Laaltain

بس کرو (رضی حیدر)

22 اگست، 2020
Picture of رضی حیدر

رضی حیدر

رینٹ
کلچر تیری ۔۔۔
(انسان ایک سوشل اینیمل ہے)
بس کرو!
(تمہارا جین خود غرض ہے)
بس کرو!
(تنہائی کے اس ہاویہ سے ڈرو جس کا ایندھن صرف انسانوں کے دل ہیں پتھر نہیں )
بس کرو!
فلسفے بگھارتے، فروعی بکواس کرتے کب تک گزرے گی ۔۔۔ ؟
بک بک بک بک
بس کرو!
اس کلچر کی لسی رڑکتے رہو
ہر بار سمیولیٹ کرو،
یوں کرنا ٹھیک ہے یا یوں
میں یہاں اِن جیسا ہو جاؤں؟
اور اب واپس پاکستان جاؤں تو اُن جیسا ہو جاؤں؟
(وہ ہو پائے گی اُن جیسا؟
لبرل عورتیں قدامت پسندی کی پوشاک نہیں پہنا کرتیں
پہن لے تو کیا ہرج ہے؟
میرے زخمی میل شاونسٹ بندر کو ملہم لگا دے بس
پر کیوں کرے وہ ایسا
نہیں کر پائے گی)
بک بک بک بک
بس کرو
میں خود کون ہوں؟
شاید ایک بندر ہی ہوں جو
دو ایتھوس کا بنا،
رنگ برنگا،
پیوند لگا پیراہن پہن کر
نہ ادھر کا ہے نہ ادھر کا
(بندر ہوتا ہے یا کتا؟)
(میں)
کوئی درمیان کی چیز ۔۔۔
مجھے زنخوں پر بہت پیار آ رہا ہے جو میری طرح
دو شناختوں کے درمیان ناچ رہے ہیں
میں تو فقط ہونا چاہتا تھا، نہ ایسا نہ ویسا
فقط ہونا چاہتا ہوں!
ایک آشوب جہاں ، یا ہنگامہ قیامت کا
شاید دھڑکنیں ہوں میری
یا میرا کوئی نیا فتور
یا فقط شور
سیمیولیٹڈ شور
بس کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *