسک رہی تھی
آس پتھر کی مورت کی صورت
ایک کونے میں دھری تھی
میری آنکھیں جلنے لگی تھیں
خواب میں اک بازار لگا تھا
اک ریڑھی پر کوئی
مہنگی چیزیں سستے داموں بیچ رہا تھا

Leave a Reply