پلکیں خون سے جم رہتی ہیں، آنکھیں رو رو تھم رہتی ہیں
راتیں بستر پر نہیں سوتیں، برف کی سل پر جم رہتی ہیں
جو زلفیں سنوری رہتی تھیں، اب درہم برہم رہتی ہیں
ان زلفوں کے مار پیچ میں گھڑیاں سم در سم رہتی ہیں
چڑیاں دھڑکن کی ساون میں دل کے پیڑ پہ کم رہتی ہیں
ہستی کے دشت سے آئی آنکھیں کیوں جویائے عدم رہتی ہیں؟
عیدیں تجھ بن کب ہستی ہیں گریہ و ماتم رہتی ہیں
میرا کلیجہ کھا جاویں گی فکریں جو ہر دم رہتی ہیں