Laaltain

فارسی کہانیاں (جلد ۱) – تبصرہ نگار: آمنہ زریں

23 اگست، 2020

فارسی کہانیاں (جلد ۱)
انتخاب اور ترتیب: نیر مسعود
ناشر: آج کی کتابیں، کراچی

تبصرہ نگار: آمنہ زریں

کہانی کا طلسم،ہر عمر اور ہر دور کو مسخر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ طلسم، پتھر نہیں کرتا۔۔اثر رکھتا ہے۔چلتے دور کی ہر خوبی کو گہنائے ہوئے دیکھنا اور گئے وقت کی کرنوں کو سورج کرنا۔۔۔عمومی طور پر دل پسند انسانی مشغلہ ہے۔مگر وائے قسمت۔۔کہ یہ حال کی بدولت ہے۔۔۔جو نظر۔۔سماعت اور لمس کی حد میں ہے!

خود کو کائنات سمجھ لینا اور کائنات کا حصہ سمجھ کر زندگی گزارنے سے زندگی اور اس کے گزارنے والے۔۔۔دونوں کو فرق پڑتا ہے۔

اکیلا ہونا صرف خدا کو زیبا ہے اور اسی لئے کوئی کتنا بھی آدم بے زار ہونے کا دعوٰی کرے۔۔اکیلا نہیں رہتا۔۔۔!

ہر لمحہ جو زندگی کے نام پر رواں دواں ہے۔۔کہانی ہے!

ہر آنکھ۔۔جو دیکھتی ہے۔۔نکتے کی تصویر بنانے کی اہل ہے۔۔مگر وہ نکتہ کہاں سے کیا اٹھاتا ہے اور تصویر کے رنگ کتنے دل پذیر ہیں۔۔یہ بھی ایک منفرد صلاحیت ہے جو کہانی کاروں کو ودیعت کی جاتی ہے۔۔۔!

آج کی جدید دنیا۔۔حساس کیمروں اور تکنیکی مہارتوں کے سبب، ہماری منشا سے بے نیاز۔۔کانوں کان خبر کئے بغیر۔۔راز جاننے اور افشا کر دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔۔مگر۔۔اس ذہن رسا کو کیا کہیے۔۔کہ جس کی ہفت رنگی آج بھی نادر و کمیاب ہے!

سفر کو وسیلہ ظفر سنتے آئے ہیں اور عمر کے تدریجی مراحل نے یہ سکھایا ہے کہ سفر کے ظاہری اسباب اور وسائل میسر نہ بھی ہوں تو کچھ دیگر ذرائع پھر بھی موجود رہتے ہیں۔۔اب یہ آدمی کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ کتنی لچک کا حامل ہے۔۔۔!

تو کہانی کہنے کی کہانی کتنی پرانی ہے۔۔۔؟

یہ تصور کی وہ زقند ہے جو پلک جھپکتے ہی بھری جا سکتی ہے۔۔کہ کہانی ہابیل اور قابیل جتنی پرانی ہے!

کہنے کو مرتی ہوئی ایک قوم کثیر۔۔۔سننے کا وصف بھی کھو بیٹھی ہے اور اسی سے نفسا نفسی برپا ہے!

خطوں کی عمر۔ روایات اور ان کی منتقلی۔۔افراد اور ان کے زمانے پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لینا۔۔اپنی حقیقت کو جان لینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

جس خطے کا تعارف۔۔جامی، حافظ، فردوسی اور سعدی ہوں۔۔اور زبان۔ زبان شیریں کہلاتی ہو۔۔اس خطے پر قدم رکھنا۔۔اور حواس خمسہ کو ان پر گواہ کرنا۔۔اگر ہمارے لئے ممکن نہ ہو۔۔تو آئیے۔۔

کہانی کے اڑتے ہوئے قالین پر بیٹھتے ہیں۔۔۔!

پندرہ کہانیوں پر مشتمل فارسی کہانیوں کے ترجمے کی یہ پہلی جلد ہے، جن میں زیادہ تر کا بیانیہ علامتی ہے۔علامتی طرز بیان برتنا دراصل خود ایک سوالیہ نشان ہے جو جواب کا سراغ لگانے کی مہمیز فراہم کرتا ہے کہ وہ کون سے مسائل ہیں جن کے لئے براہ راست بیانیہ اختیار نہیں کیا گیا اور وہ کیا حالات ہیں جو علامت کو اظہار بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔۔

مجبور سے جبر کی صدا تو آتی ہے۔۔اور جبر کسی بھی نوعیت کا ہو۔۔انسانوں کا مسلط کردہ ہو۔۔یا تقدیر کا۔۔ہر دو صورت میں۔۔سینہ سپر رہنا اعلیٰ ترین انسانی وصف کی بدولت ہے۔

تو چلتے ہیں پندرہ کہانیوں سے بنے۔۔اڑتے ہوئے۔۔ایرانی قالین پر۔۔جہاں سے ہمیں نظر آنے والے ہیں۔۔ایرانی سماج۔۔رہن سہن۔۔بول چال۔وہ کردار۔۔جو زبان، لباس اور مقام کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔۔مگر ضرورت۔۔احساس اور غم میں ہمارے ہی جیسے لگتے ہیں!

پہلی کہانی ’’خواب ‘‘ہے۔۔

خوابوں سے عموما سہانے تصور مانوس ہوتے ہیں۔۔یا پھر تشنگی۔۔نا آسودگی اور حسرتیں۔۔

اس ’’خواب ‘‘کا دیکھنے والا مسلسل اپنے تعاقب میں ہے اور اپنی جان لینے کے در پے۔۔اور اپنے ہی قتل کے مقدمے پر سزا کا منتظر۔۔

مگر حقیقت کی تعبیر۔۔مسلط زندگی کی صورت میں۔۔آ موجود ہوتی ہے۔۔!

دوسری کہانی ’’ولادت ‘‘ ہے۔۔جسے عام انسانی فہم معمول کی اطلاع کے طور پر وصول کرتا ہے۔۔مگر اس کرب ناک تجربے سے وابستہ ایسے مہیب گھاو بھی ہو سکتے ہیں۔۔جن کا انت خالی دامن اور خالی کوکھ پر ہوتا ہو۔۔۔ایسے تجربوں کو بیان کرنا بھی۔۔۔دشوار گھاٹیوں سے گزرنے کے برابر ہے!

تیسری کہانی’’بارش اور آنسو ‘‘ہے۔۔جس میں دو عمر رسیدہ دوست ساحل سمندر کی سیر کرتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔۔اس دوران آپ کو ساحل پر موجود سیپیاں، گھونگھے۔۔خالی بوتلیں۔۔اور آسمان پر موجود بادلوں کے رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔۔مگر ساتھ ہی ساتھ۔۔آپ کی ہمزاد۔روح پر دستک دیتے کچھ گزرے لمحوں کی داستان سامنے آتی ہے۔۔۔جس کا مرکزی کردار ایک گھوڑا ہے!

گھوڑے کی محبت۔۔اور جدائی کے بیچوں بیچ برپا ہوئی جنگ۔۔قید اور بے بسی کی تصویر بنے قیدی۔۔۔

دونوں دوست جنگ کے جبر سے گزرے ہوئے تھے۔دونوں نے اپنے پالتو گھوڑوں کو اپنے سامنے جدا ہوتے دیکھا تھا۔

’’تمہارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔روئے ہو؟ ‘‘

’’اس عمر کو پہنچ کر آدمی روتا نہیں۔۔‘‘میں نے کہا ’’پانی برس رہا ہے ‘‘

’’پنجرے ‘‘ایک ایسی علامتی کہانی ہے جو روئے زمین پر موجود ہر ذی نفس، ہر ذی شعور پر منطبق کی جا سکتی ہے۔۔ایک آفاقی حقیقت کی طرح۔۔۔!

تخلیق کی صلاحیت ان دیکھے جہانوں سے آتی ضرور ہے، نمو، اپنے اردگرد سے ہی پاتی ہے۔اس کہانی میں پرندوں کو کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔۔جنہیں پر عطا کئے گئے۔۔ان کا فطری مقصد اڑنا ہے اور پنجرہ، ان کی حیات کو لاحق وہ جبر ہے جو قید کی صورت میں ان پر مسلط ہے۔یہ حساس ترین کہانی پرندوں کی حالت زار دیکھ کر ان کو پنجروں سے آزادی دلانے والے ایک حساس مگر اولوالعزم انسان کے بارے میں ہے۔۔جس نے اپنی عمر، دولت پرندوں کی مدد کرنے اور انہیں آزاد کرنے میں گزار دی۔۔مگر اس سفر سے واپسی پر۔۔اسے معلوم ہوا کہ دائروں کا سفر کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔۔!

بابا مقدم کے قلم سے نکلے۔۔حیات کے اس ابدی نوحے پر۔۔سینہ کوبی کی صدا بلند نہیں ہوتی۔۔نہ ہی آہوں اور سسکیوں کی آواز آتی ہے۔۔مگر ایک احساس۔۔جو بھونچکا رہ جانے کا گواہ بن جاتا ہے!

مشینی زندگی سے انسانی شغف اسے فطرت سے کس طرح دور کرتا ہے اور جدیدیت کا شوق اسے اپنے اصل درماں سے جدا کر دیتا ہے۔۔اس منفرد اور کم اہم سمجھے جانے والے حساس موضوع پر جمال میر صادقی کا قلم اور تخیل یکساں سبک رو ہے کہ آپ ایک بس۔۔جی ہاں۔۔سواریاں ڈھونے والی بس کو مسٹر عارفی کا پیچھا کرتے لمحوں کی ہئیت کذائی پر بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔۔لیکن حقیقت کے قہر کو لطف سے بیان کرنا بھی۔۔نوادرات قلم کا حصہ ہے!

ایرانی تہذیب کا کینوس وسیع ہے اور قصہ گوئی اس کی ایک نمائندہ روایت ہے۔علامتی طرز بیان کے علاوہ بھی کچھ کہانیاں ہیں جو روایتی داستان گوئی کی طرز پر بیان کی گئی ہیں۔جیسے ’’بہائے عشق ‘‘۔’’روضے والی‘‘’’مردہ سانپ ‘‘جیسی کہانیاں ہیں۔

بہائے عشق تعلق میں سیندھ لگنے کی روایتی کہانی ہے جو اپنے اختصار میں بھی جامع ہے۔

روضے والی ایک ماں کی کہانی ہے۔جو بیان میں آب رواں کی مانند ہے!

اور ماں کے دل جیسا گداز رکھتی ہے۔۔مصائب، الم سہتی ہوئی ماں کی زبان پر تو کیا۔۔دل میں بھی شکوہ نہیں آتا۔۔۔اور یہ آسان کہاں ہے؟

’’چم چچڑ ‘‘کے عنوان اور آغاز سے اس کی سمت کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔۔اور ویسے بھی زندگی کا یہی چلن ہے۔۔کہاں سے کہیں لے جائے۔۔۔کس کو خبر؟

روایتی سخت گیر باپ کے تشدد سے ایک بچے کی کہانی شروع ہوتی ہے اور بچپن کے زخموں سے کھرنڈ اتارنے کے لیے ہر فرد ذاتی انتخاب کا حق رکھتا ہے۔۔سو،اس بچے نے دوسروں کو خوفزدہ کرنے کی خوشی کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔۔

اس کہانی میں خوف کی حقیقت اور نفسیات سے گزرتے ہوئے کردار۔۔ایک تیسرے فرد کو دلچسپ تجربے کا موقع دیتے ہیں۔۔۔وہ تیسرا فرد کون ہے؟ ؟؟

قاری!

مسلسل تعاقب اور بلی چوہے کا کھیل کھیلتے ہوئے، خوف در اصل اعصابی جنگ ثابت ہوتا ہے۔۔جس کا نتیجہ، بہر حال، خوش دلی سے تسلیم کرنے والی حقیقت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

’’بلی کا خون ‘‘بھی علامتی کہانی ہے جو سفاک تسلط اور غیر فطری جبر کا آئینہ ہے، جس میں ایرانی سماج کو در پیش حاکمانہ جبر کا عکس دیکھا جا سکتا ہے۔جبر کی صورت کوئی بھی ہو۔۔لوگوں میں بے چینی کا باعث بنتی ہے۔آزاد خیالی کے متوالوں نے ڈنڈے کے زور پر روشن خیالی کو عام کیا۔۔اور بعد میں آنے والی جماعت نے بھی جو درست سمجھا۔۔اسے ہر ایک کے لئے مخصوص کر دیا۔

بہر حال، ایرانی سماج میں کیا چل رہا ہے۔۔اس کی ایک جھلک دکھلانے کو کہانیاں۔۔۔قاصد ہیں!

عالمی پابندیوں کے نتیجے میں پیش آنے والی معاشی نا ہمواریوں سے، جاری جبر سے، تاریخ اور تہذیب کے سر چشموں کے وارث کس طرح نبٹ رہے ہیں۔۔یہ انہی کا وصف ہے!

’’آقائے ماضی کے عجائب خواب ‘‘بھی ایک علامتی کہانی ہے۔بالواسطہ بیان کی گئی کہانی کا مرکزی کردار ماضی ہے۔۔عجیب خوابوں کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے۔۔یہ منفرد کہانی زندگی کو لاحق ماضی پرستی کی دیمک کی نشاندہی کرتی ہے۔

درخت کو مرکزی کردار بنا کر انسانی زندگی اور موت کا فلسفہ بیان کرتی ہوئی آخری کہانی ’’مرگ ‘‘ہے۔

انسانی زندگی ارتقاء اور بقا کی جدوجہد کا درمیانی وقفہ ہے اور کائناتی حقیقت سبھی پر منکشف ہو۔۔یہ لازم نہیں۔۔۔!

ہوتا، تو یہ دنیا فانی کیسے قرار پاتی؟

گھر میں باپ اور درخت کی بہ یک وقت موت اپنے بیانئے میں گہری رمز سموئے ہوئے ہے۔درخت کی انسانی زندگی میں اہمیت ڈھکی چھپی نہیں اور باپ کی شجر سے مماثلت اتفاقیہ بھی نہیں۔۔۔!طبیعت پر بار ڈالے بغیر۔۔زندگی کے فلسفے کی گتھیاں سلجھانا صاحب علم و ادراک ہی کے قلم کی قدرت ہے!

فرد کو کہانی سے دلچسپی ازلی ہے۔۔۔کیونکہ اپنی ان کہی کو اکیلے لئے پھرنا۔۔۔کہانی کے بغیر مزید دشوار لگتا ہے۔۔۔۔!

تو۔ سماج اور تاریخ کے امتزاج سے بنے قالین پر بیٹھنا کیسا رہا؟

یہ آپ کو بیٹھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *