Sunset (عظمیٰ طور)
اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ وقت ڈگی میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی چابی بے چینی…
اندھیرا پوری طرح پھیل چکا تھا۔ وقت ڈگی میں پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کی گاڑی کی چابی بے چینی…
میں ننھے بچوں کے ماتھے نہیں چومتی کہیں میری وحشت ان میں منتقل نہ ہو جائے
میں نے اپنے ہاتھ کی پشت پہ ایک پھول بنایا ہے اپنے سبز زخموں کی ٹہنیوں پر جنہیں تم اپنی…
آدمی زندان ہے اور بنا روزن کے اپنے ہی بدن میں پڑا سر کو ڈھلکائے ہوئے
عظمیٰ طور: میں نے طویل چیخ کے بعد چیخ کے خلا کو پر کرنے کے واسطے قہقہوں کے کئی بڑے…
آواز آوازوں کی تاریخ کہاں سے شروع ہوئی اس کن سے اس کے کن سے اور سلسلہ پھیلتا گیا ۔…
کسی پرانی کتاب میں بسی باس کی مانند میں پرانی ہو چکی ہوں کسی پوسیدہ تحریر کی مانند کہ جس…
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب وقت کا پہیہ اچھی طرح سے گھوم کر ایک نئے چکر کے لیے…
میں ان سماعتوں سے بھی واقف ہوں کہ جو گفتار کی بیساکھیاں تھیں مگر ٹوٹ چکی ہیں اب کسی کو…
آدھ گھنٹے میں اس کی آنکھوں کے سامنے پھیلے اس کے ہاتھوں پہ بکھری الجھی لکیروں پر کتنے ہی ان…
وہ جب کتاب ہاتھ میں لیے “حسن کوزہ گر” پڑھتا تو اس کے لہجے میں اِک عجیب درد اتر آتا…
ہمارے دل ایک نہیں ہوتے مگر کمرے ایک ہوتے ہیں الماری میں الگ الگ طرز کے کپڑے ایک دوسرے سے…
میں اس سے جب ملی تھی وہ اپنی عمر کی تین دہائیاں بڑے ہی رکھ رکھاؤ بڑے سبھاؤ سے گزار…
آنکھ لگی تو خواب میں اک بازار لگا تھا طرح طرح کے اسٹال لگے تھے ایک ریڑھی پر کوئی مہنگی…
اِک نظم ابھی ابھی الماری کے اک کونے سے ملی ہے دبک کر بیٹھی پچھلے برس کی کھوئی یہ نظم…