Laaltain

مرشد کی قسم (رضی حیدر)

23 اکتوبر، 2020
Picture of رضی حیدر

رضی حیدر

زمین پر بیٹھتے ہی مقبول نے اپنے گیلے ہاتھ اپنی نسواری قمیض سے پونچھے اور قصہ سنانا شروع کیا۔
حاجی افضال نے، جو اس وقت صرف فضلو تھا، کچھ تامل کے بعد وہ معجون یا سفوف یا جو بھی تھا پھک لیا۔ افتی اور شامی دونوں مُسک رہے تھے۔
“ما چو 15 منٹ کی بات ہے یہ تن کے سیدھا ہو جائے گا۔ لگا رہیں رات ساری فر ”

فضلو کی سہاگ رات تھی اور یہ دوست اس کا بھلا چاہتے ہی ہوں گے اب نیتوں کا حال تو خدا جانے، واللہ اعلم، پر گولڑے کی کسی خاص دکان سے لائے تھے یہ سفوف یا معجون یا جو بھی تھا۔ حکیم نے کہا تھا بوڑھے کھائیں تو جوان ہو جائیں، اور جوان کھائیں تو حیوان ہو جائیں اور حیوان اب کھائیں تو پتا نہیں کیا ہو۔ پر حیوان کیوں کھانے لگے یہ معجون سر جی۔ ان کو تھوڑا ہی نا سرعتِ انزال کا مسئلہ ہوتا ہو گا۔ اور ہوتا بھی ہو اس کا کوئی ربط ان کی انا سے تھوڑا ہی نا ہوتا ہو گا، جو ہو گیا تو ہو گیا۔ اچھا، سنیں۔۔۔

اب دوستوں نے مسکتے ہوئے اسے اندر بھیج دیا۔ اماں جی مسکراتے مسکراتے اسے گھور رہی تھیں۔ ابا جی تو کب کے لیٹنے کی تیاری میں تھے۔ چھوٹا سا تو گھر ہے ان کا۔ دو تو کمرے ہیں۔ یا یوں کہو کہ کمرا ایک ہے اور ایک برآمدہ، کمرا تو کیا ہے کمری ہے، وہ دے دیا فضلو کو اور اماں ابا جی باہر برآمدے میں آ گئے چارپائی لے کے۔ فضلو نے اندر گھستے ہی گھڑے میں گلاس ڈالا اور پانی غٹک لیا۔ اپنے کوارٹر جیسے کمرے میں گھسا، آگے اسما بیٹھی تھی بنی ٹھنی چارپائی پہ۔ کیا نظارہ ہو گا ویسے، یہ ناک میں کوکا، کان میں بندے، وہ لال چنری، اس پہ سنہری گوٹا کناری اور چھوٹے چھوٹے ستارے اور وہ کاسمیٹک کی خوشبو، ہائے سر جی! اچھا سنیں۔ فضلو اب آ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اور اسما آگے بیٹھی کسی اور ہی گھن چکر میں گھوم رہی تھی۔ فضلو گھونگھٹ اٹھانے ہی لگا تھا پر اچانک ایسی ٹیس اٹھی فضلو کے کہ چیخ ہی نکل جاتی۔ دوڑا غسل خانے کی طرف۔ پیشاب کرنے کی کوشش کرتا تو کچھ نکلتا ہی نہ تھا۔ ٹوٹی سے منہ لگایا گھڑوں پانی غٹکا پر تکلیف تھی کہ اور بڑھتی جاتی تھی۔ اب جولائی کا مہینہ تھا، ایسا حبس تھا کہ سانس اکہرا ہوتا(اس کا سانس اب حبس کی وجہ سے یا اس اللہ ماری معجون کی وجہ سے گھٹ رہا تھا یہ تو پتا نہیں)۔ کھڑکی کھولی پر تسلی نہ ہوئی۔ کھڑکی پھاند کے باہر آ گیا۔ کافی چکر کاٹتا رہا۔ ناڑا پھر سے ڈھیلا کیا، جھاڑیوں کے پیچھے ڈھلوان پہ بیٹھ گیا۔ بیٹھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگ گئی۔

“ما چو پشاب تو کرنے دو” یہی کہا ہو گا اس نے

گھنٹی بجنا بند ہوئی تو پیشاب خارج ہونے لگا۔ اب فر گھنٹی بجنے لگ گئی- ایسے میں تو گالی دینے کا اور ہی چس آتا ہو گا نا سر جی
“ما چو کیوں لے رہے ہو پنگے”
یہی کہا ہو گا اس نے

فضلو کا درد تو جاتا رہا تھا دیکھتا کیا ہے اس کا پیشاب ڈھلوان سے بہتا چیونٹیوں کے ایک بِل کی طرف بڑھے جاتا ہے۔ فضلو نے جلدی جلدی دائیں ہاتھ سے شلوار پکڑی، بِل کے سامنے اپنی جوتی سے ایک لکیر کھود دی کہ پشاب بیچاری چیونٹیوں کے گھر کو غرق نہ کر دے کہیں۔

اسما نے فضلو کو کمرے میں آتے ہوئے دیکھا تو فضلو کا رنگ نا بالکل فق تھا، ظاہر ہے اتنا درد جو ہوا تھا غریب کو۔ اب تک تو اسما اپنا گھونگھٹ خود ہی اٹھا کے چارپائی پہ ٹانگیں لٹکا کے بیٹھ گئی تھی۔ سونے کے کپڑے بھی صندوقچی سے نکال لئے تھے۔ میں نے آپ کو کہا تھا نا اسما کے دماغ میں اور ہی کھچڑی پک رہی تھی وہ سوچ یہ رہی تھی کہ کہے کیا اور کیسے کہے۔ وہ فضلو کے ساتھ کام شام نہیں ڈالنا چاہتی تھی سر جی۔ ڈالتی بھی کیوں، دل تو وہ فیکے کو دے بیٹھی تھی۔ سوچنے لگی، کہہ دوں تو کہیں مار پیٹ نہ شروع کر دے۔ مرد ہے اور مرد تو ایسے ہی خونخوار ہوتے ہیں کہ ایسی بات سن لیں تو ٹوٹے کر دیں آرے سے۔ پر وہ کوئی ایسا ویسا مرد تھوڑی تھا، فضلو تھا۔ وہ اسے بچپن سے جانتی تھی، ساتھ بڑی ہوئی تھی اس کے۔ وہ سوچنے لگی، دل کا بہت سادہ ہے ایسا نہیں کرے گا۔ اور اب اگر کر بھی دے تو بھلے کر دے، پر جو سچ ہے وہ سچ ہے۔ نکاح کر لیا پر دل کہاں بدلتا یے وہ تو فیکا فیکا کر کے لتھیڑا جاتا تھا ریت میں۔ اب بھلے مار دے، ٹوٹے کر دے پر نہیں کرنا کچھ بھی بس۔

ان حالات میں بونگوں کی طرح مسکرانا بھی کمال ہی ہو گا نا سر جی، اور فضلو مسک ہی رہا تھا۔ آیا آ کے چارپائی پہ بیٹھ گیا۔

کہنے لگا “گھونگھٹ اتار دیا تو نے؟”
اس نے ایسے ظاہر کیا جیسا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اسما کا بسورا منہ دیکھ کے کہنے لگا
“دوست ڈرامے کرتے ہیں۔ کبھی فون پہ مس کالیں مارتے ہیں، کبھی کھڑکی کھڑکا کے نس جاتے ہیں۔”
کہن لگا “اچھا سن تو کپڑے بدل لے ”
اسما ہچکچاتی کہنے لگی
” فضلو ایک بات کہنی تھی تجھ سے ”
فضلو آگے سے ہنستے ہوئے بولا:” ہاں جی بولیں”
“برا نہ منائیں!” ڈردی کہن لگی
اونے اگوں کہیا ” بول تے سہی ”
“پیریڈ ہو گئے ہیں مجھے۔”

“اچھا؟” کہن لگا “چل کوئی نہیں۔ پر تو کپڑے تو بدل لے۔ میں بھی بدل لیتا ہوں۔”
یہ کہہ کر اس نے پس پیش میں کلف لگی شلوار قمیض اتار دی۔ اور بنیان جانگھیے میں اسے ٹاٹرا ہو کے دیکھنے لگا۔ اسما فوراً اٹھی اور بڑی روکھی سی ہو کے نا اپنے رات کے کپڑے اٹھا کے غسل خانے کی طرف ٹُر گئی۔
“یہیں بدل لے” فضلو نے ہنستے ہوئے اسے کہا

پر اسما نے چپ کر کے نا غسل خانے کا دروازہ بھیڑا، لگی کپڑے بدلنے۔ فضلو دبے پاؤں آیا، تالے کے سوراخ سے اسما کا الف ننگا جسم دیکھنے لگا۔ ( یہ وہی سوراخ تھا نا جس سے 10 سال پہلے بھی فضلو اپنی، کیا نام ہے اللّٰہ بھلا کرے، اسما کے دو زنگولوں کو دیکھ کر بھونچکا ہوتا تھا) اسما نے ایک ایک کر کے اپنے زیر جامے اتارے۔ اس کی جھانٹیں جو تھیں نا سر جی نیزے کی نوک کی طرح بنی ہوئی تھیں، جن کا اشارا سیدھا اس کی زہار کی طرف جاتا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میں بکواس ہی کر رہا ہوں۔۔۔ پر جادو ایسا تھا نا کہ ایک بھبک اٹھتا نا تو غڑپ کر کے فضلو دھویں کا مرغولہ بن کے غیب ہو جاتا۔ فضلو کو سوجی شیطانی، اس نے دروازہ اچانک کھول دیا، اب تو شادی ہو چکی تھی اب کیوں ڈرنا ورنا ہیں جی؟ اب سوراخوں سے چوری چھپے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ( آپ بھی سوچتے ہوں گے)۔ایسی نقب لگی کہ اسما بوندلا ہی گئی اور اس نے فورا ًدروازہ بند کر دیا۔ فضلو کچا سا ہو گیا، پر خجالت میں بھی ہنستا تھا۔

” اب بھی شرمائے گی مجھ سے” کہن لگا۔

فضلو چارپائی پہ لیٹا اور اس روئی کے پھاہے کے بارے میں سوچنے لگا جسے پیریڈز کے دنوں میں سرخ ہونا چاہیے۔ پر وہاں تو کوئی پھاہا تھا ہی نہیں۔ کسی عیار جادوگر کا فریب تھا سر جی جو وہ پھاہا غیب ہی ہو گیا تھا۔

اسما باہر آئی تو اس نے اپنی مری ماں کی لال گلابوں والی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، جو شادی سے تین دل پہلے ہی اس نے پیٹی سے برآمد کی تھی۔ آ کر فضلو کے ساتھ چارپائی پر لیٹ گئی۔ یہ جو چارپائی تھی نا مونج کی بان سے بنی ہوئی تھی سر جی — بالکل نئی، تبھی تو اتنی سخت تھی۔ اس حبس میں تو ایسا لگتا تھا کہ کنڈوں پر لیٹ گئے اور وہ بھی سیہہ کے۔ اب لیٹ گئے تو فضلو کے سر پہ پھاہا سوار اور اسما کہ سر پہ فیکا۔ اس خاموشی میں بہت زیادہ شور تھا سر جی۔ پھاہا ہونا نہ ہونا کوئی ایسی ضروری بات بھی نہیں تھی پر فضلو جانتا تھا کہ اسما فیکے سے پیار کرتی ہے، اس نے انجان بننے میں غنیمت جانی۔

اب میں نے دیکھا کہ لال پھاہا تخیل میں بڑا ہوتا جا رہا ہے اور چارپائی پر چادر کی طرح بچھ گیا ہے اور وہ چارپائی آسمان میں اڑن کھٹولا بنی پرواز کرتی ہے۔ مقبول، جو مجھے کہانی سنانے میں مصروف تھا، کے ہونٹ تو ہل رہے تھے پر مجھے آواز نہیں آ رہی تھی۔ میں لال پھاہے پہ فضلو کو کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اور فضلو بارہ کہو کے چھوٹے چھوٹے گھروں کو۔ سڑکوں پر چیونٹیوں کی مانند انسان رینگتے تھے۔ وہ بانسری ہونٹوں سے لگائے ہوئے تھا جو سارے کو مبہوت کیے ہوئے تھی۔ ہُدہُد، طوطا اور نیل کنٹھ فضلو کی اڑن سواری کو دیکھ کر متحیر تھے کہ یہ کون سا پرندہ ہے جس کے پر اس کے پیروں کے نیچے ہیں۔ جو ان مردود انسانوں سا دکھتا ہے جو ان کے گھروندوں کو توڑتے تھکتے نہیں۔ نیل کنٹھ کو یاد تھا کہ کیسے اس کی ماں کو اسی شکل کے ایک لڑکے نے غلیل نامی ایک لکڑی کی دستی توپ سے مارنے کی کوشش کی تھی۔ ہُدہُد اس کو دیکھ کر ہنستی تھی کہ اس کے خانوادے میں کوئی ایسا سُر لگا نہیں سکتا تھا
جیسے سُر اس نوجوان کی بانس کی لڑی سے نکل رہے تھے۔ اور طوطا؟ وہ تو ہر طلسمی کہانی کا مرکزی جز ہوا کرتا ہے۔ میں نے طوطے سے پوچھا اے عنقائے سبز آگے کیا ہوا؟اور طوطے نے مجھے سر جی سر جی پکارنا شروع کر دیا۔ وہ آواز مار پیچوں سے ہوتی میرے کانوں میں یوں آئی کہ طوطے کا سر مقبول جیسا ہو گیا۔

سو وہ تندور پہنچ گیا نا جب۔۔۔ آپ سن بھی رہے ہیں میں کیا کہہ رہا ہوں۔
وہ تندور۔۔۔ سر جی ؟
میں واپس اپنے گھر میں تھا اور مقبول اپنا قصہ جاری رکھے ہوئے تھا۔
تو کہاں تک سنا آپ نے؟
یہی کہ وہ ایک چارپائی پر آ کر لیٹ گئے تھے۔
تو آپ نے یہ نہیں سنا کہ اس نے اسما کو چومنے کی کوشش کی تھی؟
نہیں
خدایا! یہ پڑی ہے میری قصہ گوئی۔ سن تو لیا کرو نا مسالہ بار بار نہیں لگتا سر جی۔ اب سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ اس نے سونے سے پہلے اسے چومنے کی کی کوشش، پر اسما نے کوئی لفٹ ہی نہیں کرائی۔ کنڈ کر کے لمبی ہو گئی۔ میں نے تو فضلو کو تندور تک بھی بھیج دیا تھا، ایک ایک ہچکولا سوزوکی کا آپ کو گنوایا تھا۔ چلیں کوئی نہیں، پر غور سے سنا کرو نا سر جی۔ اینوے نہیں بنتی یہ کہانیاں۔
میں فورا اچنبھے میں پڑا کہ کیا تم اتنی دیر سے مجھے کہانیاں سنا رہے ہو۔ تم نے مجھے کہا تھا فضلو بارہ کہو کا تندور والا ہے حاجی افضال۔
سر جی کہانی تو اسی کی ہے پر وہ کون سی کہانی ہوئی جو بالکل سچی ہو۔ جھوٹ کے بغیر تو بنتی نہیں کہانی۔

مقبولے اب مجھے یہ بتا کہ اس میں سچ اور جھوٹ علیحدہ کیسے ہو گا۔
سر جی یہ تو آپ کا کام ہے، میں نے تو کہانی سنانی ہے۔ اور پھر وہ ہنسنے لگا۔ اسے معلوم تھا قصہ گوئی کا جو گُر اس کے پاس ہے وہ تو پورے بازار کو روک دے۔ قصہ خوانی بازار میں پہلے جیسے قصہ گو ہوتے تو وہ کسی سرائے میں بیٹھا، ہر رات اشرفیوں پر اشرفیاں گنتا پر اس بد نصیب کو مجھ جیسے کوڑھ کو کہانیاں سنانا تھیں۔

مقبول بولا چلیں پہلے اسما کی سن لیں پھر فضلو کی سناتا ہوں۔ اسما اپنی ماں کے مرنے کے بعد سے اپنی مامی کے گھر پہ ہی تھی، یعنی فضلو کی اماں، وہیں پلی، سو شادی کے بعد جو ناز نخرے دلہنوں کے اٹھائے جاتے ہیں مامی نے اٹھانے کی کوشش کی اور کہا ابھی کچھ دن گھر کے کام میں آپ کروں گی تو دلہن بن کہ بیٹھ جا۔ پر وہ کیسے چھوڑ دیتی سارے کام بڈھی مامی کے سِر پہ۔ اٹھی اور کپڑے دھونے لگ گئی۔ ہاتھوں سے صابن لگی پوشاکیں رگڑتی جاتی تھی پھر مہندی کے رنگ کو دیکھتی تھی، پر مہندی کا رنگ ایسا رچا ہوا تھا کہ مٹنے کے بجائے اور گاڑا ہوتا تھا۔ جب وہ کپڑے برآمدے میں ٹانک کے فارغ ہوئی تو چھتی پہ چلی گئی اور تار پر جھٹک جھٹک کے کپڑے لٹکانے لگی۔ دو چھتیں چھوڑ کے فیکے کا گھر تھا۔ اسے یاد تھا کیسے وہ یونہی کپڑے ٹانکنے اوپر آتی تھی اور فیکا چھتیاں ٹاپتا ٹاپتا اس کو اپنے بازؤں میں جکڑ لیتا تھا۔ اس کے ہونٹ کاٹ لیتا تھا۔ وہ غمگین ہو کے رونے لگی۔ سعودی عرب مزدوری کو گیا واپس ہی نہ آیا۔ خصماں نو کھائے پیسے تو ماں پیو کو آتے ہوں گے پر فیکا نہیں آیا، پانچ ورے ہو گئے۔ راہ اس کی تکتے تکتے اسما خود دھول بن کے اڑتی جاتی، اڑتی جاتی۔ سوچنے لگی یہ جھوٹ کب تک چلے گا چار دن، پانچ دن ایک ہفتہ۔ فضلو کو کب تک منع کرے گی۔ وہ سوچتی تو اس کے سامنے اندھیرا آ جاتا۔ روہانسی ہو کے روتی جائے، اب نیا بہانہ کہاں سے لائے۔ پھر خود کو کوستی کیوں اتنی طاقت نہ آئی تجھ میں کہ مامی کو کہہ دیتی کہ پالا تو نے، تیرا احسان ہے، کسی اور طرح پورا کروا لے، پر دیکھ، بغیر فیکے کے ہور کسی سے نہ کروں گی بیاہ۔ اپنی کایرتا کو لاکھ گالیاں دیتی۔ آنسو اتنے تھے نا سر جی کہ بارش سے چھتی چوتی تھی، قسمے یہ جھوٹ نہیں ہے سر جی، ساون اسی کو تو کہتے ہیں۔ اب پھر اتارو کپڑے تاروں سے۔

اُس بازار کو، جس میں فضلو کے باپ کا تندور تھا، کوئی آسمان سے دیکھے تو ایک گلی ہو گی سر جی مگر اس بازار سے آسمان کو دیکھیں تو دیکھیں کیسے؟ سر جی یوں لگے گا کہ آسمان نہیں ہے بس ترپالیں پڑی ہیں۔ آدمی پر آدمی گرتا تھا، جھائیں جھائیں ٹر ٹر ہر طرف۔ سڑک پر نا اتنے بڑے اور گہرے کھڈے تھے کہ ایک آدھ سے تو وہ گائے بھی دکھتی تھی جس کے سینگوں پہ دنیا کھڑی ہے۔ روڈ جہاں سے مڑتی تھی وہاں پولیس کا ناکا تھا (وہ چِھلّڑ بھی پاتال کے دروغے ہی لگتے تھے)۔ شہر میں تقریباً ہر گاڑی چیک ہوتی تھی۔ پر بم پھر بھی پھٹتے تھے، سر جی آپ کو تو پتا ہے سب۔ مجھے یاد آیا ایک نا سر جی ہمارا دوست تھا سائیکل پہ ناکے سے گزر رہا تھا( غریب آدمی تھا) دسمبر کا مہینہ ہو گا، چادر ڈالی ہوئی تھی۔ چھلڑوں نے روکا تو پاگل کے پتر کے دماغ میں پتہ نہیں کیا آئی اچانک اللہُ اکبر کہہ کہ چادر کھول دی۔ چھلڑوں کا تو ترہا ہی نکل گیا سر جی۔ سارے اِدھر اُدھر دوڑ گئے۔ ایک دو منٹ کی کامیڈی کے بعد غریب کو صحیح پنج پئی۔ ہیں جی؟ ان دنوں تو آپ کو پتہ ہے ایسا دڑ پڑا ہوا تھا کہ دھڑا دھڑ بم پھٹتے تھے۔ میریٹ کا ستیا ناس ہوا تھا نا جب سر جی، اور جو وہ ڈراؤنی آواز آئی تھی جس سے شیشے تو پتا نہیں کتنے گھروں کے ٹوٹے تھے پر ایک انگریز لڑکی کا بُندا جو تھا نا میریٹ سے اڑتے اڑتے فضلو کے باپ کے قدموں میں آ کے گرا گیا تھا۔ وہ ہیرے کا بُندا بیچ کے ہی تو فضلو کی شادی کا سارا خرچ پورا ہوا تھا۔ لوگ پوچھتے تھے کہ 10 کوس دور سے بھی کوئی بُندا آ سکتا ہے اڑ کے بھلا، پر جو حق ہے سر جی سو حق ہے۔

اب اس دن ساتھ کی مرغیوں کی دکان سے ٹاپے ککڑو کوں کرتے تھے اور فضلو کا پیو روٹیاں لگا رہا تھا، فضلو پیڑے ایک کے بعد ایک کرتا تھا۔ بی اے کے امتحان کب کے ہو گئے تھے۔ اب گھر بیٹھنے سے تو بہتر یہی تھا نا کہ باپ کی مدد کرے، ہیں جی؟ تندور کے منہ کے ساتھ چھابڑی میں تل پڑے تھے جسے روٹی لگانے سے پہلے فضلو کا باپ نانوں پر لگاتا جاتا تھا ( آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا، ہر تندور میں ایسا ہی ہوتا ہے )۔ پگھلا گھی بھی ایک پلیٹ میں پڑا تھا اور ساتھ اس کے ایک کھوچی سی تھی جسے پھیرے بغیر تل والا نان روغنی نہیں ہوتا۔ سر جی آپ کو پتا ہے نا روغن فارسی میں مکھن کو کہتے ہیں۔

میں نے مقبول سے کہا کہ روغن چکنائی یا تیل یا چربی کو کہتے ہیں۔ مکھن کو فارسی میں کرہ کہتے ہیں۔

وہ بولا : سر جی ایک ہی بات ہے مکھن میں بھی چکنائی ہی ہوتی ہے ہیں جی ؟ اچھا آگے سنیں۔

تندور کی میلی دیواروں پر بہت سی چیزیں ٹنگی ہوئی تھیں۔ ایک کیلنڈر تھا جس پہ ساون کے مہینے کی تاریخیں نظر آ رہی تھیں اور اوپر گامے پہلوان کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ویسے، سر جی گامے پہلوان کو نا صرف ایک پہلوان نے ہرایا ہے، اس کا نام تھا نون پہلوان۔ اب تو سارے پہلوان نون غنے ہی آ رہے ہیں سر جی۔

میں نے مقبول کی تصحیح کی کہ گامے کو آج تک کسی پہلوان نے نہیں ہرایا۔ تو مقبول بولا:

سر جی نون پہلوان اس کا نانا تھا، بچہ ہو گا تب ہرا دیا ہو گا۔ گامے کو چھوڑیں یہ سوچیں کہ گامے کی تصویر بھلا تندور میں لگی کیا کر رہی تھی۔ فضلو کا باپ بھی پہلوان تھا نا سر جی۔ ایسا غصیلہ پہلوان اگر آپ کا پیو ہوتا تو آپ کو بھی فضلو کی طرح اسما اور فیکے کا قصہ جانتے بوجھتے ہوئے اس سے شادی کرنا پڑتی۔

فیکا پیڑے کہاں بنا رہا تھا، اسما کے ساتھ گزاری رات کے بارے میں سوچے جاتا تھا۔ اور یہ کہ آنے والی رات اسے مونجھ کے کانٹوں پر کیسے لیٹنا ہو گا۔ یہ سوچتے سوچتے وہ اٹھا اور گولڑہ شریف اپنے مرشد کے پاس جا پہنچا۔ پر پیر و مرشد جناب مہر علی شاہ صاحب کے پڑپوتے جناب پیر نصیر الدین نصیر کچھ بیمار تھے (اسی سال انھیں اچانک دل کا دورہ پڑا اور ان کی وفات بھی ہو گئی)،سو اس نے سوچا اگر لو لگا لی جائے تو کوئی بات دل میں بیٹھ جائے گی۔ بس لو لگی اور کوئی بات دل میں بیٹھ ہی گئی۔

گھر پہنچا تو ماں سے کہنے لگا اماں خدا دا واسطہ کوئی دلائی ہی ڈال دے چارپائی پے۔ رات ساری کانٹوں کی طرح کھبتی رہی ہیں بان کی رسیاں۔ خاموشی کے بھی کانٹے ہوتے ہیں سر جی، اور دلائی ڈالنے سے نا وہ کانٹے چبھنا بند نہیں ہوتے، ہیں جی؟

اسما اور فضلو پھر چارپائی پر لیٹے تھے۔ ساتھ سیڈ ٹیبل پر ایک ریڈیو پڑا تھا جس پر ان ہندستوڑوں کے گانے چل رہے تھے۔
مقبول نے گانا گانا شروع کر دیا

“بیتی نہ بتائی رینا، برہا کی جائی رینا”
“بھیگی ہوئی اکھیوں نے لاکھ بجھائی رینا”

گانا تو سنا ہو گا نا آپ نے سر جی، جیا بچن والا

بس اس دوران اسما کا دل نا جی بہت تیزی سے پھڑک رہا تھا۔ وہ سارا وقت یہی سوچ رہی تھی کہ وہ کیسے یہ سب کہے گی۔ اور اگر یہ سب کہنے کے بعد کیا بعید کہ فضلو اسے مار ہی ڈالتا۔ بھلے مار دے اس نے سوچا پر وہ فیکے کے علاوہ کسی اور کے ساتھ محبت نہیں کر سکتی۔ اس کا دل، اس کا جسم فیکے کی امانت ہے اس نے سوچا۔ پھر وہ سوچتی فضلو بڑا اچھا انسان ہے، مجھے ہرگز کچھ نہیں کہے گا۔ پھر اچانک نہ جانے کہاں سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے سر جی۔ اپنی قسمت کو کوسنے لگی کہ میں کتنی کو بدقسمت ہوں کہ مجھے وہ شخص بھی نہ ملا جسے میں نے یوں ٹوٹ کر چاہا۔ پگھلا ہوا مسکارا آنکھوں کی موم بتیوں سے گر رہا تھا سر جی۔ پر اسما کو کیا فکر تھی۔ اس نے فیکے کا نام لیے بغیر اپنی تیز دھڑکنوں کو اور تیز ہوتے دیکھا، پر اسے جو کہنا تھا کہہ ہی دیا۔

“میں نے سوچا تھا نکاح کے بعد میرا دل بدل جائے گا۔ پر میں وہیں کھڑی ہوں قسمے۔ نہ آگے کو جا سکتی ہوں نہ پیچھے کو۔ مجھ پہ مہربانی کر فضلو، مجھے بخش دے”۔

فضلو سر جھکائے ہوئے بولا

“نہ کر دیتی پہلے، جو قبول نہیں کرنا تھا دل سے۔ ”

“تیری ماں میری ماں ہے، اتنا جو احسان ہے اس کا، کیسے منع کرتی میں”
وہ روتے ہوئے کہنے لگی
” وہ جو ماں ہے تیری تو میں بھی ماں جایا ہوا پھر،مرشد کی قسم تجھے ہاتھ نہ لگاوں گا۔ تو ایسے ہے جیسے میری بہن ہو۔”

اب جب بات منہ سے نکلی نا سر جی فر لگا پتا اس کو کہ وہ کیا کہہ بیٹھا تھا۔ یہ بات گولڑا شریف کے سامنے لو لگاتے ہوئے تو اتنی مشکل نہیں لگی تھی پر اب یہ کہنے کے بعد اس کا سانس کیوں گھٹنا شروع ہو گیا تھا؟ ظاہر ہے ایسی قسم تو کسی بڑے ولی کو بھی ہلا دےاور وہ تو بے چارا مسکین سا آدمی تھا۔ تھوڑی دیر تو ٹوٹل خاموشی تھی سر جی، پھر فضلو کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

اسما کو فضلو اس ٹیم بہت ہی چنگا لگا تھا۔ اس نے آنکھیں اٹھائیں تو فضلو کی داڑھی آنسوؤں سے گیلی ہو رہی تھی۔

ہر رات اسما آنکھیں بند کر کے سونے کا ڈرامہ کرتی پر فضلو سوتا ہی کہاں تھا سر جی۔ ساری رات خصماں کھانے موبائل پر کچھ کھیلتا رہتا۔ ٹوں ٹوں کی آواز سارا ٹیم آتی رہتی۔ اسما مکر کرتے کرتے اصل میں سو جاتی۔ صبح ہوتے ہی فضلو تندور کو چلا جاتا۔ اور اسما مامی کے ساتھ گھر کے کاموں میں جت جاتی۔ اسے مامی کا گھر بالکل پرایا نہ لگتا تھا۔ اور لگتا بھی کیسے، بچپن سے ماں کے مرنے کے بعد اسما کو اس کی مامی نے اپنی اولاد سمجھ کر پالا تھا۔ وہ مامی کو اتنا خوش دیکھ کر دل میں بہت اداس ہوتی۔ وہ اپنی ماں جیسی مامی کو خوش نہیں کر سکتی تھی سر جی۔ وہ اس کے بیٹے کو کیسے قبول کرتی۔

اسما کو یاد تھا کہ پہلی بار فیکے نے اس کے ہونٹوں کا رس جب پیا تھا نا، وہ ساری رات فیکے کی خوشبو اپنی سانسوں میں محسوس کرتی رہی تھی۔ اس کے پسینے کو سونگھ کے کوئل باغ کا رستہ بھول جاتی ہوگی۔ ایسا گبرو جوان کس ماں نے جننا تھا۔ سیلاب کے ریلے سے گیلیاں رسی ڈال کے کھیچ لینے والا، قربانی کے ٹیم اکیلے گائے کو گرا لینے والا، باشک ناگ کو گردن سے دبوچ لینے والا، ایسا گبرو سر جی، کس ماں نے جننا تھا۔

پر فضلو بھی ایسا برا نہیں تھا، اگر فیکا گبرو تھا نا سر جی تو فضلو نازک دل ہیں جی؟ دل اس کا کلیوں جیسا نرم۔ اس کی بانسری قوس قزح کے رنگ کھینچ لیتی تھی سر جی۔ کتنا رحم دل تھا وہ۔ ورنہ کس کا ایسا دل ہو گا کہ یہ جانتے ہوئے کہ اس کی بیوی کسی اور سے پیار کرتی ہے، اسے کچھ نہ کہتا ہو۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے فضلو پہ پیار آنے لگا تھا۔ وہ اکثر سوچتی کہ یہ اس کا دل کیسا دل ہے کہ ایک وقت دو مردوں کو چاہنے لگا ہے۔ فضلو کی بانسری بھی اس کو اتنی چنگی لگتی جتنی فیکے کے پسینے کی خوشبو۔ وہ یہ خیال آتے ہی اپنا سر جھٹکتی۔

“میں فیکے سے پیار کرتی ہوں “۔
“فضلو میرا کچھ نہیں۔ پر وہ میرا شوہر ہے۔” وہ سوچتی۔ فیکا میرا کچھ نہیں۔”

یہ گومگونی نا اس کو چلہا کر رہی تھی سر جی۔ وہ دل ہی دل میں وہ ٹیم یاد کرتی جب اس کے ادھ ننگے جسم پر فیکا کھیت میں کسی پھنیر سانپ کی طرح جھپٹ رہا تھا۔ وہ کہاں ہل سکتی تھی سر جی۔ اس وقت اسما نے مکئی کا بوٹا سرمستی میں نوچ لیا تھا۔ ایسا گبرو سر جی کس ماں نے جننا تھا۔

اس رات جب اسما اور فضلو پھر ایک بار چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے تو فضلو کے خراٹوں کی آواز سن کے، اسما نے کروٹ لی اور فضلو کے پسینے کو سونگھنے لگی۔ اسے اس پسینے کی خوشبو میں بھی اپنایت سی محسوس ہوئی سر جی۔

دوسری طرف فضلو کی دھڑکن اب زیادہ تر تیز ہی رہتی تھی، سر جی پریشان جو تھا اور گردن میں ایک درد مسلسل محسوس ہوتا تھا، جیسے کسی سخت گیر چڑیل نے اسے دبوچ رکھا ہو۔ اس کے لئے سونا بڑا مشکل ہو گیا تھا، وہ اگر 12 بجے بھی سوتا تو دو بجے اس کی آنکھ کھل جاتی۔ ان دو گھنٹوں میں اسے عجیب و غریب چیزیں نظر آتیں۔ کبھی پورے چاند کی روشنی میں ایک لنگڑاتا کتا نظر آتا، کبھی چوہوں کے کترتے دانت اس کی آنکھوں کو نوچنے کی کوشش کرتے۔ سر جی کبھی مکڑیوں کا ایک جمگھٹا اس کی لاش کو اٹھائے پھرتا۔ اسے یقین ہو رہا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ جھلّا ہو رہا ہے۔ جسم کو آرام درکار تھا پر نیند جیسے آنکھوں سے اٹھ کر چھت پر چلتی رہتی۔ سر جی میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ وہ اپنے موبائل پر رات رات گیم کھیلتا رہتا تھا، سانپ والی گیم۔ اسے اس سانپ پر اپنا سر دکھائی دینے لگا تھا۔ ہر رات اسی شش و پنج میں گزرتی۔ وہ سوچتا رہتا کہ یہ کیسی زندگی ہے، وہ شادی شدہ ہو کر بھی شادی شدہ نہیں۔ ایک عورت کے ننگے جسم کو چومنے، چاٹنے، نوچنے کی خواہش اس کی شریانوں کو سکڑا رہی تھی۔ ہوس کی دیمکیں، فکر کے گُھن سر جی اسے آہستہ آہستہ چاٹے جا رہے تھے۔

اس رات وہ اسما کی سبز قمیض پر کڑھے لال پھولوں کو گھورتا رہا۔ گلاب کے پھول اس کے جسم کے اتار چڑھاؤ پر بکھرے پڑے تھے، قمیض کا پیچھا ڈوریوں کے جال کا سا تھا۔ وہ اس جال میں سے اسما کی کمر کے باریک نیلے بالوں کو گھورتا رہا، اوئے ہوئے سر جی ایسی تصویر کو سوچ کے تو میرے اپنے بارہ طبق روشن ہو رہے ہیں۔

“چودہ طبق” میں نے کہا

“ویسے سر جی یہ طبق کا کیا قصہ ہے”

اسے میری شکل دیکھ کہ فورا اندازہ ہو گیا کہ مجھے ابھی اس سوال سے کوئی سروکار نہیں ہے سو اس نے کہانی آگے سنانی شروع کی۔
اب اس نے ایک بار پھر گیم کھیلنا شروع کر دی۔ ٹوں ٹوں ٹوں ٹوں پھر شروع۔

پھر ہوا یوں کہ وہ سانپ فون سے نکل کر چارپائی پر رینگنے لگا۔ اسما کے پیروں سے اس کی پِنّیوں کو چومتا، اس کی پنیوں سے اس کے پٹوں تک سرکتا ہوا آ پہنچا۔ اس کے آسن کو چاٹتا، اس کی قمیض کے چاک سے اس کے ناف پیالے کو اپنی زبان سے چکھنے لگا۔ وہ ریگستانی سانپ نا سر جی اس کے سینے پر جو ریت کے ٹیلے سے تھے، لوٹتا رہا۔ سر جی اس کے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتا ہوا نا، اس کی گردن سے لپٹ گیا۔ اس کی کمر کے رستے رینگتا ہوا اس کے کولہوں تک آ پہنچا۔ ننگی چمڑی پر سانپ کے چلنے سے سر جی جو آواز آ رہی تھی وہ ایسی تھی کہ جیسے مردہ گوشت پر ناخن کھروچے جا رہے ہوں۔ فضلو کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اسما کے کولہوں کے خدوخال اسی سانپ کے رینگنے سے ریت پر ابھر آئے ہیں، ہیں جی؟ اسما کے جسم سے سوکھے گھاس کی خوشبو آتی تھی سر جی۔ اگر کوئی اس خوشبو کی پٹاری فضلو کے سامنے رکھ دیتا نا تو وہ ہمیشہ کے لئے اس پٹاری میں کنڈل مار کے بیٹھ جاتا۔

وہ چارپائی سے اٹھا اور چکر کاٹ کر زمین پر ننگے پیر اکڑوں بیٹھا گیا۔ اسما کا چہرا اس کے سامنے تھا۔ اس کی بھنووں کی بناوٹ آسمان پر نا دور کسی اڑتے پرندے جیسی لگ رہی تھی سر جی۔دونوں بھنویں جڑی ہوئی تھی نا اس کی۔ وہ اس کی بند آنکھوں کے پپوٹے پر ہلکی لکیریں گننے لگا۔
ایک دو تین۔۔ ہیں جی؟ مقبول نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا۔

ان لکیروں کو دیکھتے دیکھتے نا سر جی، اسے اسما کے سانولے پپوٹے مغرب کے آسمان کی طرح لگنے لگے۔ اس کی پلکیں ڈوبتے سورج کی شعاعیں بن گئیں۔ فضلو بھی اس پرندے کے ساتھ اڑنا چاہتا تھا سر جی۔ وہ پتا نہیں کب تک یوں اکڑوں بیٹھا رہا۔ ہاں جب تک کہ مولوی کے میئک کی کھڑکھڑاہٹ سنائی نہیں دی۔ اذان شروع ہوئی اور فضلو اپنی سوئی ہوئی ٹانگوں سے لنگڑاتا اسما کے ساتھ آ کے چار پائی پر ایک بار پھر لیٹ گیا۔ آنکھیں بند کرتے ہی دھنستے دھنستے وہ نیند کی ریت میں دفن ہوگیا۔

شامی نے اپنی ماں سے سنا تھا کہ فیکا سعودی عرب سے واپس آ رہا ہے۔ سر جی یہ سنتے ہی فضلو کا دماغ بُڑ بُڑ کر کے ابلنے لگا۔ اس کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا کہ فیکے کے آتے ہی اسما اس کے ساتھ بھاگ جائے گی۔ پر اب وہ جو اپنے مرشد کی قسم کھائے بیٹھا تھا، بہت پچھتا رہا تھا سر جی۔ کام ہی پُٹھا کیا تھا اس نے۔ وہ اس کی بہن کہاں تھی، وہ تو اس کی منکوحہ تھی، کہنے سے تھوڑا ہی نا سر جی وہ اس کی بہن بن سکتی ہے۔ سوچنے لگا مجھے خدا نے اسما کے جسم پر حق دیا ہے۔ وہ میری کھیتی ہے، میں جیسے چاہوں اس میں داخل ہو سکتا ہوں۔ اس نے سوچا وہ نامرد تھوڑی تھا کہ اس کی منکوحہ کسی ہور کے ساتھ نس جائے۔

تندور میں خمیرا آٹا ایک علیحدہ بوتل میں پڑا تھا سر جی۔ فضلو اس بوتل کو دیکھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ خمیرا آٹا سانس لیتا ہے اور سر جی خمیر واقعی زندہ چیز ہے، نہیں؟ اس نے بوتل سے کچھ خمیرا آٹا نکالا اور سادے آٹے میں شامل کر دیا۔ اپنے چکنے ہاتھوں سے پانی، آٹے اور خمیر کو ملاتے اسے اسما کے کولہوں کا خیال آیا تو وہ اور تندہی سے آٹے کو گھوندھنے لگا۔ مُکیاں زوروں سے لگاتے سر جی، وہ ہانپتا اور اسما کے جسم کا تصور اس کے دل و دماغ میں زندہ خمیر کی طرح پھولنے لگتا۔ اس نے پیڑے بنانے شروع کیے، بیسیوں پیڑے بنا ڈالے، کچھ آٹا چھوڑ دیا، کپڑے سے ڈھکا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ وہ پیڑے کہاں تھے سر جی کوئی مورتی تھی۔ اور وہ بچا ہوا آٹا ؟ پھر آپ کہیں گے میں بکواس کرتا ہوں سر جی، اس کے کولہے تھے اور وہ کیسے ٹانگیں ان سے جوڑے تھی کہ معلوم نہ پڑتا تھا کہ کولہے کہاں ختم ہوئے اور ٹانگیں کہاں شروع ہوئیں۔ پھر کیا ہوا سر جی، تندور میں آگ خود ہی لگ گئی۔ پتا نہیں آگ لگ گئی تھی یا اس کا گمان تھا۔ فضلو نے دیکھا کہ اسما تندور میں لگی آگ کو گھور رہی ہے اور پس منظر میں کسی وڈے سارے نوجوان کا سایہ موجود ہے جو فیکے جیسا دکھتا ہے۔ اسما کسی جادوگرنی کی طرح منتر پڑھنے لگتی ہے

انگ انگ زہر گھات، رنگ رنگ مضمرات
کھٹمل اور کھاٹ کھاٹ، رینگتے ہیں رات رات

آن آن رینگ رینگ گاڑ دے ہر ایک سینگ
جیبھ ہے سو چاٹ چاٹ پوٹا پوٹا کاٹ کاٹ

خمیر اور اندیشے کہیں زندہ ہو جائیں نا سر جی تو آہستہ آہستہ جو کچھ ان کے اردگرد ہوتا ہے نا اسے کریدتے کریدتے پھولتے جاتے ہیں۔

فضلو اور اسما کی شادی کو سر جی اب تین مہینے ہو چکے تھے۔اس دن بی اے کا رزلٹ آ چکا تھا، حاجی افضال کالج کی طرف بھاگا، رزلٹ بہترین تھا۔ اس نے پوری کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ کبھی وہ وقت بھی تھا کہ وہ آگے پڑھنا چاہتا تھا پر ان حالات میں آگے پڑھنا کس کے لئے ممکن ہوتا۔

فضلو آج پھر وہ معجون یا سفوف یا جو بھی تھا پھک کے بیٹھا ہوا تھا۔ اب گولڑے سے خود لایا تھا یا شامی یا افتی نے دیا، اللہ جانے پر وہ واپس گھر گیا تو فضلو کی ماں روٹیاں بیل رہی تھی۔ کڑم ساگ کے ساتھ گرم روٹی کھاتے ہوئے اس نے اسما کی طرف دیکھا جو کپڑے دھو رہی تھی اور اس کی گیلی قمیض میں اس کے نوک پستان جو تھے نا صاف نظر آ رہے تھے۔ پستان کا درز سر جی جو جھکنے پر اور نمایاں ہو جاتا تھا، فضلو کی شہوت کو اور ابھار رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ آج رات وہ اپنی قسم توڑ دے گا۔ اسما فضلو کو یوں گھورتے ہوئے دیکھ کر مسکرانے لگی۔

کڑم ساگ اور روٹی کھاتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ اب رحم سے کام نہیں چلے گا۔ وہ دل میں بار بار کہتا رہا۔ اسما میری کھیتی ہے، اسما میری کھیتی ہے اور میں جیسے چاہوں اس میں داخل ہو سکتا ہوں۔ اسما کے نوک پستان اس کے جسم میں یوں طغیانی لا رہے تھے سر جی کہ چاند سوا نیزے پر ہو۔

فضلو روٹی آدھی چھوڑ کر اسما کی طرف بڑھا اور اس کا بازو پکڑ کر کمرے میں کھینچتا ہوا لے گیا۔ ریڈیو پر کچھ گانے لگے تھے۔ سر جی پر اچانک ریڈیو کی رسیپشن آنا بند ہو گئی۔ ریڈیو کی کھڑکھڑ کے ساتھ تھوڑی ہی دیر میں اسما کی چلاہٹ سنائی دینے لگی۔ فضلو کی ماں وہ آہیں سن کر اپنی جوانی کا وقت یاد کر کے مسکرانے لگی۔

فضلو کا چہرا کمرے سے نکلتے ہوئے دمک رہا تھا سر جی جیسے کوئی بڑا کام کر کے نکلا ہو۔ کمرے کا پرانا نیلا دروازہ کھلتے ہی اس نے چیونٹیوں کی ایک قطار کو کمرے میں آتے دیکھا۔ اس کے دل میں آئی کہ وہ ان پر اپنی چپلی رکھ کر ان کا بھی کام تمام کر دے۔ اس نے انھیں مارنے کے لئے اپنا پیر اٹھایا مگر وہاں کچھ دیر کے لئے رکا رہا۔ پھر اچانک اس پر وارد ہوا کہ شیطان نے اسے بہکا دیا ہوگا ورنہ وہ اسما کے ساتھ کبھی زور زبردستی نہ کرتا۔ وہ اسی شام اپنے گھر سے یوں بھاگا کہ پھر کبھی واپس نہ لوٹا سر جی۔

تندور سے کمائے پیسوں سے اس نے صرف حج کے پیسے جمع کیے اور فضلو سے حاجی افضال بن گیا ہیں جی؟ پر سر جی اپنے مرشد کی قسم توڑنے پر آج بھی وہ خود کو بہت کوستا ہے۔ گولڑہ شریف جا کر کئی بار معافی مانگ چکا ہے پر دل کو چین ہی نہیں پڑتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *