سردیوں کی سب سے لمبی رات یعنی شبِ یلدا تھی۔ ندی کی تہہ میں ایک بوڑھی مچھلی نے اپنے 12000 بچوں اور نواسے نواسیوں کو اکٹھا کیا اور کہانی سنانی شروع کی :
تو بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دور ایک وادی میں ایک ندی تھی جہاں ایک چھوٹی سی کالی مچھلی اپنی اماں کے ساتھ رہا کرتی تھی، نام تھا اس کا ماہی کوچولو۔ ماہی یعنی مچھلی اور کوچولو یعنی چھوٹی سی پاری سی۔ ندی کا پانی پہاڑ کے پتھروں سے نکل کر وادی کی گہرائیوں میں کھو جاتا تھا۔ ماہی کوچولو اور اس کی اماں کا گھر ایک کالے پتھر کے پیچھے تھا جس پر کائی جمی ہوئی تھی۔ رات ہوتی تو ماں بیٹی دونوں کائی کے نیچے خاموشی سے سو جاتیں۔ ماہی کوچولو کی بڑی خواہش تھی کہ کوئی ایسی رات بھی ہو کہ کسی صورت چاند کی روشنی اس کے گھر میں دیکھنے کو ملے پر اس کائی جمے کالے پتھر کو چاند کی روشنی کہاں نصیب ہونا تھی۔
دونوں ماں بیٹی ایک چھوٹی سی ندی میں صبح سے شام ایک دوسرے کے آگے پیچھے تیرتے رہتے۔ کبھی کبھی دوسری مچھلیاں بھی ساتھ ہو لیتیں اور زندگی ایک چھوٹے سے دائرے میں گھومتی رہتی۔ ماہی کوچولو بہت عقل مند تھی اور شاید اس کی یہ وجہ تھی کہ اس کی اماں کے 10000 انڈوں میں سے اکیلی وہ تھی جو انڈے کے خول سے صحیح سلامت باہر نکل پائی تھی۔ چند دنوں سے ماہی کوچولو کسی سوچ میں گم تھی اور بہت تھوڑا بول رہی تھی۔ بوریت اور سستی سے اپنی اماں کے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ تیرتی رہتی۔ اماں کا خیال تھا کہ اس سستی کی کوئی چھوٹی موٹی وجہ ہو گی مگر ماہی کوچولو کی تھکن کی وجہ چھوٹی تو ہرگز نہیں تھی۔
ایک روز علی الصبح جب ابھی سورج بھی نہیں نکلا تھا ماہی کوچولو اماں کو جگا کر کہنے لگی :
“اماں اماں آپ سے بات کرنا تھی”
“میری پتری ابھی کون سا وقت ہے بات کرنے کا، اپنی باتیں بعد کے لئے اٹھا رکھو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو آؤ ندی میں گھوم کے آتے ہیں”
ماہی کوچولو نے کہا ” اماں میں گھومنے وومنے سے تنگ آ گئی ہوں، میں یہاں سے باہر جانا چاہتی ہوں۔ ”
اماں نے کہا “اتنی صبح کہاں جانے کی پڑ گئی تمہیں؟”
“اماں میں دیکھنا چاہتی ہوں اس ندی کا پانی جاتا کہاں ہے۔ آپ کو پتا ہے میں نجانے کتنے مہینوں سے یہ سوچ رہی ہوں اور اب تک مجھے اِس کا کوئی جواب نہیں مل سکا۔ کل تو میں ساری رات جاگتی رہی۔ یہ سوچ میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں خود جا کر اس پانی کا آخر تلاش کروں گی۔ میں اس ندی سے باہر کی دنیا دیکھنا چاہتی ہوں۔ ”
اماں ہنسی اور کہنے لگی ” تم بالکل میری طرح ہو میں جب چھوٹی تھی تو یہی سوچتی تھی کہ یہ پانی آخر کہاں جاتا ہے۔ میری پارو کوچولو! اس پانی کا کوئی اول آخر نہیں ہے۔ اس ندی کے پانی نے کہاں جانا ہے یہیں رہتا ہے۔ یہ پانی ہمیشہ سے چل تو رہا ہے پر اس کی کوئی منزل نہیں ہے۔ ”
“مگر اماں ہر چیز، جو میں دیکھتی ہوں، اس کا کوئی اول اور کوئی آخر ہوتا ہے صبح کا اول آخر ہے، رات کا اول آخر ہے، دنوں کا، مہینوں کا سالوں کا سب کا اول آخر ہے”
اماں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ” یہ کیا الٹی سیدھی باتوں میں پڑ گئی ہو۔ چھوڑو سب باتیں، آؤ ندی میں گھومنے چلتے ہیں۔ یہ گھومنے کا وقت ہے ایسی بے وقوفانہ باتوں کا نہیں”
ماہی کوچولو نے کہا ” اماں میں اب گھومنا پھرنا نہیں چاہتی، میں جا کر دیکھنا چاہتی ہوں کہ اور جگہوں پر کیا ہو رہا ہے۔ تم سوچتی ہو گی کہ مجھے کسی نے ان سوالوں کی ٹوہ میں لگایا ہے ایسا ہرگز نہیں ہے! میں نے خود ہی ان چیزوں کے بارے میں سوچا ہے۔ ہاں بہت سی چیزیں میں نے اِدھر اُدھر کے تجربہ سے سمجھی ہیں مثلاً یہ کہ جب مچھلیاں بوڑھی ہو جاتی ہیں تو ہمیشہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی ضائع کر دی، ہر چیز میں نقص نکالتی ہیں اور بہت رونا دھونا کرتی ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتی ہو کہ کیا اس چھوٹی سی ندی میں ادھر ادھر تیرنا ہی زندگی ہے یا زندگی گزارنے کا کوئی اور بھی ڈھنگ ہو سکتا ہے ”
اماں کہنے لگیں:
“میری جان تیرا دماغ خراب تو نہیں ہو گیا؟ دنیا ! دنیا! زندگی ! زندگی ! یہ سب کیا ہے۔ دنیا یہی ہے جہاں ہم ہیں اور زندگی یہی ہے جو ہم گزار رہے ہیں اس کے علاؤہ اور کچھ نہیں۔ ”
ہمسائے کی بوڑھی مچھلی نے پتھر کھٹکھٹایا اور کہا
” کیا صبح صبح اپنی بیٹی کے ساتھ غل غپاڑا کر رہی ہو، یہ ہماری سیر کا وقت ہے، گھومنے جانا نہیں؟”
غم و غصّے سے بھری اماں، گھر سے باہر گئیں اور اپنی بوڑھی ہمسائی سے کہنے لگیں
“ہائے ! بس یہ وقت بھی دیکھنا تھا، آج کل کے بچے ماؤوں کو مشورے دینے لگے ہیں۔ بڑے چھوٹے کی پہچان ہی کہاں رہی ہے”
اس کی بوڑھی ہمسائی کہنے لگی ” ہو ہائے! ایسا بھی کیا ہو گیا بہنا”
” کی دساں تینوں، اس آدھی چھٹاکی کی اولاد نے میرا ناک میں دم کر دیا ہے، کہتی ہے میں نے دنیا دیکھنی ہے۔ بھلا کوئی ایسی الٹی سیدھی باتیں بھی سوچتا ہے”
بوڑھی مچھلی نے گھر کے اندر جھانکتے ہوئے کہا :
“کوچولو ہمیں تو پتہ بھی نہ چلا اور تم عالم فاضل فلسفی بن گئیں”
کوچولو نے جواب دیا:
” مجھے نہیں پتا کہ عالم فاضل فلسفی کیا ہوتا ہے میں تو بس اس جگہ کے گھومنے پھرنے سے تنگ ہوں۔ میں اپنی ساری زندگی آپ لوگوں کی طرح آنکھیں بند کر کے غارت نہیں کرنا چاہتی۔ یہ نہ ہو کہ میں بوڑھی ہو جاؤں اور خود کو آپ لوگوں کی طرح بےوقوف ہی پاؤں یعنی تب بھی میری آنکھیں کان بند ہی ہوں ”
“توبہ استغفار! کیسی بدتمیز ہے یہ جو اتنا بڑھ بڑھ کے بولتی ہے” ہمسائی بولی
”
میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن میری اکلوتی اولاد ایسی بدتمیز ہو جائے گی۔ ضرور میری پیاری بچی کو کسی نے پٹی پڑھائی ہے” اماں بولیں
” مجھے کسی نے پٹی وٹی نہیں پڑھائی۔ میری اپنی آنکھیں ہیں اور اپنے کان بھی۔ میں اپنے دماغ سے خود سوچ سکتی ہوں” کوچولو نے جواب دیا
ہمسائی نے اچانک بولا ” ہو ہائے! تمہیں وہ ٹیڑا میڑا گھونگا(snail) یاد ہے، اسی نے تمہاری بیٹی کو یہ پٹیاں پڑھائی ہیں۔ خدا کی قسم دوبارہ مل جائے کہیں مجھے تو۔۔۔ ”
کوچولو نے کہا ” بس کرو وہ میرا دوست تھا”
اس کی اماں نے کہا ” کبھی مچھلی اور گھونگے کی دوستی بھی سنی ہے کسی نے”
کوچولو کہنے لگی ” تو دشمنی بھی نہیں سنی کسی نے، پر پھر بھی آپ لوگوں نے مل کر اسے پانی میں ڈبو دیا”
بوڑھی مچھلی بولی ” پرانی باتیں چھوڑو”
کوچولو نے کہا ” آپ نے خود ہی تو یہ پرانی باتیں چھیڑی ہیں۔ ”
اماں نے کہا ” ہم نے اس کو جو ڈبویا بالکل صحیح کیا، یاد ہے تمہیں وہ کیسی کیسی باتیں کرتا تھا۔ ”
” تو پھر مجھے بھی ڈبو دیں کہ میں بھی تو وہی باتیں کرتی ہوں” کوچولو بولی
اس کی ماں ہنستے ہوئے کہنے لگی ” مچھلیاں کون سی ڈوبتی ہیں؟ او پئی ہے تیری عقل! بڑی آئی سائنسدان”
بحث مباحثے کی آواز اتنی اونچی ہوگئی کہ اور بھی مچھلیاں اسے سنتے ہوئے وہاں آن پہنچیں۔
” تجھے کیا لگتا ہے ہم تجھے بخش دیں گے؟ ایک لتر پڑے گا نا، ساری عقل ٹھکانے لگ جائے گی” مچھلیوں کے غول میں سے ایک مچھلی بولی
اماں فوراً بولی “میری بچی سے دور ہو جاؤ!”
غول میں سے ایک مچھلی کہنے لگی ” اگر اپنی بیٹی کی ندی کے اصولوں کے مطابق تربیت نہ کرو گی تو اس کی سزا بھی ضرور دیکھو گی”
بوڑھی ہمسائی بولی” میں تو اس بات پر شرمندہ ہوں کہ تم جیسی مچھلیاں میری ہمسائی ہیں”
ایک اور نے کہا ” اس سے پہلے کہ یہ ہمارا نام خراب کرے آؤ اس کا بھی وہی حال کریں جو ہم نے اس گھونگے کا کیا تھا”
اس سے پہلے کہ وہ مچھلیاں کوچولو کو آن پکڑتیں، کوچولو کی سہیلیوں نے ہل ہل کر پانی کو گدلا کر دیا اور کوچولو وہاں سے فرار ہو گئی۔
کوچولو کی ماں اپنا سینا پیٹ کر رونے لگی ” ہائے میری بیٹی مجھے چھوڑ کر جا رہی ہے۔ میں کس دیوار میں جا کر سر ماروں؟ ”
ماہی کوچولو بولی” اماں میرے لئے نہ رو ان بوڑھی مچھلیوں کے لئے رو جو پیچھے رہ گئیں ہیں”
اب اس کی سہیلی مچھلیوں میں سے ایک بولی
” بدتمیزی نہ کر چھٹاکی سی تو ہے تو”
دوسری بولی ” اگر تو آج یہاں سے چلی گئی اور کل کو شرمندہ ہو کر واپس آنے کی کوشش کی نا، تو ہم واپس نہیں آنے دیں گی ”
تیسری بولی ” یہ جوانی کے چونچلے ہیں، نہ جا”
چوتھی بولی ” ہمیں بھی تو پتا چلے یہاں مسئلہ کیا ہے”
پانچویں بولی” یہی تو دنیا ہے اور کوئی دنیا نہیں واپس آ جا”
چھٹی بولی” اگر تجھے ہماری بات سمجھ آ جائے اور تو واپس آ جائے تو پھر ہی ہم تجھے عقلمند مانیں گے۔ ”
” ہم تجھے بہت یاد کریں گے، ہمیں چھوڑ کر نہ جا” سب یک زبان ہو کر بولیں
اماں بھی چیخی” بیٹا مجھ پر رحم کر مجھے چھوڑ کر مت جا”
کوچولو نے ان سب باتوں کا جواب نہ دیا۔ اب اس کی ہمجولیاں اسے آبشار تک چھوڑنے آئیں۔ ماہی کوچولو جب ان سے جدا ہونے لگی تو کہنے لگی
” زندگی رہی تو پھر ملیں گے، مجھے بھولنا نہیں”
اس کی سہیلیاں بولیں “ہم تمھیں کیسے بھلا سکتے ہیں تم نے ہمیں نیند سے جگایا ہے۔ ورنہ ہم تو کبھی تمھاری طرح سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ ہماری بہادر اور دانا مچھلی! تجھے ہمارا سلام، خدا حافظ”.
ماہی کوچولو آبشار سے گری تو تالاب میں آن پہنچی۔ پہلے تو اوسان اس کے خطا ہوئے پر بعد میں اس نے تالاب میں یہاں وہاں تیرنا شروع کر دیا۔ اس نے یوں ایک جگہ جمع ہوا پانی پہلے نہیں دیکھا تھا۔ مینڈکوں کے بچوں کا ایک غول وہاں جمع تھا جو اسے دیکھ کر اس کا مذاق اڑانے لگا۔
” اس کا منہ تو دیکھو، تیرے جیسی مخلوق بھی ہوتی ہے؟”
ماہی کوچولو نے سب کو ایک نظر غور سے دیکھا اور پھر کہا ” یوں میرا مذاق مت اڑاؤ میرا نام ماہی کوچولو ہے۔ مجھے اپنے نام بتاؤ تا کہ ہم ایک دوسرے کو جان سکیں۔ ”
”
ہم تو ایک دوسرے کو ڈڈو کے بچے ہی کہتے ہیں” ایک نے کہا
”
ہمارا جیسا عالی نصب تو پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے” دوسرا بولا
ایک اور مینڈک نے کہا ” ہم جیسا تو خوبصورت بھی دنیا میں کوئی نہیں”
ایک اور بولا ” تیری طرح ہم بدشکل اور بے ڈھنگے نہیں ہیں ”
ماہی کوچولو بولی” میں نے نہیں سوچا تھا کہ تم اتنے خود پسند ہو گے پر میں تمہیں معاف کرتی ہوں کیونکہ تم یہ باتیں صرف اپنی نادانی میں کر رہے ہو۔ ”
اس پر مینڈک کے بچے یکصدا ہو کر بولے ” تم یہ کیوں کہہ رہی ہو کہ ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے”
کوچولو کہنے لگی
” اگر تم نادان نہ ہوتے تو تمہیں پتہ ہوتا کہ اس دنیا میں اور بھی بہت سی مخلوقات ہیں جو خود کو خوبصورت سمجھتی ہیں۔ تم لوگوں کو تو اپنا کوئی صحیح نام بھی نہیں پتہ”
اب اس پر مینڈک کے بچے بہت غصہ ہوئے
” تم اپنے الفاظ اینویں ہی ضایع کر رہی ہو۔ ہم ہر روز دنیا میں گھومتے ہیں، اپنے ماں باپ کے علاؤہ ہمیں تو کوئی دکھتا ہی نہیں۔ ہاں دو چار کیڑے بھی نظر آ جاتے ہیں پر وہ کسی شمار میں نہیں آتے۔ ”
کوچولو نے کہا ” تم تو اس تالاب سے بھی باہر نہیں جا سکتے تو پھر کیسے دنیا دیکھنے کی باتیں کر رہے ہو”
میڈک کے بچے بولے “کیا تالاب سے باہر بھی کوئی دنیا ہے؟”
کوچولو کہنے لگی ” سائنسدانوں تمہیں کیا لگتا ہے یہ پانی جو اس تالاب میں ہے کہاں سے بہتا ہوا یہاں آتا ہے۔ اور اس پانی سے باہر کیا ہے؟”
” ہیں؟ پانی سے باہر ؟ کیا مطبل ؟ پانی سے باہر کیا ہے؟ کش وی نہیں! ہم نے تو کبھی بھی نہیں دیکھا ایسا کچھ۔ پاگل تو نہیں ہو تم، بونگڑ ہی ہے یہ ”
ماہی کوچولو لوٹ پوٹ ہو کر ہنسنے لگی۔ سوچنے لگی اپنا وقت برباد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاییے۔ پھر اسے خیال آیا کہ ان کی ماں سے کیوں نہ بات کر لی جائے۔ اس نے پوچھا
” تمھاری امی کدھر ہیں ؟ ” یہ پوچھنا تھا کہ ایک سبز مینڈکی کی اچانک آواز نے کوچولو کی جان ہی نکال دی۔
” اوے ! کون ہے جڑھا میری تہیاں نو چھیڑ ریا”
کوچولو نے دیکھا کے دور تالاب کے کنارے پر ایک پتھر پر ان کی امی جان براجمان ہیں۔
” میں ایدھر ہاں، جو وی بکواس کرنی ہے ایدھر آ کہ کرو”
کوچولو اس کے پاس گئی تو مینڈکی نے کہا
” سن وے کالیے، اپنے کام سے کام رکھو، میرے بچوں کو نئی نئی پٹیاں نہ پڑھاو۔ میں نے اس دنیا پہ بڑا ٹائم گزارا ہے، مجھے پتا ہے یہ دنیا بس تالاب ہی ہے اور کچھ نہیں، بڑی آئی”
کوچولو بولی ” اگر تم ایسے سو سال بھی گزار لو تو رہو گی کم عقل اور بےوقوف ہی”
یہ بات سننی تھی کہ مینڈکی نے کوچولو پر چھلانگ لگا دی پر کوچولو بجلی کی رفتار سے ایسے ہلی کہ تالاب کی مٹی اور کیڑے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔
وادی میں بہت موڑ تھے۔ اب تو اس ندی کا پانی بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اگر پہاڑی کی اونچائی سے اس ندی کو دیکھتے تو اس کی شکل ایک سفید اونی دھاگے سی دکھائی دیتی۔ سو، ایک جگہ پہاڑی سے ٹوٹے ایک بڑے سے پتھر نے، جو وادی میں آن گرا تھا، دریا کو دو ٹکڑوں میں بانٹ رکھا تھا۔ وہاں ایک ہاتھ کے جتنی کھردری سی چھپکلی پیٹ کے بل بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی۔ وہ دور ایک گول اور کھردرے کیکڑے کو دیکھ رہی تھی جو تالاب کی ریت میں، وہاں جہاں پانی کم تھا، آرام سے بیٹھا اپنا شکار کیا ہوا مینڈک کھا رہا تھا۔
ماہی کوچولو نے جب اس کیکڑے کو دیکھا تو اسے ڈر لگا، اس لئے اس نے دور سے ہی بات کرنا مناسب سمجھا۔ کیکڑے نے چپ کئے ہوئے اس کی طرف نگاہ کی اور بولا
”
واہ کیا تمیزدار مچھلی ہے! ادھر میرے قریب آؤ میری نکچو”
کوچولو کہنے لگی ” میں دنیا کی سیر کرنے نکلی ہوں اور نہیں چاہتی کہ اپنی سیر کے شروع ہی میں آپ جناب کی شکار بن جاؤں”
کیکڑا کہنے لگا ” نکچو تم ہر چیز میں برا پہلو کیوں نکالتی ہو، ڈرنے کی کوئی بات نہیں میرا پاس آؤ”
کوچولو کہنے لگی ” میں نہ تو ہر چیز میں برا پہلو نکالتی ہوں اور نہ ہی میں کسی سے ڈرتی ہوں۔ میں تو بس وہی کہہ رہی ہو جو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں اور عقل سے سمجھتی ہوں”
کیکڑے نے کہا ” تو تمہاری آنکھوں نے ایسا کیا دیکھ لیا اور تمہاری عقل نے ایسا کیا سمجھ لیا کہ تمہیں لگا کہ میں تمہارا شکار کرنا چاہتا ہوں”
کوچولو نے کہا ” اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مجھے بے وقوف نہ بنائیں، میں وہی کہہ رہی ہوں جو میرے اور آپ کے سامنے ہے”
کیکڑا بولا ” او ہو! تو تم اس مینڈک کا حال دیکھ کر یہ اندازہ لگا رہی ہو، میری معصوم نکچو، مینڈکوں سے نا، مجھے بہت چڑ ہے، اس لئے میں ان کا شکار کرتا ہوں، یہ مینڈک سمجھتے ہیں کہ بس یہی دنیا میں موجود ہیں اور کوئی نہیں، میں تو ان کا شکار اس لئے کرتا ہوں کہ انہیں بھی لگ پتا جائے کہ یہ دنیا آخر ہے کس کے ہاتھ میں۔ بس اب تو تمہیں بات سمجھ آ گئی ہو گی۔ آ جا میری جان میری سونی آ جا ادھر”
یہ کہہ کر کیکڑے نے ماہی کوچولو کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اب جب کوچولو نے کیکڑے کو اس بےڈھنگے طریقے سے رینگتے دیکھا تو بولی ” تجھے تو چلنا بھی نہیں آتا۔ تو کیا جانے کہ دنیا کس کے ہاتھ میں ہے”
ماہی کوچولو کیکڑے سے دور ہوئی اور یوں چھلانگ لگائی کہ ایک سایہ پانی پر چھا گیا۔ کیکڑا ماہی کوچولو کی ایک ہی ضرب سے ریت کے اندر دھنس گیا۔ چھپکلی نے یہ منظر دیکھا تو اتنا زور سے ہنسی کہ پھسلی اور قریب تھا کہ وہ بھی پانی میں گر جاتی۔
ماہی کوچولو نے دیکھا ایک گڈریے کا بیٹا دریا کے کنارے پر کھڑا اسے اور کیکڑے کو گھور رہا تھا۔ بھیڑ بکریوں کا گلہ پانی کے نزدیک ہوا اور اپنے منہ پانی میں ڈال کر اپنی پیاس بجھانے لگا۔ پوری وادی “میں میں بے بے” کی آوازوں سے بھر گئی۔ ماہی کوچولو نے تب تک انتظار کیا کہ تمام بھیڑ بکریاں پانی پی لیں اور وہاں سے چلی جائیں اور پھر چھپکلی سے مخاطب ہو کر بولی
” باجی چھپکلی، میں ماہی کوچولو ہوں اور اس ندی کا آخری سرا ڈھونڈنے نکلی ہوں۔ مجھے آپ عقل مند لگیں، آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟”
چھپکلی بولی ” جو بھی پوچھنا ہے پوچھو”
کوچولو بولی” سارا رستہ مجھے مرغ سقا(Pelican)، آرا ماہی(Sword Fish) اور بگلے( پرندہ ماہی خور) سے لوگ ڈراتے رہے ہیں۔ اگر تم ان کے بارے میں کچھ جانتی ہو تو بولو۔ ”
چھپکلی بولی:
“آرا ماہی اور بگلے تو یہاں پائے نہیں جاتے۔ خصوصاََ سورڈ فش تو سمندر میں رہتی ہے۔ مگر مرغ سقا یہاں سے تھوڑا نیچے شاید تمہیں مل جائے۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کے فریب میں پھنسو اور اس کے جیب میں چلی جاؤ۔ ”
کوچولو نے پوچھا ” چھپکلی باجی کیسا جیب؟”
چھپکلی کہنے لگی ” مرغ سقا کی گردن کے پاس ایک جیب سا ہوتا ہے جس میں کافی کچھ بھرا جا سکتا ہے۔ مرغ سقا پانی میں آ کر نہاتا ہے۔ مچھلیاں انجانے میں اس کے جیب کے چنگل میں جا پھنستی ہیں اور پھر وہاں سے اس کے پیٹ میں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ مگر اگر مرغ سقا بھوکا نہ ہو تو پھر وہ انہیں اس جیب میں ہی رہنے دیتا ہے کہ بعد میں انہیں کھا سکے۔ ”
کوچولو نے سوال کیا ” اگر کوئی مچھلی اس کے جیب میں پھنس جائے تو باہر آنے کا کوئی بھی راستہ نہیں؟”
چھپکلی نے کہا ” رستہ تو کوئی نہیں سوائے اس کے کہ اس کا جیب ہی پھاڑ دیا جائے۔ میں تمہیں ایک خنجر دیتی ہوں اگر خدا نہ کرے تم مرغ سقا کے چنگل میں پھنس جاؤ تو اس کا استعمال کر لینا”
یہ کہہ کر وہ ایک دراڑ میں گھسی اور پتھر کا بنا ایک خنجر لا کر کوچولو کو دے دیا۔
کوچولو نے کہا ” باجی چھپکلی! تم کتنی اچھی اور مہربان ہو۔ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟”
چھپکلی نے بولا ” شکریہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے پاس ایسے بہت سے خنجر پڑے ہوئے ہیں۔ میں جب بور ہو رہی ہوتی ہوں تو یہ خنجر بنا لیتی ہوں اور تم جیسی عقل مند مچھلیوں کو دے دیتی ہوں۔ ”
کوچولو بولی ” تو کیا مجھ سے پہلے بھی یہاں سے اور مچھلیاں گزری ہیں”
چھپکلی بولی” ہاں ہاں بہت سی مچھلیاں۔ اب تو انہوں نے ایک غول بنا لیا ہے۔ اور مچھیروں کو خوب تنگ کرتی ہیں۔ ”
کوچولو نہ کہا ” معاف کیجیے گا، بات سے بات نکلتی ہے، اگر آپ کو برا نہ لگے تو یہ بتا دیں کہ وہ مچھیروں کو تنگ کیسے کرتی ہیں”
چھپکلی بولی ” ساتھ رہ کر۔ جب بھی مچھیرے جال پھینکتے ہیں اور وہ اس میں پھنس جاتی ہیں تو مل کر زور لگاتی ہیں اور جال کو دریا کی تہہ میں لے جاتی ہیں، بےچارے مچھیرے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں”
یہ کہہ کر اس نے دراڑ پر کان دھرے اور کہا ” میرے بچے جاگ گئے ہیں۔ میں اب چلتی ہوں” یہ کہتے ہی وہ دراڑ میں گھس گئی۔
ماہی کوچولو ناچار وہاں سے چل پڑی۔ ابھی تو اس کے ذھن میں اور بھی بہت سے سوال تھے جو اس نے خود سے ہی کیے کہ
“یہ ندی کیا سمندر میں جا کر گرتی ہے؟
اس سے پہلے کہ میں مرغ سقا کو دیکھ سکوں وہ پہلے ہی مجھ تک پہنچ جائے تو کیا ہو گا؟
کیاآرا ماہی کے دل میں آئے تو وہ اپنے ہی ہم جنسوں کو مار سکتی ہے؟
بگلوں کی ہم سے آخر دشمنی کیا ہے؟”
ماہی کوچولو انہی سوچوں میں گم آگے کو تیرتی رہی۔ ہر قدم پر وہ کچھ نیا دیکھتی اور اسے یاد کر لیتی۔ اسے آبشاروں سے گرنے، سنبھلنے اور پھر تیرنے میں مزا آنے لگا تھا۔ اس نے سورج کی روشنی کو اپنی کمر پر محسوس کیا اور اس سے توانائی حاصل کرنے لگی۔
ایک جگہ اس نے ایک ہرن کو جلدی میں پانی پیتے دیکھا۔ ماہی کوچولو نے اسے سلام کیا اور کہا ” اے پیارے ہرن ! تجھے کس بات کی جلدی ہے۔ ”
ہرن بولا ” ایک شکاری میرے پیچھے پڑا تھا اس نے مجھے گولی ماری ہے۔ یہ دیکھو اس کا سوراخ۔ ”
ماہی کوچولو کو کوئی سوراخ تو دکھائی نہ دیا پر ہرن کی لنگڑاتی چال دیکھ کر اس نے اندازہ لگا لیا کہ ہرن سچ بول رہا ہے۔
پھر اس نے کچھوؤں کو دیکھا جو سورج کی گرمی سینکتے قیلولہ کر رہے تھے۔ ایک اور جگہ اس نے تیتروں کو دیکھا جن کے قہقہے پوری وادی میں گونج رہے تھے۔ پہاڑوں کی گھاس کی خوشبو ہوا میں جھومتی ہوئی پانی میں گھل مل جاتی تھی۔
سہ پہر ہوئی تو کوچولو ایک ایسی جگہ پہنچ گئی جہاں وادی چوڑی اور پانی کافی گہرا ہو گیا تھا۔ پانی جیسے جیسے زیادہ ہوتا جاتا کوچولو اور جذباتی ہوتی جاتی۔
کچھ دیر بعد اس کی مڈبھیڑ چند اور مچھلیوں سے ہو گئی۔ جب سے وہ اپنی ماں سے جدا ہوئی تھی اس نے کسی اور مچھلی کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ ان مچھلیوں کے گروہ نے اسے گھیر لیا۔
“تم تو اجنبی معلوم ہوتی ہو”
کوچولو نے جواب دیا ” ہاں میں اجنبی ہوں اور بہت دور سے یہاں آئی ہوں”
مچھلیوں نے پوچھا ” اور جانا کہاں چاہتی ہو؟”
“میں ندی کا آخری سرا ڈھونڈھ رہی ہوں” کوچولو بولی
ان مچھلیوں نے حیرانی سے پوچھا ” کون سی ندی؟”
کوچولو بولی ” یہی ندی جس میں ہم تیر رہے ہیں”
”
ہم تو اسے دریا کہتے ہیں ندی نہیں ”
ماہی کوچولو نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا پر سمجھ گئی کہ وہ اب دریا میں آن پہنچی ہے۔
مچھلیوں میں سے ایک نے سوال کیا
” تمہیں یہ بھی پتہ ہے کہ اس رستہ میں مرغ سقا بھی ہو سکتا ہے”
کوچولو بولی ” ہاں مجھے بالکل پتہ ہے”
دوسری مچھلی کہنے لگی ” تو پھر تمھیں یہ بھی پتہ ہو گا کہ اس کا جیب کتنا بڑا ہے”
” یہ بھی مجھے پتہ ہے” کوچولو نے جواب دیا
”
اس کے باوجود تم آگے جانا چاہتی ہو”
” جو بھی ہو، جیسا بھی ہو مجھے آگے جانا ہی ہے”
کوچولو نے کہا
جلد ہی یہ بات مچھلیوں میں پھیل گئی کہ ایک چھوٹی سی کالی مچھلی بہت دور سے دریا کا آخر ڈھونڈنے آئی ہے اور تو اور اسے پیلیکن سے بھی ڈر نہیں لگتا۔ چند مچھلیوں کے دل میں آئی کہ وہ بھی ماہی کوچولو کے سفر میں اس کے ساتھ ہو لیں پر ڈر کی وجہ سے ان کی آواز نکل ہی نہ پائی۔ کچھ نے آخر کار کہہ ہی دیا کہ
” اگر مرغ سقا نہ ہوتا تو ہم تمہارے سفر میں تمہارا ساتھ دیتے مگر ہمیں مرغ سقاکے جیب سے بہت ڈر لگتا ہے”
دریا کے کنارے ایک گاؤں تھا۔ کوچولو نے دیکھا کہ اس گاؤں کی عورتیں دریا کے کنارے بیٹھی برتن اور کپڑے دھو رہی تھیں۔ کوچولو کچھ دیر تک ان کی گپ شپ سنتی رہی اور بچوں کو پانی میں نہاتے دیکھتی رہی اور پھر آخر کار دوبارہ اپنے سفر پر نکل پڑی۔ تیرتی رہی، تیرتی رہی، یہاں تک کہ رات ہوگئی اور وہ ایک پتھر کے نیچے رات گزارنے کے لیے رکی اور سو گئی۔ آدھی رات کو اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دیکھا کہ چاند کی روشنی پانی پر پڑ رہی ہے اور سارے کو روشن کر رہی ہے۔ ماہی کوچولو کو چاند بہت پسند تھا۔ جب جب راتوں کو چاند پانی پر چمکتا تھا کوچولو کے دل میں آتی کہ وہ اس سبز کائی کی دنیا سے تیرتی باہر آ جائے اور چاند سے باتیں کرے۔ مگر اس کی ماں جاگ جاتی اور اسے کائی کے نیچے لٹا کر سلا دیتی۔ ماہی کوچولو چاند کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی
” میرے پیارے چندہ ماما سلام ”
چاند نے جواب دیا ” واعلیکم السلام! میری پیاری کوچولو! تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟”
کوچولو نے کہا ” میں دنیا دیکھنے نکلی ہوں”
چندہ ماما نے کہا ” میری کوچولو ! دنیا بہت بڑی ہے اور زندگی بہت چھوٹی سی، تم ساری دنیا نہیں دیکھ پاؤ گی”
کوچولو نے کہا ” آپ صحیح کہتے ہیں چندہ ماما، پر اس چھوٹی سی زندگی میں مجھ سے جتنا بھی ہو سکا میں اتنا تو دیکھوں گی”
چاند نے کہا ” میرا دل تو کرتا ہے کہ صبح تک تمھارے ساتھ رہوں پر یہ جو کالا بادل چلا آ رہا ہے، میری روشنی کو روک لے گا۔ ”
کوچولو بولی ” پیارے چندا ماما میں آپ کی چاندنی کو بہت پسند کرتی ہوں۔ میرا دل بھی کرتا ہے کہ آپ ہمیشہ میرے سامنے چمکتے رہیں.”
چاند گویا ہوا ” میری پیاری کوچولو سچ کہوں تو یہ روشنی میری نہیں، سورج مجھے یہ چاندنی دیتا ہے اور میں اس سے زمین کو چمکاتا ہوں۔ کیا تم نے یہ سنا ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ چند سال میں اڑ کر میری زمین پر لینڈ کر جائے۔ ”
کوچولو نے کہا ” پر یہ تو بالکل ناممکن بات ہے”
چاند نے کہا ” کام تو مشکل ہے پر انسانوں کے دل میں طرح طرح کے خیال آتے ہیں اور پھر وہ ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور۔۔۔ ”
چاند ابھی اپنی بات مکمل نہیں کر پایا تھا کہ کالے بادل نے اس کا چہرہ ڈھک دیا اور رات دوبارہ اندھیری ہو گئی اور ماہی کوچولو اکیلی۔ چند منٹ دم بخود تاریکی کو گھورتی رہی، پھر آخر کار اسی پتھر کے نیچے جا پڑی اور سو گئی۔
صبح اٹھی تو اس نے اپنے گرد اسی مچھلیوں کے گروہ کو کھسر پھسر کرتے ہوئے پایا جن کو وہ چھوڑ کر آگے نکل آئی تھی. اس کے اٹھتے ہی سب یک زبان ہو کر بولیں ” صبح بخیر!”
کوچولو نے انہیں پہچان لیا اور بولی ” صبح بخیر! تو تم میرا پیچھا کرتے یہاں تک آ ہی گئیں؟”
ان مچھلیوں کے جمگھٹے میں سے ایک بولی ” ہاں، مگر ابھی بھی ہمارا ڈر کم نہیں ہوا۔ ”
ایک اور بولی ” مرغ سقا کے بارے میں سوچ سوچ کر ہمیں تو چین ہی نہیں پڑتا۔ ”
ماہی کوچولو نے کہا ” تم لوگ ایک تو سوچتے بہت ہو۔ ہر وقت کی فکرمندی اچھی نہیں، آؤ! جیسے جیسے ہم سفر کرتے جائیں گے ویسے ویسے ہمارا ڈر بھی کم ہوتا جائے گا”
مگر اس سے پہلے کہ وہ سفر شروع کرتے، ایک زور دار چھپ کی آواز کے بعد پانی میں لہریں پیدا ہوئیں، ایک سایہ سا ان کے سروں پر چھا گیا اور پھر اچانک گھپ اندھیرا ہو گیا، جہاں سے باہر نکلنے کا کوئی بھی راستہ نہ رہا۔ ماہی کوچولو فوراً سمجھ گئی کہ وہ آخرکار مرغ سقا کے جیب میں آن پھنسے ہیں۔ وہ بولی
” دوستو ہم مرغ سقا کے چنگل میں پھنس گئے ہیں پر یہاں سے نکلنے کا راستہ ابھی بالکل بند نہیں ہوا۔
مچھلیوں کے جمگھٹے نے رونا شروع کر دیا۔ ایک بولی ” اب تو باہر نکلنے کا کوئی رستہ ہے ہی نہیں”
ایک اور بولی ” بس اب ایک ہی آن میں یہ ہمیں نگل لے گا اور ہمارا کام تمام”
اچانک ایک ڈراؤنا قہقہہ پانی میں گونجنے لگا یہ مرغ سقا کا قہقہہ تھا۔ وہ ہنسے جا رہا تھا، ہنسے جا رہا تھا، رکتا ہی نہ تھا۔
” مچھلیوں کا جمگھٹا اب میرے قبضے میں ہے۔ ہا ہا ہا ہا ہا۔ سچی، میرا دل تمھارے لئے بہت اداس ہے۔ میرا دل تو نہیں چاہتا کہ تم سب کو نگل جاؤں پر کیا کرو”
جمگھٹے کی ساری مچھلیاں منت سماجت کرتے ہوئے یک زبان ہو کر بولیں ” جناب عالی! انکل آپ کی ہم نے بڑی تعریفیں سنی ہے۔ اگر مہربانی کریں تو بس تھوڑی سی چونچ مبارک کھول دیں، تو ہم باہر نکل جائیں۔ ہم ہمیشہ آپ حضرت کے لئے دعا گو رہیں گے۔ ”
مرغ سقا نے جواباً کہا ” ابھی تو میں تمہیں کھانا نہیں چاہتا، کیونکہ ابھی میں نے اور مچھلیاں نگل رکھی ہیں۔ ذرا نیچے ہو کر دیکھو تو”
اب جب انہوں نے اس کے معدے میں جھانکا اور مری ہوئی مچھلیوں کی طرف نگاہ ڈالی تو اور ڈر گئیں اور کہنے لگیں ” جناب مرغ سقا ہم نے تو کچھ نہیں کیا، ہم سب بے گناہ ہیں۔ یہ ساری کارستانی تو اس ماہی سیاہ کوچولو کی ہے جو ہمیں بہلا پھسلا پر یہاں لے آئی”
ماہی کوچولو بہادری سے بولی ” اوئے ڈرپوکو! تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہ دھوکے باز مرغ سقا تمہیں، منت سماجت کرنے سے، چھوڑ دے گا”
ایک مچھلی بولی” تمہیں کچھ معلوم نہیں تم کیا کہہ رہی ہو۔ دیکھنا ابھی جناب مرغ سقا صاحب ہمیں کیسے چھوڑتے ہیں اور تجھے کیسے نگلتے ہیں”
مرغ سقا بولا ” ہاں ہاں میں تم سب کو بخش دوں گا مگر ایک شرط پر”
سب مچھلیاں یک زبان ہو کر بولیں ” قربان جائیں آپ کی شرط پہ، جلدی بتائیں کیا کرنا ہے”
” اس فضول مچھلی کو پہلے مار دو پھر میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ ” مرغ سقا نے جواب دیا
ماہی کوچولو نے خود کو باقی مچھلیوں سے علیحدہ کر لیا اور پھر ان سب سے مخاطب ہوئی
“اس کی یہ بات ہرگز قبول نہ کرو! یہ دھوکے باز پرندہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لڑوانا چاہتا ہے۔ میرے پاس ایک پلان ہے!”
مگر مچھلیوں کے جمگھٹے کے دماغ میں اپنی آزادی کی بات اس قدر گھر کر چکی تھی کہ اور کچھ سنائی ہی نہ پڑتا تھا۔ اب وہ ماہی کوچولو کی طرف بڑھنے لگیں۔
ماہی کوچولو مرغ سقا کے جیب کے ایک کونے میں بیٹھی آہستہ سے بولی ” اوئے ڈرپوکو! تم اب بہر حال پکڑے جا چکے ہو اور فرار کا کوئی راستہ نہیں۔ مجھ پر بھی تمہارا زور وور نہیں چلے گا”
مچھلیوں کا جمگھٹا ہولا ” تمہیں تو ہم ضرور مار دیں گے اور آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ ”
کوچولو بولی ” اگر مجھے مار بھی دو تو وہ تمہیں آزادی نہیں دے گا، یہ دھوکے باز ہے۔ اس کے پھسلاوے میں مت آؤ۔ ”
مچھلیاں بولی ” تم یہ باتیں اس لئے کر رہی ہو تا کہ تم اپنی جان بچا سکو تمہیں ہماری جان کی کوئی فکر نہیں۔ ”
کوچولو بولی ” بس میری بات دھیان سے سنو۔ میں اس کا ایک حل بتاتی ہوں۔ میں تم سب پرجوش مچھلیوں کے درمیان مرنے کا ڈھونگ رچاتی ہوں۔ پھر دیکھ لیں گے کہ یہ تمہیں رہا کرے گا یا نہیں۔ اور اگر تم میری یہ بات نہیں مانو گی تو یاد رکھنا میں تم سب کے اس چاقو سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دوں گی۔ پھر اس جیب کو پھاڑ کر باہر نکل جاؤں گی اور تم لوگ۔۔۔ ”
ان میں سے ایک مچھلی نے کوچولو کی بات کاٹی اور رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگی
” بس چپ کرو! میں اور نہیں سن سکتی یہ بکواس” اور ساتھ ہی اس نے رونا شروع کردیا۔
کوچولو باقی سب سے مخاطب ہو کر بولی ” اس پارے سے گپلو روندو بچے کو کدھر تم اپنے ساتھ لے آئیں”
اس کے بعد اس نے اپنا خنجر نکالا اور مچھلیوں کے سامنے پکڑ کر لہرانے لگی۔ مچھلیاں مرتیں کیا نہ کرتی۔ ناچار انھیں کوچولو کا مشورا ماننا ہی پڑا۔ ماہی کوچولو نے مرنے کا ڈھونگ رچایا۔ اور مچھلیوں نے جا کر مرغ سقا سے کہا
” جناب عالی، ہم نے اس بدتمیز فضول مچھلی کو مار دیا ہے”
مرغ سقا بولا ” بڑا چنگا کیتا!! اب اس کام کو کرنے کے انعام کے طور پر میں تم سب کو نگل جاتا ہو تاکہ تم سب میرے معدہ کی سیر کر لو”
مچھلیوں کے جمگھٹے کی اب اور کیا مجال تھی کہ کچھ کہتیں۔ وہ بڑی تیزی سے اس کے گلے سے نیچے جانے لگیں کہ اب ان کا کام تمام ہوا۔ عین اسی وقت کوچولو نے اپنا خنجر نکالا اور ایک ہی وار سے مرغ سقا کا جیب پھاڑ کر باہر نکل آئی۔ مرغ سقا درد سے چیخنے لگا اور اپنا سر پانی پر مارنے لگا پر ماہی کوچولو کا پیچھا نہ کر سکا۔
ماہی کوچولو تیرتی رہی، تیرتی رہی اور اتنا تیری کہ دوپہر ہو گئی اور پھر پہاڑ اور وادیاں ختم ہو گئیں۔ دریا اب میدانی علاقے میں آن پہنچا تھا۔ دائیں بائیں سے چھوٹے چھوٹے دریاؤں کا پانی اب اس بڑے دریا میں شامل ہو رہا تھا۔ ماہی کوچولو کو اس زیادہ پانی کا اور بھی مزہ آنے لگا۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ پانی کی کوئی تہہ ہے ہی نہیں۔ اس نے بار بار نیچے تک پہنچنے کی کوشش کی پر ناکام رہی۔ پانی اتنا زیادہ تھا کہ ماہی کوچولو اس میں گم ہونے لگی۔ وہ بہت تیری پر گم ہی رہی۔ اس نے اچانک دیکھا کہ ایک لمبا تڑنگا، بہت ہی بڑا جانور اس کی طرف حملے کی نیت سے بڑھ رہا تھا۔ اس کے منہ میں دو طرفہ آری تھی۔ کوچولو کو فوراً سمجھ آ گئی کہ
” یہ تو آرا مچھلی ہے۔ یہ تو ایک ہی لمحے میں میری تکا بوٹی کر دے گی”وہ فورا ہلی، اپنی جگہ سے ہٹی اور پانی کی سطح پر آ گئی۔ بہت دیر بعد ایک بار پھر پانی کی گہرائی میں گئی کہ پانی کی تہہ کو ایک بار پھر دیکھے۔ کیا دیکھتی ہے کہ ہزاروں مچھلیوں کا ایک غول اس کے سامنے ہے۔ ان میں سے ایک سے کوچولو نے پوچھا
“میں یہاں اجنبی ہوں، بہت دور سے آئی ہوں، ہم کہاں ہیں؟”
اس مچھلی نے اپنے دوستوں کو مخاطب کیا اور کہا
” لو ایک اور”
پھر ماہی کوچولو سے بولی ” میری سہیلی ! Welcome to the samandar”
“ہی ہی میری انگریزی تھوڑی پھنستی ہے”
ایک اور مچھلی نے اس سے کہا
“سارے دریا، ساری نہریں، ساری ندیاں اسی سمندر میں آ کر گرتی ہیں، سوائے ان کے جو دلدلوں میں ڈوب جاتے ہیں”
ایک اور بولی “جب بھی تمہارا دل چاہے ہمارے غول میں شامل ہو سکتی ہو۔ ”
ماہی کوچولو بہت خوش ہوئی کہ وہ آخرکار سمندر میں آن ہی پہنچی۔
کوچولو کہنے لگی ” میں پہلے سمندر کی سیر اکیلے کرنا چاہتی ہوں۔ پھر واپس آ کر تمہارے غول میں ضرور شامل ہو جاؤں گی۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اب کے تم لوگ مچھیرے کا جال لے کر فرار ہو تو میں بھی تمہارے ساتھ ہوں”
ان مچھلیوں میں سے ایک خوشی سے بولی
” تمہاری یہ خواہش جلد پوری ہو گی۔ ابھی جاؤ اور سمندر کی سیر کرو۔ مگر سطح سمندر پر جاتے ہوئے بگلے سے ہوشیار رہنا۔ آج کل وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ ہر روز جب تک چار پانچ مچھلیوں کا شکار کر نہیں لیتا ہماری جان نہیں چھوڑتا”
اس وقت ماہی کوچولو باقی مچھلیوں سے جدا ہوئی اور اکیلی تیرتی رہی۔ کچھ عرصہ بعد وہ سطح سمندر پر آئی، سورج چمک رہا تھا۔ ماہی کوچولو نے سورج کی گرمی کو اپنی کمر پر محسوس کیا۔ اسے بہت مزا آیا۔ سکون اور خوشی سے وہ سطح سمندر پر تیرتی رہی اور خود سے بولی
شاید موت میرے بہت قریب ہو اور میرا سراغ ڈھونڈھتی ہو۔ پر میں موت کے بارے میں ابھی کیوں سوچوں؟ اگر کسی روز میں موت کے سامنے آن کھڑی ہوئی تو کوئی بات نہیں۔ میرا جینا مرنا اہم نہیں۔ ہم سب کو ہی ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ میری زندگی اور موت کا لوگوں کی زندگی پر کوئی مثبت اثر پڑتا ہے یا نہیں۔ ”
ماہی کوچولو اس سے زیادہ اور سوچ نہ سکی۔ بگلہ آیا اور اس کو اٹھا لے گیا۔ ماہی کوچولو بگلے کی چونچ میں پھنسی ہاتھ پیر مارنے لگی مگر خود کو چھڑا نہ سکی۔ بگلے نے ماہی کوچولو کی کمر کو یوں پکڑ رکھا تھا کہ اس کی جان نکل رہی تھی۔ آخر کب تک ایک چھوٹی سی مچھلی پانی کے بغیر زندہ رہ سکتی تھی۔
ماہی کوچولو سوچنے لگی کہ
“کاش بگلہ مجھے اسی حالت میں نگل جائے تا کہ اس کے پیٹ کے مٹھی بھر پانی میں تھوڑی دیر اور زندہ رہ سکوں۔ ”
یہی سوچتے ہوئے ماہی کوچولو نے بگلے سے کہا
” میاں بگلے تم مجھے زندہ نگل کیوں نہیں لیتے۔ میں ان مچھلیوں میں سے ہوں جن کا جسم مرنے کے بعد زہر سے بھر جاتا ہے”
بگلہ کچھ نہ بولا اور سوچنے لگا ” بڑی چالاک ہے تو ! تجھے کیا لگا کہ میں بولنے کے لئے اپنی چونچ کھولوں گا اور تو بھاگ جائے گی”
خشکی اب دور سے نمایاں ہونے لگی تھی اور نزدیک سے نزدیک تر ہوتی جا رہی تھی۔ ماہی کوچولو سوچنے لگی
“اگر ہم خشکی تک پہنچ گئے تو پھر تو کام ہوا تمام”
فوراً بولی “مجھے پتا ہے تم مجھے اپنے بچوں کے لئے لے کر جا رہی ہو۔ جب تک ہم خشکی تک پہنچیں گے میں مر جاؤں گی۔ میرا جسم زہریلا ہو جائے گا۔ کیوں اپنے بچوں پر ظلم کرتی ہو۔ ”
بگلے نے سوچا ” احتیاط اچھی چیز ہے، تجھے خود کھا لوں گا، اور بچوں کے لئے کوئی اور مچھلیاں پکڑ لوں گا۔ پر تیری ڈرامے بازی کسی کام نہیں آئے گی، تو اب کر تو کچھ نہیں سکتی”
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کوچولو کا بدن ٹھنڈا اور بے جان پڑ گیا۔
” کوچولو! مر گئی؟ اوے مر گئی؟ ” بگلے نے پریشانی سے سوال کیا
” ایسے ہی اتنی مزےدار مچھلی کو حرام کیا”
پھر کہنے لگا
” اوئے! آدھی پونی جان ہے اگر تو کھا لوں۔۔۔۔۔ ؟”
ابھی اس نے یہ کہتے ہوئے اپنی چونچ کھولی ہی تھی کہ ماہی کوچولو اُچھلی اور آزاد ہو گئی۔ بگلے کو جیسے ہی سمجھ میں آیا کہ اسے کیسی بری ٹوپی پہنا دی گئی ہے، وہ فوراً ماہی کوچولو کی طرف جھپٹا۔ پر ماہی کوچولو نے بجلی کی رفتار سے ہوا میں غوطہ لگایا۔ اس کے اوسان پانی کے اشیاق میں بسرتے جاتے تھے۔ اس نے اپنے خشک حلق کو سمندری ہوا کی نمی کے حوالے کر دیا تھا۔ مگر جیسے ہی وہ پانی تک پہنچی اور اپنی سانس تازہ کی، بگلے نے کوند کی سی تیزی سے پھر اس کا شکار کر لیا اور اسے نگل گیا کہ ایک مدت تک کوچولو کو یہ سمجھ ہی نہ آئی کہ اسے کس بلا نے آن لیا۔ اس نے فقط محسوس کیا کہ ہر جگہ نمی اور اندھیرے سے بھری ہے۔ کوئی رستہ موجود نہیں اور یہ کہ کسی کے رونے کی آواز آتی ہے۔ جب کوچولو کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہوئیں تو اس نے اسی مچھلیوں کے غول میں سے ایک مچھلی کو وہاں پایا جو ایک کونے میں سکڑی ہوئی رو رہی تھی اور اپنی اماں کو یاد کر رہی تھی۔
کوچولو اس کے پاس گئی اور کہنے لگی
” اٹھو! اور یہاں سے نکلنے کا سوچو۔ رونے سے اور امی کو یاد کرنے سے کیا ہو گا”
مچھلی نے کوچولو سے پوچھا ” تم آخر ہو کون۔۔۔۔ دیکھتی نہیں ہو میں۔۔۔ میں۔۔ میں برباد ہو گئی ہوں اماں جی۔۔۔ اھوں اھوں اھوں۔۔۔ میں اب تیرے ساتھ مچھیرے کا جال سمندر کی تہہ تک نہیں لے جا سکتی۔۔۔۔ اھوں اھوں اھوں”
کوچولو نے کہا ” اب بس بھی کرو تم نے ہر مچھلی کی جو بھی عزت تھی مٹی میں ملا دی”
جب اس چھوٹی مچھلی نے رونا ختم کیا تو ماہی کوچولو نے کہا ” میں چاہتی ہو کہ اس بگلے کا کام تمام کر دوں اور مچھلیوں کو اس عذاب سے نجات دلاؤں مگر اس سے پہلے تمہیں یہاں سے باہر نکالوں گی تا کہ کہیں تم میرا پلان برباد نہ کر دو۔
مچھلی بولی ” تم تو خود مر رہی ہو تم کیسے بگلے کو مار سکتی ہو”
کوچولو نے اپنا خنجر دکھایا اور کہا ” اسی سے اس کا پیٹ اندر سے چیر پھاڑ دوں گی۔ اب غور سے سنو کہ میں کیا کہہ رہی ہوں۔ میں اب ادھر ادھر ہلنا شروع کروں گی تا کہ بگلے کو گدگدی شروع ہو جائے اور جیسے ہی وہ منہ کھول کر ہنسنا شروع کرے گا تم باہر چھلانگ لگا دینا۔ ”
غول کی اس مچھلی نے کہا ” خود تمہارا کیا ہو گا”
ماہی کوچولو بولی ” میری فکر مت کرو میں جب تک اس بد بخت کا کام تمام نہیں کرتی باہر نہیں آؤں گی”
یہ کہہ کر ماہی کوچولو نے ادھر ادھر ہلنا اور بگلے کے پیٹ میں گدگدی کرنا شروع کیا۔ غول کی مچھلی بگلے کے معدے کے کنارے پر تیار کھڑی تھی۔ جیسے ہی بگلے نے منہ کھول کر ہنسنا شروع کیا اس غول کی مچھلی نے باہر چھلانگ لگا دی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پانی میں تھی۔ اب اس نے ماہی کوچولو کا بہت انتظار کیا مگر اس کی کوئی خبر نہ آئی۔
اچانک اس نے دیکھا کہ بگلہ بار بار پیچ و تاب کھا رہا تھا اور درد سے چیخ رہا تھا۔ پھر اس نے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیے اور غوطہ کھا کر سیدھا پانی میں آن گرا۔ پھر اس کے ہاتھ پیر ہلنا بند ہو گئے۔ مگر ماہی کوچولو کی کوئی خبر نہ آئی۔
نانو مچھلی نے اپنا قصہ تمام کیا اور اپنے 12000 بچے اور نواسے نواسیوں سے مخاطب ہوئی ” اب سونے کا وقت ہو گیا ہے چلو اب سب سو جاؤ”
بچے اور نواسے نواسیاں بولے “پر آگے کیا ہوا؟ ماہی کوچولو بگلے کے منہ سے باہر نکل سکی یا نہیں، اس چھوٹی مچھلی کا کیا ہوا، وہ اپنی امی سے مل سکی یا نہیں”
نانو مچھلی نے کہا ” ان سوالوں کا جواب اب کل ! ابھی سونے کا ٹائم ہے، شب بخیر”
11999 مچھلیاں تو نانو کو شب بخیر کہہ کر سونے چلی گئیں پر ایک چھوٹی لال مچھلی نے بہت کوشش کی پر اسے ساری رات نیند نہ آئی۔ وہ صبح ہونے تک سمندر کی لہروں کے بارے میں سوچتی رہی۔